اسپتال شفاخانہ ہیں یا موت کا کنواں ؟

احساس نایاب (شیموگہ،کرناٹک)

کورونا کی دوسری لہر نے جس قدر ملک بھر میں کہرام مچایا ہے اس سے ہر انسان دہشت زدہ ہے انسانی عقل اس وبا کی حقیقت سمجھنے سے قاصر ہے اور قدرت کے آگے خدائی دعوی کرنے والے خود کو سوپر پاور کہلانے والے بڑے سے بڑے ممالک بھی بےبس لاچار نظر آرہے ہیں ۔۔۔۔
ایسے میں خدا کے بعد اگر کسی کا سہارا ہے کسی پہ تھوڑی بہت امید کی جاسکتی ہے تو وہ ہیں صرف اور صرف ڈاکٹرس ۔۔۔۔
لیکن افسوس آج چند ہاسپٹلس کی لاپرواہی نے لوگوں سے یہ امید بھی چھین لی ہے ۔۔۔۔ ہاسپٹلس میں ہر دن ہورہی بےجا اموات نے لوگوں کو اس قدر خوف و ہراس میں مبتلا کررکھا ہے کہ آج ایک بڑی تعداد علاج کے نام سے کترا رہی ہے ۔۔۔۔
ایک تو کووڈ متاثرہ مریضوں کے ساتھ ہاسپٹلس میں ہورہی لاپرواہی، بھید بھاؤ ، آکسیجن کی کمی ، ونٹی لیٹرس و دیگر بنیادی سہولیات کا فقدان یہ سب کم نہ تھا کہ اُس پہ ادویات کی کالا بازاری کی خبریں لگاتار موصول ہورہی ہیں اور بیشتر ہاسپٹلس موت کا کنواں بن چکے ہیں جہاں دو پیروں پہ جانے والا اچھا خاصہ انسان چار کاندھوں پہ لایا جارہا ہے ایسے میں ایک عام انسان کا خوفزدہ ہونا کوئی جہالت نہیں بلکہ فطری ہے ۔۔۔۔
حال ہی میں مہاراشٹر کے ناسک میں ڈاکٹر ذاکر حُسین اسپتال کے باہر آکسیجن ، ٹینکر سے لیک ہونے کی وجہ سے اسپتال میں آکسجن سپلائی 30 منٹ کے لئے معطل ہوگئی جس کی وجہ سے وینٹی لیٹر پہ رکھے گئے 22 مریضوں کی دردناک موت ہوگئی اور کئی لوگوں کی حالت اب بھی سنگین بتائی جارہی ہے ۔۔۔۔۔
لوگ ابھی اس حادثہ سے ابھرے نہیں تھے، ابھی اُن مریضوں کی چتائیں بجھی بھی نہیں تھیں کہ مہاراشٹر ہی میں ایک اور دل دہلا دینے والا حادثہ پیش آیا ۔۔۔۔
اب اس کو حادثہ کہیں یا کچھ اور یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا فی الحال دونوں واقعات مہاراشٹر ہی کے ہیں ۔۔۔۔۔
مہاراشٹر کے ممبئی سے ملحق ویرار کے وجئے ولبھ اسپتال میں اچانک آگ لگنے کی وجہ سے آئی سی یو میں ایڈمٹ 13 کووڈ مریضوں کی بےرحم موت ہوگئی، خبروں کے مطابق حادثہ کے وقت مریضوں و دو نرسوں کے علاوہ کوئی اہلکار موجود نہیں تھا نہ ڈاکٹرس نہ ہی دیگر اسٹاف
ایسے میں یہ سوال پوچھنے واجب ہیں کہ آئی سی یو کے لئے 3 سے 4 لاکھ کا چارج وصولنے والی ہاسپٹل میں اس قدر لاپرواہی کیوں کر ہوگئی ؟
ڈاکٹرس و دیگر اسٹاف ایک ساتھ کہاں غائب تھے ؟
جبکہ عینی شاہدین کے مطابق ہاسپٹل میں تقریبا 90 مریض ایڈمٹ تھے ، اتنے مریضوں کی ذمہ داری محض دو نرسس پہ کیوں ؟
کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ ہاسپٹل میں آگ بجھانے کے لئے بھی کسی قسم کی سہولت مہیا نہیں تھی جس سے وقت رہتے آگ پہ قابو پایا جاسکتا تھا ، نرسس بھی آئی سی یو کے باہر تماشبین بنی رہیں اور افسوس فائر بریگیڈ کے پہنچنے تک 13 بدنصیب زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔۔۔۔۔
اور ان دونوں واقعات پہ مہاراشٹر سرکار کی جانب سے ہمیشہ کی طرح وہی گھسا پھٹا اخباری بیان جاری کیا گیا ۔۔۔۔۔
یہاں پہ ہمارا مقصد کسی کو ڈرانہ بدظن کرنا یا ورغلانہ ہرگز نہیں ہے ۔۔۔۔ اور اس بات پہ کوئی شک بھی نہیں ہے کہ ہمارے طبی اہلکار ڈاکٹرس نرسس و دیگر میڈیکل اسٹاف کا اس پینڈمک میں کتنا اہم کردار رہا ہے ، اُن کی قربانیاں اُن کا صبر، برداشت خدمت خلق کا بےلوث جذبہ یقینا قابل ستائش ہے لیکن اس بات کو بھی ہم جھٹلا نہیں سکتے کہ آج بھی ہمارے درمیان” لال چندانی” جیسے ضمیر فروش لالچی قسم کے ڈاکٹر کے بھیس میں چھپے درندے موجود ہیں جو تعصب کے چلتے انسانوں کو زہر دے کر قتل کرنے کی بات کرتے ہیں اور ایسے بھیڑئیے ہی انسانی جانوں کے سوداگر بنے گھوم رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ بہرحال یہاں پہ چند ایسی باتیں جو غورطلب ہیں ۔۔۔۔
گذشتہ سال ملک میں کورونا اچانک تو نہیں ٹپکا تھا بلکہ 2019 نومبر کے آخر میں ہی کئی ممالک میں اس کے اثرات نمایاں ہونے لگے تھے جس کا ذکر کانگریس صدر راہول گاندھی نے اپنے ٹوئیٹ کے ذریعہ کیا تھا ساتھ ہی مرکزی سرکار کو اس وبا کی ہولناکی سے اگاہ کیا گیا تھا باوجود وزیرآعظم مودی کے لئے ہیلو ٹرمپ کرنا ضروری تھا جس کی وجہ سے سارا ملک آج ان بدترین حالات سے جوج رہا ہے ۔۔۔۔
یوں تو بی جے پی سرکار کی جہالت کی وجہ سے سال 2020 اسی مہلک وبا کی نزر چڑھ گیا اور اس دوران حکومت سے لے کر عام انسان اور ہر شعبہ سے جُڑے لوگ ہر طرح کے بحران و مسائل سے بخوبی واقف ہوگئے تھے ، باوحود 2021 کے لئے سرکار کی جانب سے اس وبا سے بچنے کے لئے کسی بھی قسم کے اقدام ، احتیاطی تدابیر نہیں کی گئیں نہ آکسیجن سپلائی بڑھائی گئی ، نہ بیڈس کا انتظام کیا گیا نہ ہی وینٹی لیٹرس بڑھائے گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یقیں جانیں آج جتنی بھی اموات ہورہی ہیں، اس وبا نے جو خوفناک صورت اختیار کی ہے اس کی ذمہ دار حکمران جماعت ہے اور ایک حد تک گودی میڈیا اور وہ طبی عملہ بھی اس میں برابر شریک ہے جس کے لئے آج ڈاکٹری پیشہ و صحافت محض تجارت و دلالی بن چکا ہے ۔۔۔۔۔
افسوس پورے ایک سال کا وقت ملنے کے باوجود آج ملک جس ایمرجنسی سے گذر رہا ہے یہاں کسی کی بھی جان محفوظ نہیں رہی کیونکہ جب وبا آتی ہے تو وہ دھرم مذہب، امیری غریبی، نام رسوخ نہیں دیکھتی بلکہ اس کے لئے ایک انسانی جسم چاہئیے ہوتا ہے بھلے وہ کسی کا بھی کیوں نہ ہو اور وہ کسی کو بھی اپنا شکار بناسکتی ہے فرق بس اتنا ہے مڈل کلاس و غریب طبقہ علاج سے محروم پریشان حال در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے یہان تک کے مرنے کے بعد اس کی لاش جلانے کے لئے لکڑیاں تک میسر نہیں ہوتی بلکہ لاوارثوں کی طرح کوڑھے دوانوں ، کچرے کی گاڑیوں میں سڑھنے گلنے تک چھوڑ دیا جاتا ہے ، وہی مالدار پانی کی طرح پیسہ بہاکر کم از کم بہتر علاج کے لئے کوشش تو کرتے ہیں باقی موت حیات اللہ سبحان تعالی کے ذمہ ہے کم اور آپ کے بس میں احتیاط کے سوا کچھ نہیں سو ہر انسان اپنی جان کا ذمہ دار خود ہے، اپنی اور اپنوں کی حفاظت وہ خود کرے خاص کر ایسے ملک میں جہاں انسانی جانوں کی اہمیت محض گنتی ہے ویسے بھی یہاں ہماری نکمی سرکار سے کوئی امید کرنا بھی بیوقوفی ہے ۔۔۔۔۔
ذرا سوچیں جب سرکار 7 سے 8 ماہ کا طویل وقفہ ملنے کے باوجود کووڈ مریضوں کے لئے بہتر سہولیات فراہم نہیں کرسکیں وہ آگے بھی ہمارے لئے کچھ نہیں کرے گی ان کے لئے انسانی جانیں کیڑے مکوڑوں کی طرح ہیں اخباری چسکیوں کے ساتھ پڑھی جانے والی خبریں ہیں ۔۔۔۔۔
ویسے بھی یہ سرکار آپدا میں اوسر تلاش کرنے والی ہے ، لاشوں پہ سیاست ان کی فطرت ہے ورنہ سانسوں کے بدلے یہ ووٹ نہیں مانگتے، آتمہ نربھر ہونے کی بات کہہ کر جنتا کی جیبیں نہیں لوٹی جاتی نہ ہی پی ایم کیر فنڈ کا پیسہ اپنی انتخابی ریلیوں میں نہیں اڑایا جاتا ۔۔۔۔۔
آج جہاں جہاں لاشوں کے امبار پڑے ہیں وہاں بی جے پی سرکار اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کر رہی ہے کہیں آکسیجن سپلائی رکوا کر تو کہیں ویکسین کے دام بڑھواکر کھُلے عام غنڈہ گردی کی جارہی ہے ۔۔۔۔
یقین جانیں اب حالات اس قدر خوفناک بن چکے ہیں کہ اگر کوئی علاج کے لئے ہاسپٹلس جانے کی بات بھی کہتا ہے تو یوں لگتا ہے مانو وہ شفا خانہ نہیں بلکہ موت کے منہ میں داخل ہورہا ہے ۔۔۔
اُس پہ جس طرح کی باتیں سننے میں آرہی ہیں وہ مزید پریشان کررہی ہیں اب یہ افواہ ہے یا حقیقت اللہ بہتر جانتے ہیں لیکن لوگوں کی آنکھوں میں جو خوف نظر آرہا ہے، اپنے عزیزوں کے لئے اُن کی جو تڑپ ہے، جس طرح سے آن کیمرہ وہ اپنی آب بیتی سنارہے ہیں سنتے دیکھتے روح کانپ جاتی ہے ۔۔۔۔
ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ سرکار پہ بھروسہ کرنے کے بجائے خود آگے بڑھ کر ہر شہر ہر علاقے میں بلاتفریق کورنٹائن سینٹرس بنائیں ، اپنی اپنی استطاعت کے مطابق زیادہ سے زیادہ آکسیجن اور وینٹی لیٹرس کا انتظام کریں تاکہ آکسیجن کی قلت سے کوئی معصوم تڑپ تڑپ کر دم نہ توڑے ، ویسے بھی ماہ رمضان ہے اگر اس سال ہم اپنا زکوٰۃ کسی کی جان بچانے کے لئے استعمال کریں گے تو یہ پوری انسانیت کی خدمت ہوگی اور مسلمانوں کے لئے اس سے بڑھ کر خوش نصیبی کیا ہوسکتی ہے ۔۔۔۔ ویسے بھی مسلمان ہمیشہ بلاتفریق بھوکے کو کھانا اور پیاسے کو پانی پلانا ثواب مانتے ہیں تو کیوں نہ آج کسی کو چند سانسین دے کر ہم یہ ثواب کمائیں اور اپنی نیکیاں بڑھائیں ۔۔۔۔
رہی بات عید کی شوپنگ اور نئے لباس پہننے کی ان حالات کے چلتے ہمارا عید کی خوشیاں منانا انسانیت کے خلاف ہے اگر وہی رقم ہم انسانی جانیں بچانے کے لئے استعمال کریان تو ممکن ہے اللہ سبحان تعالی بھی ہم سے راضی ہوجائیں اور اس جان لیوا وبا سے ہماری اور ہمارے اہل خانہ کی حفاظت فرمائیں ۔۔۔ آمین
آخر میں یاد رہے سب کچھ جانتے بوجھتے حالات کو دیکھتے ہوئے بھی اگر ہم نے بےحسی کا مظاہرہ کیا تو اللہ نہ کریں وہ وقت دور نہیں جب ہمارا کوئی اپنا عزیز ان حالات کا شکار ہوجائے گا اور وہ سب کچھ ہمیں جھیلنا پڑے جو آج ہمارے ہم وطن بھائی بہن جھیل رہے ہیں کتنی بےرحمی سے اُن آگے اُن کے اپنوں کی زندگیاں ختم کی جارہی ہیں اور وہ بےبس لاچار آنسو بہانے کے سوا کچھ نہیں کر پارہے، اللہ نہ کریں کل کو یہ آنسو ہماری اور آپ کی آنکھوں میں ہوں ۔۔۔۔۔۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں