محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی
مغرب اور دنیا میں پھیلے اس کے اندھ بھکتوں نے مرد اور عورت دونوں جنسوں (Genders) کو ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار اور دو الگ الگ سیاروں کی مخلوق قرار دیا ہے اور ان دونوں کے درمیان آگ پانی کا رشتہ باور کرانے کی کوشش کی ہے ، اور پھر اسی کے تناظر میں اصلاح کے لئے مساوات کا خوشنما نعرہ بلند کیا ہے ، مگر کچھ عرصہ پہلے تک اسی مغرب نے عورت پر بڑے مظالم ڈھائے ، اس کو انسان اور ذی روح تک ماننے سے انکار کردیا، جیسے اور جدھر چاہا فروخت کیا اور استحصال کی حدیں پار کردیں ۔ مغرب کے علاوہ پوری دنیا کا بھی عورتوں کے ساتھ کم و بیش یہی سلوک تھا ۔ کہیں عورت پتی کی چِتا پر چڑھائی جاتی تھی، کہیں مشترکہ طور پر ہوس کی پیاس بجھانے کے لئے استعمال کی جاتی تھی، کہیں بَلی چڑھائی جاتی تھی، کہیں آگ میں جھونکی جاتی تھی، کہیں زندہ زمین میں گاڑی جاتی تھی، کہیں سترپوشی کی پاداش میں اعضاء کاٹ دیئے جاتے تھے. غرضیکہ عورت کے تعلق سے دنیا میں ہر طرف خاک، آگ، دھواں، خون اور ظلم نظر آتا تھا. ایسے حالات میں اور جب ساری دنیا اس کے خون، عصمت، عزت اور زندگی کی پیاسی تھی اسلام دنیا میں آیا اور اس نے عورت کے لئے ان انتہائی سخت اور نامساعد حالات میں عورت کے لئے انصاف کا اعلان کیا، اسے انسان بتایا، ذی روح بتایا، اسے آدم علیہ السلام کی طرح جنتی مخلوق حوا بتایا، عزت واکرام بخشا، آگ سے نکالا، دھویں سے ہٹایا، منوں خاک کے نیچے سے نکالا، اس کو گردوغبار سے صاف کیا، اس پر رحمتوں کی بارش برسادی، نعمتوں کے خوان اس پر انڈیل دیئے، اس کے پاؤں تلے جنت رکھ دی، اس کی خدمت اور تربیت کو وجہِ دخولِ بہشت قرار دیا، اس کو معزز طریقے سے agreement اور مہر کے ساتھ اور اس پر ظلم کرنے کی صورت میں عذابِ جہنم کی وعیدوں کے ساتھ شوہر کے گھر میں پہنچایا، اسے چھوڑنے پر کہا کہ عرش ہل جاتا ہے، اسے ساری سخت اور مالی ذمہ داریوں سے نجات دی حتی کہ اپنے کھانے کے پکانے تک کی لازمیت سے آزاد کیا. اس کی آنکھوں میں سرمہ لگایا، ہاتھوں پر مہندی رچی، خوشبو میں بسایا، اس کے کھانے پانی، کپڑے، رہائش سب کی ذمہ داری شوہر پر ڈالی، شوہر سے کہا کہ اگر پیار سے ایک نوالہ بھی اپنی بیوی کے منھ میں ڈالوگے تو تمہھیں بیش بہا انعام سے نوازینگے، اسے تعلیم دینے کو کہا، اس سے محبت کرنے کا حکم دیا. اسے تجارت کرنے اور دولت کے مالک بننے کا حق دیا بلکہ شوہر کے برعکس کسی مالی ذمہ داری کو عائد نہ کرنے کے باوجود اس کے لئے میراث میں لازمی حصہ لگایا. اسلام نے قرآنِ مجید میں جگہ جگہ عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی ہدایتیں دیں اور کوتاہی پر شوہر کو آنکھ دکھائی اور وعید بتائی. پیغمبرِ اسلام علیہ السلام نے عورتوں کو شیشے سے تشبیہ دی اور کہا کہ اس آبگینے کو توڑ نہ دینا، سنبھال کر رکھو ۔ پیغمبر نے دنیا سے جاتے جاتے بھی عورت کے ساتھ اچھے سلوک کی تعلیم دی اور اس پر بہت تاکید کی ۔
عورت پر اسلام کے بے نظیر اور عدیم المثال احسانات اور Elevation of status (مقامِ بلند کی نوازش) نے دنیا کو انگشت بدنداں کردیا اور عورت کی کائنات بدل دی. اسلام عورت کے سسکتے، تڑپتے اور جلتے وجود کے لئے ابرِ رحمت اور ریگستان میں بادِ بہاری اور ٹھنڈی وخوشگوار ہواؤں کا جھونکا ثابت ہوا ، اسلام کی یہ تعلیمات و ہدایات صرف اپنی آمد کے زمانے کے لئے وقتی نہیں تھیں بلکہ اسلام کا یہ بارانِ رحمت عورت پر قیامت تک برستا رہے گا ۔
اسلام نے مردو عورت ہر دو کے واضح حقوق اور حدود مقرر کردیئے ۔ ایمان اور عملِ صالح کی بنیاد پر دونوں کو جنت سے نوازنے کی خوشخبری دی. آخرت میں وجہِ فضلیت وافضلیت تقوی اور دینداری کو قرار دیا ، إن أكرمكم عند الله أتقاكم (اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سبب سے زیادہ تقوی والا ہوگا) کا مژدہ دونوں کے لئے یکساں اور مساوی طور پر ہے ۔ کوئی معمولی فرق بھی نہیں ہے. البتہ دنیوی چند روزہ زندگی کی حد تک انتظامی مصلحت کے پیشِ نظر مرد کو ازدواجی زندگی میں سربراہ بنایا اور اسے عورت پر تھوڑی سی فوقیت دیدی اور ایسا عقلاً بھی ضروری تھا کیونکہ کسی بھی کاروبارِ دنیوی اور شعبہِ حیات کا جو بھی سربراہ اور head ہوتا ہے اسے تھوڑی سی فوقیت حاصل رہتی ہے اور اسے کوئی بھی سلیم الفطرت غلط نہیں کہہ سکتا ہے ۔ اسلام نے اعلان کیا الرجال قوامون على النساء. اس نے بیان دیا وللرجال عليهن درجة (مردوں کو عورتوں پر فوقیت کا چھوٹا سا درجہ حاصل ہے) ۔ وہ جنہوں نے عورت کو طرح طرح سے ستایا، تڑپایا اور ان پر ظلم کا کوڑا برسایا تھا آج وہ اسلام کے اس بیان واعلان پر بگڑ گئے اور الٹا الزام لگا ڈالا کہ اسلام میں عورتوں کے ساتھ سلوک اچھا نہیں، اس کو مساوات حاصل نہیں، مرد کو یک گونہ فوقیت دے دی گئی ؏
جنوں کا نام رکھ دیا خرد ، خرد کا جنوں
بعض نادان اور کم فہم مسلمان بھی مغرب کے جھانسے میں آگئے ، ان کی باتوں سے مرعوب ہوگئے اور ایک ترکیب انہوں نے یہ نکالی کہ آیتوں کا مفہوم ہی مغرب کے تصور کے مطابق بدل ڈالو ، معنوی تحریف کردو لہٰذا مغرب سے کوئی جھگڑا باقی نہیں رہ جائے گا، ان لال بجھکڑوں نے بتایا کہ ان آیتوں میں کہیں بھی مرد کی فوقیت کی بات نہیں ہے ۔ قوامون کا مطلب یہ نہیں وہ اور وہ نہیں وہ اور وہ وہ ہے ۔ عقل پر پردے پڑنے بلکہ مغرب کی چال سے متاثر ہوجانے کی وجہ سے انہیں اسی آیت کے اگلے صریح حصے نظر نہیں آئے جن میں قوامیت کی وجہ بتائی گئی ، ﴿ الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ ﴾ قوام کی جو بھی تشریح کرلی جائے مگر اگلا حصہ قوامیت کی جو وجہ بیان کررہا ہے اس سے طے ہوجاتا ہے کہ مردوں کے لئے قوامیت کی بات کا مطلب ضرور کوئی ایسی چیز ہے جس سے عورت روٹھ سکتی تھی مگر قربان جائیے قرآن کے حسنِ تعبیر پر کہ معقول وجہ بھی سمجھا دی اور نفسیاتی و جذباتی طور پر عورت کے روٹھ پن کو بھی دور کرکے اس کی جگہ اس کو خوشیوں سے بھردیا ، قرآن نے بتایا کہ مرد کو قوامیت/فوقیت اس وجہ سے حاصل ہے کہ عورت کے سارے اخراجات، کھانا ، پانی ، کپڑا ، مکان ، مہر ، بچوں کے اخراجات سب کی ذمہ داری مرد پر ہی ہے حتی کہ عورت اگر امبانی جیسی دولت کی مالکن ہو اور شوہر کسی مدرسے ومسجد کا دس ہزاری مدرس و امام ہو تب بھی عورت کی مالی ذمہ داری مرد پر ہی ہے ، اور پھر نفسیاتی و جذباتی طور پر بھی عورت کو مطمئن کردیا کہ دیکھو یہ مرد غیر نہیں ہیں ، یہ کسی دوسرے سیارے کی اجنبی مخلوق نہیں ہیں بلکہ یہ تم ہی میں سے ہیں، تمھارے ہی افراد ہیں لہذا اگر تھوڑی سی فوقیت انہیں دیدی جائے تو سمجھو کہ تمھارے ہی فرد کو دی گئی ،مگر مغرب نے شیطان بن کر اس حوا کو اکسایا ، بھڑکایا ، اس کے جذبات کا ناجائز فائدہ اٹھایا، جھوٹی ہمدردی اور غمخواری میں مردوں کے نسوانی تنظیموں کا محاذ قائم کردیا اور ایک لامتناہی جنگ چھیڑ دی جس نے مرد تو مرد عورت کے بھی سکون کا خون کر ڈالا ، جو عورت سکونِ قلب کے ساتھ اپنے شوہر کے پاس بچوں کے ماحول میں ہنسی خوشی رہ رہی تھی اسے چوراہے پر لا کھڑا کیا اور کہا کہ مرد کو تم پر فوقیت کیوں ہے؟ تم مقدمے لڑو ، مرد کو سبق سکھاؤ ، ہم تمھارے ساتھ ہیں ۔
دوسری طرف اسی مغرب نے جو نام نہاد مساوات کے ٹسوے بہارہا تھا عورت کو پھر پہلی طرح مظلوم بنا ڈالا ، فرق رہا تو بس یہ کہ اب کی بار چونکہ گندی سیاست اور منافقت کی باضابطہ تعلیم اس نے دانش کی خودکشی گاہوں میں حاصل کرلی ہے لہٰذا ظلم کا جال اس طرح پھینکا کہ عورت کو جلدی احساس نہ ہوسکے ، اسے Sugar coated زہر کھانے کو دیا ، آج مغرب نے عورت کو آزادی ، مساوات اور طرح طرح کے چکنے عنوانات کے تحت انجام کار اسی پرانی حالت میں پہنچادیا ، اس کے بالواسطہ حربے اور تدبیریں ایسی رہیں کہ وہ اب پھر شتر بے مہار ہوکر ان سے لذت اندوز ہورہا ہے، ان کو کھلونا سمجھ کر ان سے کھیل رہا ہے ۔ اس نے ایسے اسباب پیدا کردیئے کہ عورت مغرب میں آج خود کشی کررہی ہے ، نفسیاتی مریض بن رہی ہے، عزت و احترام سے محروم ہورہی ہے اور حقیقی خوشیوں سے دور ہوتی چلی جارہی ہے ۔ آج مغرب ان سے کمائی بھی کروارہا ہے، انہیں محنت کش، باربردار ، مزدور اور مستری بھی بنارہا ہے ۔ مساوی ملازمت کے باوجود ان کو مردوں سے کم تنخواہیں دیتا ہے ۔ امریکہ میں ایک ایئرپورٹ پر میری وزنی Trolley بس سے اتارنے کے لئے جب ایک گوری امریکن آگے بڑھی تو میں حیران رہ گیا ، دل نے گوارہ نہ کیا اور میں نے اسے منع کرکے اپنی Trolley خود اتارکر ایئرپورٹ کے اندر لے گیا ۔ کیا یہی ہے عورت کا وہ مقام جسے مغرب اسے دلانا چاہتا ہے؟ کیا یہی وہ Status ہے جس سے مساوات کے نام پر مغرب عورت کی آنکھوں کو خیرہ کرنا چاہتا ہے ؟ کیا ہاتھ کی پانچ انگلیوں کو کاٹ کر برابر کردینا تقاضۂ مساوات ہے؟
آج مغرب اور اس کے ہمنوا International women’s day منانے رہے ہیں اور عورت کو اپنے سلوک کے تئیں فریب میں مبتلا کررہے ہیں. کیا عالمی یومِ خواتین کے نعرہ Choose to challenge کا یہی ہدف اور مقصد ہے؟ دنیا کو سوچنا ہوگا، اسے عورت کے تئیں مغرب کے پرانے اور نئے رویوں کی یکسانیت کا پردہ فاش کرنا ہوگا اور اسلام کی طرف سے عورت پر جو احسانات کیئے گئے ہیں اور نعمتوں اور حقیقی مسرتوں سے نوازا گیا ہے اسے appreciate اور promote کرنا ہوگا تاکہ ایک بار پھر حوا کو دنیا کی جنت نصیب ہوسکے ۔ دنیا کی حوائیں آگے بڑھیں اور اپنا حقیقی مقام، عزت، راحت، اور آخرت کی دائمی زندگی کی مسرتوں کو پانے کے لئے اسلامِ کے دامنِ رحمت میں پناہ لیں ۔






