مسعود جاوید
گزشتہ کئی سالوں سے سوشل میڈیا پر بعض لوگ دانستہ کسی کی کردار کشی کرتے رہے ہیں اور اس گناہ میں غیر دانستہ وہ لوگ بھی شریک ہو جاتے ہیں جو بغیر تحقیق ایسی خبروں کو آگے بڑھاتے ہیں، لائک ، شیئر یا اس کی تائید میں کمنٹ کرتے ہیں۔
چند مہینے قبل ایک پاکستانی نیوز پورٹل پر ایسی ہی کردار کشی کرنے والی ایک خبر گردش کر رہی تھی جس کی نسبت سعودی عرب کے مفتی کی طرف کی گئی تھی۔ میں نے تحقیق کی تو پتہ چلا وہ شخص کوئی مفتی نہیں ایک طالب علم ہے جو یورپ میں زیرتعلیم ہے اور اس نے اپنی آزاد خیال سوچ اپنے ٹائم لائن پر پوسٹ کیا جسے پاکستانی نیوز پورٹل نے مضمون کی شکل میں پیش کیا اور سعودی مفتیان کرام کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔۔۔۔ اس پورٹل کی تفتیش سے پتہ چلا کہ وہ ایک مخصوص فرقہ کا ہے لیکن ہندوستان میں بہت سارے فیس بک لکھاری اس مضمون کو بنیاد بنا کر سعودی علماء و حکومت پر لعن طعن کرنے لگے۔
ایک سرپھرا مصری نے ٹماٹر کا دو ٹکڑے کیا اس کے اندرونی حصے میں گودے اور خانے دیکھ کر اسے صلیب کی شکل نظر آئی اس نے کہا ٹماٹر کھانا جائز نہیں ہے۔ یہ شخص شکل و صورت اور وضع قطع سے مولوی نما تھا چنانچہ سوشل میڈیا اور نیوز پورٹل پر اسے مفتی بتاتے ہوئے اسلام کی ” تنگ نظری اور احمقانہ ” طرز فکر کو نشانہ بنایا گیا۔ برج دبئی کی تصویر ہر گاڑی کے لائسنس/ نمبر پلیٹ پر ایمبوس کیا گیا حکومتی محکمے میں چند متشدد مصری مشیروں نے کہا کہ بادی النظر میں یہ تصویر صلیب لگتی ہے اس تصویر کو ہٹایا جائے یا دوسرے اینگل سے لے کر لگایا جائے ۔۔۔۔
اس سے قبل میں نے کئی بار لکھا ہے کہ ہمارے لئے تین مقدس مقامات ہیں سعودی عرب میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ اور فلسطین میں القدس۔۔۔ سعودی عرب اور فلسطین میں رہنے والے لوگ بھی ہماری اور آپ کی طرح مسلمان ہیں جن میں متقی پرہیزگار، پابند صلوٰۃ و صوم ، حلال و حرام میں تمیز کرنے والے، زکوٰۃ و صدقات ادا کرنے والے اور دور دراز کے ممالک میں غربت و افلاس کے شکار لوگوں کی سخاوت کے ساتھ مدد کرنے والے، مسجدیں بنانے والے اور پانی کے لئے ہینڈ پمپ لگوانے والے ہیں مگر اسی صالح معاشرہ میں بعض دین بیزار، تارک صوم و صلوٰۃ ، شراب پینے، کیسینو میں جوا کھیلنے والے، اخلاق سوز فلمیں دیکھنے والے اور غیر عورتوں کے ساتھ عیاشی کرنے والے بھی ہیں۔ شاید بعض لوگوں کو یہ پڑھ کر صدمہ پہنچے کہ برسوں قبل سے جب ویڈیو اور کیسٹ کا دور تھا ریاض میں مڈل ایسٹ کا ڈسٹریبیوٹر مختلف ممالک اور زبانوں کے کیسٹ ڈسٹریبیوٹ کرتا تھا جن میں فلمی ، مذہبی، ہندؤں کے کیرتن بھجن ، اور اخلاق سوز عریانیت بھری جنسی ہیجان انگیز نیم پورنو گرافی کیسٹس بھی ہوتے تھے۔
آج سے پچاس سال قبل جسے موجودہ سعودی عرب کا خیر القرون کا معاشرہ کہہ سکتے ہیں اس دور میں بھی پٹرول نکالنے والی کمپنیوں کے امریکی ، یوروپین اور دیگر ممالک کے مینیجر، عملے، اسٹاف قانوناً شراب اور خنزیر کیمپ کے میس میں کھاتے تھے اور ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں ،خواہ مسلم ملک ہو یا غیر مسلم، سفارتخانوں کے عملہ کو شراب و خنزیر مہیا کرائے جاتے ہیں یا انہیں امپورٹ کرنے کا لائسنس دیا جاتا ہے ۔۔۔۔ کیا مسلم حکمرانوں کے دور میں ذمیوں کے لئے یہی سہولیات مسلم ریاستیں نہیں دیتی تھیں ؟
کم و بیش ایسی ہی صورتحال خلیج کے دیگر ممالک یو اے ای، قطر، بحرین، عمانی اور کویت کی ہے۔ اس لئے کہ ان ممالک میں دنیا کے سو سے زائد ممالک کے تارکین وطن مقیم ہیں۔ ان ممالک میں فرد کی مذہبی آزادی دوسرے مذاھب کے لوگوں کو حاصل ہے۔ ہندوؤں کی تعداد ان ممالک میں اس طرح ہے :
متحدہ عرب امارات یو اے ای ۔۔ 660,000
سعودی عرب ۔۔۔۔۔۔۔ 440,000
قطر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 360,000
کویت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 330,000
عمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 190,000
بحرین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 150,000
ہم مسلمانان برصغیر کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سعودی عرب اور فلسطین کو بحیثیت پورے ملک اور معاشرہ مقدس مانتے ہیں اور ظاہر ہے ان ملکوں میں ذرا سی بے راہ روی ہوتی ہے تو ہمارے تقدس بھرے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اس لئے سب سے پہلے ان مقدس مقامات کے بارے میں ہمیں اپنا پرسیپشن بدلنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم مقدس مقامات کو اس کے صحیح پرسیپشن میں سمجھیں گے تو ہمیں سمجھ میں آئے گا کہ وہاں کے رہنے والے عام مسلمان ہیں ، اور یہ کہ کون حرمین شریفین کی محبت میں لکھ رہا ہے اور کون ترکی اور ایران سے محبت میں۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ خالص دینی ملک و معاشرے کا یہ دور نہیں ہے۔ اور ظاہر ہے مخلوط معاشرہ متعدد مذاہب اور تہذیبوں کے لوگ جب ہوں گے تو ان پر کوئی مخصوص مذہب اور تہذیب مسلط نہیں کر سکتے۔
اسکولوں میں نصاب تعلیم : خلیجی ممالک میں بھی سرکاری اور پرائیوٹ اسکول ہیں۔ سرکاری اسکول کے نصاب تعلیم حکومت طے کرتی ہے جبکہ پرائیویٹ اسکول کو اجازت ہے کہ وہ اس ملک کی عادات و تقالید کا احترام کرتے ہوئے کسی اور بورڈ کا نصاب تعلیم اختیار کر سکتا ہے بشرطیکہ ایک مضمون عربی اور اخلاقیات مورل ایجوکیشن کے تحت دینیات کسی بھی مذہب کی شامل ہو۔ چنانچہ سی بی ایس ای سے الحاق شدہ ، Our Own English School UAE میں میری دونوں بیٹیاں پڑھتی تھیں عربی کے علاوہ Moral Education کے تحت اختیار دیا گیا میں نے اپنی پسند کے مطابق ان کے لیے اسلامیات منتخب کیا ہندؤں کے لئے ان کی مذہبی کتاب اور عیسائیوں کے لئے ان کی مذہبی کتاب کا اختیار دیا جاتا تھا بہت سے غیر مسلم اپنی مذہبی کتابوں کی بجائے اسلامیات اور عربی لیتے تھے۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں بھی انڈین اسکول ، اور بے شمار سی بی ایس ای اسکول ہیں۔ اگر ان کتب میں ہندوؤں کے اساطیری واقعات کا ذکر ہو تو ہمارے اسلام پر کون سی انچ آجاۓ گی ؟
ان تمام ممالک میں ہر شخص کو اپنے مذہب کی اتباع کرنے، دھارمک گرنتھوں کو پڑھنے اور پوجا پاٹ کرنے کی اجازت ہے۔ رامائن اور مہابھارت سیریل دور درشن کے کیسٹ اور بعد میں سٹیلائٹ چینلز پر خوب دیکھے جاتے ہیں کیا کوئی اس پر پابندی کی سوچ سکتا ہے! ہر علاقے کے مسلم ہندو اور کرسچن اپنے مذہبی رہنماؤں کو وزٹ ویزہ پر بلاتے ہیں اور ان سے مستفید ہوتے ہیں۔
مذہبی تعصبات بلکہ غلو کے معاملے میں بعض مصری اردنی اور فلسطینی ہم سے پیچھے نہیں ہیں۔ میری بچی کی عربی کی کتاب میں جہاں جہاں خنزیر لکھا تھا اردنی فلسطینی ٹیچر نے اسے سیاہی سے مسخ کر دیا ! میرے سوال کرنے پر کوئی خاص جواب نہیں دیا تو میں نے کہا قرآن مجید میں بھی متعدد مقامات پر خنزیر لکھا ہے کیا اسے بھی مٹاتے ہو !
ہمارے یہاں بھی سور اور خنزیر نہ بول کر بعض لوگ نجس اور ناپاک جانور بولتے ہیں ! اور سود کو انٹریسٹ بول کر لین دین کرتے ہیں !






