کشمیر: فوج کی تلاشی پر اعتراض کرنے والی پولیس اہلکار جیل میں

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک خاتون پولیس افسر کو سحری کے وقت فوج کی تلاشی مہم پر اعتراض کرنے پر گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گيا ہے۔

صلاح الدین زین (ڈی ڈبلیو، نئی دہلی)
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک خاتون پولیس افسر کے خلاف محض اس لیے انسداد دہشت گردی کے قانون (یو اے پی اے)  کے تحت مقدمہ درج کیا گيا ہے کہ انہوں نے رمضان میں سحری کے وقت اپنے گھر میں فوجیوں کی تلاشی پر اعتراض کیا تھا۔ گرفتار کرنے کے بعد انہیں جیل بھیج دیا گيا ہے اور پولیس کی ملازمت سے بھی انہیں برخاست کر دیا گيا ہے۔

معاملہ کیا ہے؟

اس حوالے سے جمعرات کے روز ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں خاتون کی شکل تو نہیں دکھائی دیتی تاہم انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ماہ رمضان میں بھی خاندانوں  کو سرچ آپریشن کے عتاب سے نجات نہیں مل پا رہی ہے۔ انہوں نے اس میں بھارتی سکیورٹی فورسز کو باہری قرار دیا تھا۔
وہ رات میں گھر کا محاصرہ کرنے والے بھارتی فوجیوں سے کہتی ہیں، ’’آپ یہاں بار بار کیوں آتے ہیں؟ ان گھروں میں جاؤ جہاں عسکریت پسند ہیں۔ ہمیں آپ چین سے سحری بھی نہیں کرنے دیتے۔ اگر تمہیں میرے گھر میں تلاشی لینی ہے تو پہلے جوتے نکالو، پھر گھر میں داخل ہونا۔ میری ماں بیمار ہیں اور اگر انہیں کچھ ہوا تو پھر دیکھنا۔‘‘
جواب میں اس ویڈيو میں نظر نہ آنے والا ایک بھارتی فوجی خاتون پر چیختا ہے تو خاتون کہتی ہیں تم مجھے مرعوب نہیں کر سکتے: ’’اپنا منہ بند کرو۔ ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔ یہ ہمارا  کشمیر ہے تم سب باہر سے آئے ہو۔ جو کرنا ہے کر لو۔ اگر یہاں شدت پسند ہوتے تو اب تک تمہاری چھاتی پرگولیاں نہ برسا چکے ہوتے۔‘‘

پاک بھارت کشيدگی کی مختصر تاريخ

اس ویڈيو کے وائرل ہونے کے دوسرے روز یعنی جمعہ 16 اپریل کو کشمیر میں پولیس نے ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ یہ واقعہ جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام کا ہے جہاں فوج نے عسکریت پسندوں کی تلاش کے لیے 14 اپریل کو سرچ آپریشن کیا تھا۔
پولیس کے بیان کے مطابق، ’’اس آپریشن کے دوران صائمہ اختر نامی ایک خاتون نے رکاوٹیں کھڑی کیں اور پر تشدد انداز میں دہشت گردوں کے لیے تعریفی باتیں کیں۔ انہوں نے اپنے فون سے اس کو ریکارڈ کیا اور پھر سرچ آپریشن میں رخنہ اندازی کرنے کی نیت سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا۔‘‘
پولیس کا کہنا ہے کہ صائمہ اختر کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف قانون (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا گيا ہے اور انہیں اسپیشل پولیس افسر کی ملازمت سے بھی برخاست کر دیا گيا ہے۔

کشمیر میں خوف کا سایہ

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چپّے چپّے پر سکیورٹی فورسز کا پہرہ ہے اور عموماﹰ حکومت اور فورسز کے خلاف کچھ بھی کہنے والوں کے خلاف کارروائی  کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ کشمیری میڈیا بھی حکومت کے رویے پر نکتہ چینی سے گریز کرتا ہے۔
اس رویے سے کشمیر میں مستقل ایک خوف کا ماحول ہے۔ کشمیر یونیورسٹی کی ایک پروفیسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا کہ کشمیر میں حالات بہت خراب ہیں اور کسی کو بھی منہ تک کھولنے کی اجازت نہیں ہے: ’’دیکھیے حالت یہ ہوگئی ہے کہ سحری کے وقت ایک خاتون پولیس افسر کی جائز باتوں پر یہ حال ہے۔ بھارت اسی لیے تو کہتا ہے کہ کشمیر میں سب کچھ نارمل ہے کیونکہ بیشتر رہنما تو جیل میں ہیں اور کوئی آواز تک نہیں اٹھا سکتا۔ ہمیں زندہ لاشیں بنا دیا گيا ہے کیونکہ ہم مجبور لوگ کر بھی کیا سکتے ہیں۔‘‘
جموں کشمیر کی سابق وزير اعلٰی ٰمحبوبہ مفتی نے بھی اس کارروائی کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’صائمہ اختر نے اپنے گھر میں بغیر کسی وجہ کے بار بار فوجی تلاشی کے خلاف بالکل واجب سوال اٹھائے تھے جس پر ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گيا ہے۔ ظلم و زیادتی کی بات کی جائے تو نئے کشمیر میں خواتین کو بھی نہیں بخشا جا تا ہے۔‘‘

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں