آرٹیکل370 کے خاتمہ کے بعد کشمیر میں خواتین و اطفال کے بڑھتے مسائل!

 منظر محسن

 آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر کے حالات کیسے ہیں بالخصوص خواتین و بچوں کو کیسی مشکلات کا سامنا ہے، جاننے کی خواہش ہو تو ملت ٹائمز کی جانب سے منعقدہ آج کے ویبینار کے لیے میری مرتب کردہ اس تحریر کو پڑھیں! : 

05 اگست 2019 میں مرکزی حکومت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے وہاں کانسٹی ٹیوشن (ایپلی کیشن ٹو جموں و کشمیر) آرڈر 2019 خصوصی آرٹیکل نافذ کر دیا ہے، جس کے تحت اب بھارتی حکومت وادی کو وفاق کے زیر انتظام کرنے سمیت وہاں پر بھارتی قوانین کا نفاذ بھی کرسکے گی۔

مودی حکومت نے وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے لداخ کو جموں و کشمیر سے علیحدہ کر دیا ہے اور یہ علاقہ اب بغیرکسی قانون ساز اسمبلی کے حق کے ہی براہ راست انڈیا کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔

26 اکتوبر 1947 کو مہا راجا ہری سنگھ اور بھارت کی حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس میں یہ طے پایا تھا کہ کشمیر کو آئینی طور پر خصوصی حیثیت دی جائے گی، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے 17 اکتوبر 1949 کو آرٹیکل 370 نافذ کر دیا گیا حالاں کہ اس وقت بھارت کا وفاقی آئین ابھی تیاری کے مراحل میں تھا جو بعد ازاں 26 جنوری 1950 کو نافذ ہوا اور اسی کی مناسبت سے بھارت میں ہر سال 26 جنوری کو یومِ جمہوریہ منایا جاتا ہے۔

بھارت کے آئین میں کشمیر کے حوالے سے دو بنیادی آرٹیکل شامل تھے جن میں پہلا آرٹیکل کہتا ہے کہ جموں وکشمیر بھارت کی ایک ریاست ہے اور دوسرا آرٹیکل 370 تھا جس کی حیثیت عارضی قرار دی گئی تھی لیکن وہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا تھا، بعد ازاں 14 مئی 1954 کو ایک صدارتی آرڈیننس نافذ کیا گیا جس کو دی کانسٹی ٹیوشن ایپلی کیشن ٹو جموں و کشمیر 35 اے کا نام دیا گیا اور بھارتی آئین میں شامل کردیا گیا۔

1950 اور 1960 کی دہائی میں وفاقی حکومتوں کے ذریعے کشمیر کی ریاست پر ایسے اقدامات لیے گیے جن سے یہ خود مختاری پہلے ہی بڑے پیمانے پر ختم ہو چکی تھی۔1960 کی دہائی کے بعد سے آرٹیکل 370 کی جو چیز باقی رہ گئی تھی وہ زیادہ تر علامتی تھی۔ ریاست کا ایک جھنڈا 1950 کی دہائی کا ایک ایسا ریاستی دستور جو کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں تھا اور ریاست جموں و کشمیر کا وہ ریاستی تعزیرایتی ضابطہ باقی رہ گیا تھا جو وہ کشمیر میں سنہ 1846 سے 1947 تک موجود تھا۔

آرٹیکل 35 اے، جو ریاست میں باہر سے آئے لوگوں کو زمین یا جائیداد خریدنے سے روکتا ہے، اور ریاست کے رہائشیوں کو ملازمتوں میں ترجیح کی یقین دہانی کراتا ہے کا نفاذ جاری رہا۔ لیکن ایک یہ قانونی دفعات جموں و کشمیر کے لیے منفرد نہیں تھیں۔

مرکز کی بھاجپا حکومت کا دعویٰ ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر کے حالات بہتر ہوئے ہیں، عسکریت پسندی اور تشدد میں کمی آئی ہے اور حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ تاہم مبصرین اور سیاسی رہ نماؤں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ طوفان سے پہلے کی خاموشی بھی ہو سکتی ہے۔

مختلف سیاسی جماعتیں اور رہنما اس نظریے کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کشمیر کے معاملے پر بات چیت بہت ضروری ہے۔ میرے خیال سے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کشمیر کے حالات بہتری کی جانب جا رہے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے چند ماہ قبل وائس آف امریکہ کے نمائندے یوسف جمیل کو بتایا تھا کہ بھارتی حکومت نے اس اقدام کے وقت کہا تھا کہ اس سے کشمیریوں کا معیار زندگی بہتر ہو گا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔اُنہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمہ کے بعد لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔ احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لیے ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا گیا جن میں تین سابق وزرائے اعلی کے علاوہ ممتاز سیاسی رہ نما بھی شامل تھے۔

خواتین و اطفال کی مشکلات کی دردناک کہانی انہیں کی زبانی

کشمیر کی 70 سالہ سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کشمیری خواتین کے ساتھ ظلم و جبر ہی ہوتا آیا ہے۔ کشمیری خواتین ہمیشہ سے نشانے پر رہی ہیں۔ کشمیر کے تنازعے نے اگر ہزاروں کشمیریوں کی جانیں لی ہیں تو ان گنت خواتین نے بھی اپنی عزتیں کھوئی ہیں، وادی میں ان خواتین کی چیخیں آج بھی گونج رہی ہیں۔ بہت سے واقعات رپورٹ ہوئے تو کئی واقعات ڈر اور شرم کے باعث سامنے نہیں لائے گئے۔

 آرٹیکل 370 کے خاتمہ کے بعد کشمیر میں بھارت کی حکومت کی پابندیوں سے باقی طبقات تو متاثر ہو ہی رہے ہیں لیکن خواتین کو ان پابندیوں سے سب سے زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کوئی اپنے اکلوتے بیٹے کی گرفتاری پر دکھی ہے تو کوئی اپنے شوہر کے انتظار میں دروازے پر نظریں جمائے بیٹھی ہے۔ کشمیر میں ہزاروں خواتین ایسی ہیں جن کے شوہر زبردستی گھروں سے اغوا کر لیے گئے اور وہ نیم بیواؤں کی حیثیت سے زندگی گزار رہی ہیں۔مظالم کی شکار کمزور اور بوڑھی مائیں اپنے بیٹوں کی راہ تکنے پر مجبور ہیں۔ کتنی ہی معصوم بچیاں اور خواتین ایسی ہیں جنہیں پیلٹ گن کے چھروں کا نشانہ بنا کر ان کی آنکھوں کی بینائی چھین لی گئی ہے۔ ۔

وقت پر علاج میسر نہ ہونے کے سبب ایک حاملہ خاتون نے مردہ بچے کو جنم دیا تو وہیں ایک خاتون اپنے نومولود بیٹے سے اس کی زندگی کے ابتدائی 20 دن تک نہ مل سکی۔ ایسی کئی کہانیاں کشمیر میں عام ہیں۔

 ایک ماں اسپتال میں موجود اپنے نومود بیٹے کی صحت کے بارے میں جاننے سے قاصر ہے تو نئی زندگی کا سفر شروع کرنے والی دُلہن اپنے ارمانوں کے مطابق شادی نہ کر سکی۔ اسی طرح ایک خاتون صحافی پیشے کو ایک طرف رکھ کر بھی خاتون ہونے کی وجہ سے بھارتی سیکیورٹی فورسز سے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔ کشمیر میں سینکڑوں ایسی خواتین کی کہانیاں بکھری ہوئی ہیں جن کا دکھ کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن کے اندر ہی کہیں دفن ہو چکا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق کشمیر میں عائد پابندیوں کے باعث مقامی افراد متعدد مشکلات کا شکار ہیں۔ لیکن کشمیری خواتین ایک ایسے دکھ سے گزر رہی ہیں جسے ابھی تک بیان ہی نہیں کیا گیا۔

بھارت کے ہزاروں غیر مقامی فوجی کشمیر کی گلیوں میں گھومتے نظر آتے ہیں۔ ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بعض پابندیوں میں نرمی کے باوجود اب بھی مواصلات کے متعدد ذرائع بحال نہیں ہو سکے ہیں۔

پبلک ٹرانسپورٹ بدستور بند ہے جس سے عام کشمیریوں کی زندگی مشکلات کا شکار ہے۔ یہ تمام مناظر ہیں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے جہاں بھارتی حکومت کی جانب سے ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اب تک معمولاتِ زندگی بحال نہیں ہو سکے ہیں۔

یہاں پر ہم چند خواتین و اطفال کے دل دہلا دینے والے حادثوں کا تذکرہ کرنا چاہیں گے جنہوں نے میڈیا کے لوگوں کے سامنے اپنی زبانی اپنی آپ بیتی سنایا ہے۔

عتیقہ بیگم نامی خاتون سری نگر کی رہائشی ہیں۔ ان کا اکلوتا اور 22 سالہ بیٹا فیصل اسلم میر گھر کا واحد کفیل تھا۔ عتیقہ کے بقول جب کشمیر میں لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا تو فیصل دوائیں لے کر گھر واپس آ رہے تھے لیکن انہیں بھارتی سیکیورٹی اہلکاروں نے گرفتار کر لیا۔

عتیقہ بیگم نے کہا کہ ان کے بیٹے کو بھارت کے کسی شہر کی جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے اور ان کے پاس کوئی وسائل نہیں کہ وہ اپنے بیٹے سے مل سکیں۔

ایک اور کشمیری خاتون مہک پیر کشتی رانی کی کھلاڑی ہیں۔ ان کے بقول کشمیر میں جاری پابندیوں اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے وہ کشتی رانی کے سہ ملکی ٹورنامنٹ میں شرکت سے محروم رہ گئی تھی۔

مہک پیر کے بقول انہیں امید تھی کہ وہ کشتی رانی کے بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کریں گی۔ لیکن ملکی ٹورنامنٹ نہ کھیلنے کی وجہ سے اب یہ ممکن نہیں رہا۔

جواہرہ بانو نامی خاتون اپنی تین سالہ بیٹی کو گود میں اٹھائے ایک مظاہرے میں شریک تھیں۔ وہ سرینگر کے ایک نواحی علاقے میں موجود تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر سے باہر نکل کر مظاہرہ کرنے کا موقع گنوانا نہیں چاہتیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کی نسبت کشمیری مردوں کو بہت زیادہ خطرہ لاحق ہے کہ وہ کبھی بھی گرفتار کر لیے جائیں گے۔

سری نگر کی رہائشی صباحت رسول ایک ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے ایک حاملہ خاتون کا واقعہ بتایا کہ ان کے اسپتال میں ایک حاملہ خاتون نے صرف اس لیے داخل ہونے سے انکار کردیا کہ مواصلاتی ذرائع بند ہونے کے باعث وہ اس بات کی اطلاع اپنے گھر والوں تک نہیں پہنچا سکتی تھیں۔

صباحت رسول کے بقول اسی خاتون کو اگلے روز ان کے گھر والے بے ہوشی کی حالت میں اسپتال لائے جہاں خاتون کی جان تو بچ گئی لیکن ان کا بچہ نہیں بچ سکا۔

صباحت رسول کا کہنا تھا کہ خاتون کی صحت کے پیشِ نظر انہیں اسی روز اسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت تھی جس دن وہ آئی تھیں لیکن خاتون کو یہ ڈر تھا کہ اگر وہ بغیر بتائے اسپتال میں ایک رات رہ گئیں تو ان کے گھر والے پریشان ہوں گے۔

زاہدہ جہاں گیر سری نگر کے ایک نواحی علاقے لولب میں واقع اپنے گھر کے پاس اپنے دو ماہ کے بچے کو لیے کھڑی تھیں۔

محمّد کی پیدائش قبل از وقت ہوئی تھی لہٰذا اسے اسپتال میں رکھنا پڑا تھا۔ زاہدہ کو اس دوران بچے کی زندگی کے ابتدائی 20 دن تک اس سے دور رہنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ محمد تو اب صحت مند ہے لیکن ان 20 دنوں کے دوران انہیں جو دکھ سہنا پڑا وہ کوئی ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ اس کا افسوس انہیں زندگی بھر رہے گا۔

کلثوم رمیز کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔ ان کی شادی ایسے وقت میں ہوئی جب کشمیر میں لاک ڈاؤن جاری تھا جس کے باعث وہ اپنا شادی کا جوڑا بھی نہیں خرید سکیں جو ان کا ارمان تھا۔کلثوم کو کسی سے ادھار لیا گیا جوڑا پہننا پڑا اور ان کی شادی میں کچھ پڑوسی اور چند رشتے دار ہی شرکت کر سکے۔سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے انہیں رخصتی کے بعد پیدل سسرال جانا پڑا۔

سمیرا بلال

سمیرا بلال کے شوہر بلال احمد کو بھارتی سیکیورٹی فورسز نے 5 اگست کی رات گرفتار کیا تھا۔سمیرا بتاتی ہیں کہ ان کی دو سالہ بیٹی اکثر کھڑکی کی طرف اشارے کرکے اپنے والد کو پکارتی ہے کہ “بابا بابا آپ کب واپس آئیں گے؟”

بیبا ملّا

بیبا کے کزن کی 3 اگست کو موت ہو گئی تھی جس کی خبر ان تک تقریباً ایک ہفتے بعد پہنچی۔انہوں نے کہا کہ میں جنازے اور فاتحہ خوانی میں شریک نہیں ہو سکی اور تعزیت کرنے بھی نہیں جا سکی۔ یہ سب ہمارے لیے بہت ضروری تھا۔

اخیر میں اپنی بات درج ذیل انقلابی شعر پر ختم کرتا ہوں

جس خاک کے خمیر میں ہے آتش چنار

ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند