حمزہ شعیب
قلم ہر دور میں حقیقت کی زبان اور نوائے سروش کا ترجمان رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ظلم و جبر کی پشت پناہ حکومتوں نے ہر عہد میں اس پہ قدغن لگانے کی بے شمار کوششیں کی مگر قلم کے سچے اور بیباک شہسواروں نے کبھی بھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا بلکہ پسِ زنداں بھی صریرِ قلم کی دُھن پہ اپنے آپ کو رقصاں رکھا یہاں تک کہ جب ظالموں نے قرطاس و قلم سے محروم کر دیا تو بجائے ظلم و جبر کے خلاف چپ رہنے کے؛ اپنے فکر و فن کے سہارے ذہن و دماغ کو قلم بنا کر اوراقِ جگر پہ لکھنا شروع کر دیا تو کبھی کوئلے سے سلاخوں کی دیواروں پہ علم و فن کا شاہکار تخلیق کیا تو کبھی اپنی پیٹھ، سینہ اور پاؤں پہ جیلوں کی کالی سچائی نقش کر کے دنیا کے سامنے جبر و تشدد کا چہرہ بے نقاب کیا اور تپاک جاں سے اس قدر لکھا کہ تختہءدار تک کا سفر ہنستے مسکراتے ہوئے طے کر لیا لیکن باطل کے آگے کبھی بھی سر جھکانا گوارا نہیں کیا ۔
تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ قلم کے ان بے لوث سپاہیوں کا سلاخوں اور دار و رسن سے بڑا گہرا رشتہ رہا ہے اس دعویٰ کی دلیل میں ذیل کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :
١: 5ویں صدی میں وقت کے حکمران نے شمس الأئمہ علامہ سرخسی رحمہ اللہ (ت:490ھ) کو ایک تاریک اور گہرے کنوئیں میں ڈال دیا لیکن آپ نے یہاں بھی علم و ہنر کا فیض جاری رکھا اور فقہ حنفی کی “المبسوط” جیسی معتبر کتاب یہیں بحالتِ اسیری ہی تصنیف کی ۔
٢: ٨ویں صدی میں حاکم وقت نے جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (ت:٧٢٨ھ) کو دمشق کے قید خانے میں مقید کر دیا تو آپ نے “الإستقامة” ، “إقتضاء الصراط المستقيم” اور “بیان تلبیس الجھمیة” وغیرہم جیسی شاہکار کتابیں یہیں تصنیف کی اور ظالموں نے جب قرطاس و قلم چھین لیا تو آپ تڑپ اٹھے ، بالآخر کچھ دن بعد اسی قید خانہ میں اپنے رب حقیقی سے جا ملے ۔ (إنا للہ و انا الیہ راجعون) یہ مشہور قول آپ ہی کا ہے : “مایفعل بي أعدائ؟ أنا جنتی و بستاني في صدري، أین رحت فھي معی لا تفارقني، إن حبسي خلوة و قتلي شھادة وإخراجي من بلدي سیاحة”.
٣: علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (ت:1999ء) کو جب دمشق کے مذکورہ قید خانے میں بند کر دیا گیا تو آپ نے بھی یہاں تحقیق و تصنیف کا مشغلہ نہیں چھوڑا بلکہ رات دن ایک کر کے ” مختصر صحیح مسلم ” جیسی بہترین کتاب یہیں لکھی جبکہ اس کال کوٹھری میں (آپ ہی کے بقول) ” صحیح مسلم ” اور ایک پنسل کے سوا آپ کے پاس کچھ نہ تھا ۔
٤: مشہور مصری و إخوانی عالم دین سید قطب رحمہ اللہ (ت:١٩٦٦ء) نے اپنی معروف تفسیر “تفسیر فی ظلال القرآن” کا اکثر حصہ جیل ہی میں لکھا. ٥: جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی رحمہ اللہ (ت:١٩٧٩ء) نے اپنی مشہور تفسیر” تفھیم القرآن” لکھنے کا آغاز فروری ١٩٤٢ء سے کیا تھا لیکن سورہ یوسف تک ترجمہ و تفھیم کے بعد مختلف قسم کی ملکی اور جماعتی سرگرمیوں کی وجہ سے آگے لکھنے کا صحیح سے موقع نہیں مل پا رہا تھا اتفاق سے ١٩٤٨ء میں public safety act کے تحت مولانا رحمہ اللہ کو حوالۂ زنداں کر دیا گیا جہاں آپ نے تفھیم القرآن کے مواد پہ خاصا کام کیا ۔
٦:مجاہد آزادی مفتی عنایت احمد کاکوروی رحمہ اللہ(ت:١٨٦٣ء) کو انگریزوں نے نے جب کالا پانی کی سزا سنائی اور جزیرہ انڈومان بھیج دیا تو آپ اور دیگر مجاہدین علماء نے اس جزیرے کو دارالعلوم بنا دیا. بالخصوص آپ نے حالت اسیری میں ہی سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر “تواريخِ حبیبِ الہ” اور علم صرف پر “علم الصیغہ” جیسی سدا بہار کتاب لکھی جو آج بھی کئی مدارس میں داخل نصاب ہے.
٧: احمد بن صدیق الغماری (ت: ١٩٦١ھ) نے “الأمالي المستظرفة علی الرسالة المستطرفة” نظر بندی کے ایام میں ہی لکھی ۔
٨: اسی طرح امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ (ت:١٩٥٨ھ) نے بھی تفسیر “ترجمان القرآن” کا کچھ حصہ جیل کی کال کوٹھریوں میں ہی لکھا. مولانا اپنی تفسیر کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ : ” نظر بندی کے بعد کوئی موقع باقی نہیں رہا کہ باہر کی دنیا سے کسی طرح کا علاقہ رکھ سکوں، اب میرے اختیار میں صرف ایک ہی کام رہ گیا تھا یعنی تصنیف و تسوید کا مشغلہ ، نظر بندی کے 19 دفعات میں سے کوئی دفعہ بھی مجھے اس سے نہیں روکتی تھی. میں نے اس پر قناعت کی” ۔
اگر ادبی شہ پاروں کی بات کریں تو ایسی بے شمار تخلیقات ہیں جو قید خانے کی مرہونِ منت ہیں مثلاً : مشہور رومی فلسفی بوئیتھیس کی conciliation of philosophy ،ہسپانوی ناول نگار کیرونٹس کی”ڈان کوئگزوٹ” ، سر والٹر سکاٹ ریلیگ کی”History of World”, آسکر وائلڈ کی “ڈی پروفنڈی” وغیرہ جیسے شہ پارے پسِ زنداں ہی لکھی گئیں ۔
عربی، فارسی اور اردو ادب میں بھی ایسے کئی دلچسپ نمونے موجود ہیں ۔
عربی میں مثلاً : علامہ فیض الحق خیر آبادی کی “صوت الھندیۃ” (1857ء کی جنگ آزادی پر) جزائر انڈومان میں بحالتِ اسیری لکھی گئی. اسی طرح فارسی میں مرزا غالب کی 84 شعروں پر مشتمل وہ ترکیب بند نطم جسے مولانا غلام رسول مہر نے لکھا (غالب نے جیل میں تین ماہ قید کے دوران یہ نظم تیار کی تھی) ۔
رہی بات اردو زبان کی تو اس باب میں الحمد للہ اردو کا دامن بالکل بھی تنگ نہیں ہے بلکہ اردو میں الگ سے زندان کے ادب کو ” حبسیات ” اور ” حبیسہ” کے نام سے جانا جاتا ہے، مثلاً : مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کی معرکۃ الآراء ” غبار خاطر”، حسرت موہانی کی دو سال قید با مشقت کے دوران لکھی گئی نظمیں اور غزلیں (جو ان کے شعری مجموعے کا حصہ بھی ہے) بطور مثال
ہے مشقِ سخن جاری ، چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
اسی طرح مجلس أحرار کے رہنما چوہدری افضل کی کتاب “زندگی” اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر “محبوبِ خدا ” جو ملتان اور راولپنڈی کے جیلوں میں تالیف ہوئیں علاوہ ازیں شورش کاشمیری، ظفر علی خان، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب، علی سردار جعفری اور نعیم صدیقی وغیرہم کی بھی بہت سی نظمیں اور غزلیں جیلوں کی مرہونِ منت ہیں۔
خلاصہ یہ کہ قلم اور قید خانے کا رشتہ بہت پرانا اور بڑا گہرا ہے اس لیے حکومت کا یہ سوچنا کہ وہ قلم کاروں کو زنداں کی بے رحم دیواروں میں چنوا کر یا سلاخوں کی کال کوٹھری میں پابند سلاسل کر کے خاموش کر دے گی تو یہ بہت بڑی تاریخی بھول ہے اور سچ کہیں تو ہمارے ملک میں یہ سب طاقت پہ اتراہٹ اور ایک قسم کی بوکھلاہٹ ہے جو ایک دن اسے ضرور لے ڈوبے گی کیونکہ
اسے ہے سطوتِ شمشیر پہ گھمنڈ بہت
اسے نہیں ہے — شکوہِ قلم کا اندازہ
(احمد فراز )
اور وہ وقت بھی قریب ہے جب سب تاج اچھالے جائیں گے اور ایسا ممکن بھی ہے کیونکہ قدرت کا یہ دستور ہے کہ
آج جو صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں —- ذاتی مکان تھوڑی ہے
(راحت اندوری)
hamzashuaib0007@gmail.com






