بنگالی مسلمان اور بنگال کا الیکشن

عبد المنان قاسمی
ان دنوں بنگال میں چناؤ کا پرچار زور وشور سے چل رہا ہے، ہر طرف اس کی گہما گہمی ہے، نہ کہیں کورونا کا ڈر ہے، نہ ہی کسی طرح کے سوشل ڈسٹینسنگ کی پابندیاں؛ کیوں کہ جس ریاست میں چناؤ ہو، وہاں سب کچھ نارمل ہو جاتا ہے! وہاں سے سارے خطرے کنارہ کش ہو جاتے ہیں! آج کل اگر کسی چیز کی چرچا ہے، تو اقتدار کی کرسی پر قبضہ کی، کہ یہ کیسے ممکن ہو سکے گا کہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو جایا جائے، خواہ وہ پی جے پی ہو، یا ترنمول کانگریس ہو، یا لیفٹ کی دیگر پارٹیاں؛ سبھی زور آزمائی میں لگی ہوئی ہیں. سبھی اپنے اپنے من پسند وعدوں اور فلک شگاف نعروں سے فضا کو بھی مسموم ومعطر کردیا ہے، یعنی زہر افشانی بھی ہو رہی ہے، رنگین خواب بھی دکھائے جا رہے ہیں، “سونار بنگلہ” کی رٹ بھی لگائی جا رہی ہے. ایسے میں بنگالی عوام کئی دھڑوں میں بٹی ہوئی نظر آرہی ہے، اور اگر بہ نظر غائر بنگال کے احوال و کوائف پر نظر دوڑائی جائے، تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ فرقہ پرست بی جے پی کی وہی گندی سیاست ہو رہی ہے کہ “لڑاؤ، حکومت کرو _ ” جس کو عربی میں “فرق تسد” اور انگریزی میں “Divide and Rule” کہا جاتا ہے. آج جب کہ بی جے پی کے پاس کوئی مذہبی منافرت کا مضبوط نعرہ نہیں بچا، تو گائے کا سہارا لے کر کرسی اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اور ترنمول کانگریس اپنے بھائی چارے کی سوچ اور “سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس” کی صحیح معنوں میں ترجمانی کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہی ہے. ساتھ ساتھ دیگر چھوٹی بڑی پارٹیاں بھی اپنے حسب استطاعت میدان میں پنجہ آزمائی؛ بل کہ قسمت آزمائی کر رہی ہیں اور بنگالی عوام سے ڈھیر سارے وعدے بھی کر رہی ہیں اور دیگر پارٹیوں کے جیت جانے پر ممکنہ وعیدوں کی طرف نشان دہی بھی کر رہی ہیں۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی پارٹی دودھ کی دھلی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی جماعت اپنے سارے وعدے پوری کرتی ہے. ہر پانچ سال میں وعدوں کی لسٹ بھی بدل جاتی ہے اور عوام کو نئے خواب دکھلا کر پرانے خوابوں کو بھلانے اور نئے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔
اب اگر بہ حیثیت بنگالی مسلمان کے اس بات پر نظر دوڑائی جائے، کہ بنگالی مسلمان کیا سوچ رہے ہیں! کیوں کہ مجلس اتحاد المسلمین بھی اپنی طبع آزمائی کے لیے خیمہ زن ہو چکی ہے، تو دوسری طرف فرفرہ شریف کے پیرزادہ عباس صدیقی بھی ایک نئی پارٹی کے ساتھ میدان میں اتر آئے ہیں ۔ ایسے میں کیا بنگالی مسلمان تتربتر ہو جائیں گے؟ کیا بنگالی مسلمان ٹکڑوں میں بٹ جائیں گے؟ کیا بنگالی مسلمان”نہ ادھر کے رہے، نہ ادھر کے رہے؛ نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم” کے مصداق ہو جائیں گے؟
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ کچھ اپنے وجود کی بقا کے لیے اپنی پارٹی کو مضبوط و مستحکم کرنے کی بات کر رہے ہیں، تو کوئی سیکولرزم میں کسی مذہبی شناخت اور نام کے ساتھ میدان میں اترنے کو جرم کی حد تک غلط تصور کرتے ہیں. اور ان کے پاس بے شمار دلائل بھی ہیں کہ آزادی کے بعد سے آج تک کئی ایسی پارٹیاں وجود میں آئیں؛ لیکن اپنا وجود ہی بچا نہ سکیں؛ چہ جائے کہ مسلمانوں کے مسائل کو حل کرتیں. ایسے میں اب مسلمان کیا کریں؟ کدھر جائیں؟ کس کو اپنا مسیحہ سمجھیں؟ کیوں کہ م پچھلے ستر سالوں میں کئی بار کئیوں کے نعروں کے ہمنوا ہوے، کئیوں نے بڑے خوب صورت خواب دکھلائے، وعدے کیے، وعیدیں سنائیں، ڈرایا دھمکایا بھی اور بہلایا پھسلایا بھی ؛ لیکن مسلمانوں کے مسلمانوں کے مسیحہ بننے کی کوشش کرنے والوں نے کبھی بھی اپنی باتوں پر عمل کیا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے ! تو پھر آج کیسے ممکن ہے کہ بنگالی مسلمان کسی ایک کو اپنا مسیحہ سمجھ لیں! کیسے ممکن ہے کہ کسی ایک ڈگر پر چل پڑیں! کیسے ممکن ہے کہ کسی ایک سے ہاتھ ملا لیں! اسی لیے میدان میں مسلمان بکھرے ہوے نظر آتے ہیں ، مسلم امیدواروں کی ایک بڑی تعداد مخلتف پارٹیوں میں نظر آ رہی ہے؛ حتی کہ بی جے پی جیسی پارٹی میں بھی مسلم امیدواروں کے ناموں کی فہرست وائرل ہو چکی ہے ۔
ایسے حالات اور ایسے ماحول میں مسلمانوں سے سیکولرزم کے تحفظ کے لیے کسی ایک پارٹی کے ساتھ چلنے کی امید کرنا بھی ناممکن سا لگتا ہے؛ کیوں کہ یہ طے کرپانا بھی مشکل ہو گیا ہے کہ سیکولرزم کیا ہے! سیکولر ذہنیت کس کی ہے! کون دام فریب میں مبتلا ہے اور کون مبتلا کر رہا ہے! ہاں! یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ بنگالی عوام ؛ خواہ مسلمان ہوں، یا غیرمسلم؛ سبھی کے لیے ترنمول کانگریس سے زیادہ مناسب کوئی دوسری پارٹی نہیں ہے ، ترنمول کانگریس نے بنگال میں فرقہ پرستی کو کافی حد تک کنٹرول کر رکھا ہے، کم از کم سبھی بنگالی عوام چین وسکون اور اطمینان کی سانس تو لے رہے ہیں! بہ حیثیت ہندوستانی شہری کے سبھی کو برابر کے حقوق تو مل رہے ہیں! تھوڑی بہت اونچ نیچ تو ہوتی ہی رہتی ہے ؛ لیکن ایسے میں بنگالی عوام اور بنگالی مسلمان ؛ سبھی کو اپنا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے اور وقت رہتے ہوے اپنے وجود کی بقا و تحفظ، اپنے حقوق کی بازیابی، امن و امان اور بھائی چارے کی سلامتی اور “جیو جینے دو ؛ کھاؤ کھانے دو ” کی پالیسی پر خوب خوب غور و فکر کرنا چاہیے اور سیکولرزم و جمہوریت کی حفاظت کے لیے ٹکڑیوں میں بٹنے سے بچنے کی ہرممکن اقدامات کرنے چاہئیں!

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں