مردآہن ڈاکٹرمحمدشہاب الدین سیوانی مرحوم : سارےجہاں کادردہمارےجگرمیں ہے

اخترامام عادل قاسمی

مردِ آہن ۔ممتاز سیاستداں اور کمزوروں کے مسیحا ڈاکٹر محمد شہاب الدین سیوانی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔اناللہ واناالیہ راجعون ۔

آج یکم مئی 2021 بروز سنیچر صبح کے وقت یہ رنجیدہ خبر ملی کہ اس جواں سال سیاسی رہنما کا انتقال ہوگیا۔ پھر تھوڑی دیر میں اس کی تردید بھی آئی ۔کچھ گھنٹوں تک یہ سیاسی کھیل جاری رہا اور موت کی تصدیق پر یہ سوچا سمجھا ڈرامہ ختم ہوا۔

شہاب الدین کی موت کسی فردکی نہیں بلکہ سیاسی تہذیب اور انسانی اقدارکےحامل اس آخری شہسوار کی موت ہے جس کےبعداس فکر اور معیار کا دوسرا کوئی شخص موجودہ ہندستان میں نظر نہیں آتا ۔ جس نے انتہائی خاموشی کے ساتھ کام کیا۔ اور جس نے گھر سے لےکر جیل اور میدان سیاست سےاسمبلی اور پارلیامنٹ تک صرف خدمت خلق کو اپنا وظیفۂ حیات بنالیا تھا۔ اس نےحکومت میں نہ رہ کربھی خدمت خلق کی وہ سنتیں تازہ کیں جوسیاسی دنیاکیا۔ بہت سے باشرع حلقوں میں بھی اس کے نمونے کم ہی ملتے ہیں۔اور اس کےلئے خود سیوان کے لوگوں کی شہادتیں بہت کافی ہیں۔

میں نےپہلی باران کو سیوان میں 1990ء میں دیکھا۔جب میں مدرسہ سراج العلوم سیوان میں مدرس تھا۔وہ اپنےاستاذحضرت مولانااقبال احمدسیوانی مظاہریؒ بانی ومہتمم مدرسہ سراج العلوم سیوان سےملاقات کے لئے حاضر ہوئے تھے۔ مولانااقبال صاحب نےتعارف کرایاکہ یہ اسی مدرسہ کےطالب علم رہےہیں۔اوراسی نسبت سے اکثر مدرسہ آتے رہتے ہیں۔ اب سیاست کےخارزارمیں قدم رکھا ہے۔ اور تیزی کےساتھ آگےبڑھ رہےہیں ۔اس وقت ان کی شہرت زیادہ نہیں تھی ۔ لیکن وہ ایک ابھرتے ہوئے سیاسی لیڈر تھے۔

مدرسہ سراج العلوم کامحل وقوع سیوان کے ایک گنجان بازار “تیل ہٹہ بازار” میں اندرکےحصہ میں تھا۔روڈ سے مدرسہ کےاندر جانےکے لئے قریب دوفٹ چوڑی ایک پتلی سی طویل گلی تھی ۔جس سے کوئی رکشہ بھی نہیں گذرسکتاتھا۔جب کہ یہ مدرسہ علاقہ کاسب سےاہم مدرسہ تھا۔اکثراکابرعلماء واعیان کی آمدورفت ہوتی تھی۔علاوہ یہاں تبلیغی مرکزبھی واقع تھا۔اس مناسبت سےعرب کی جماعتیں بھی آتی رہتی تھیں۔مدرسہ کےذمہ داروں نے بہت کوشش کی کہ کم ازکم ایک گاڑی کے گذرنے کا راستہ بھی میسر ہوجائے۔ خواہ جو قیمت دینی پڑے۔ مگر ان کو کامیابی نہ مل سکی ۔کسی اللہ کے بندے نے مدرسہ کے اس درد کو نہیں سمجھا۔ میرا قیام وہاں قریب ایک سال رہا۔ اور پھر میں حیدرآباد چلاگیا۔ تقریبا بائیس تئیس سال کے بعد امارت شرعیہ بہار کے بین المدارس اجتماع کے محاضر اور کچھ ماہ کے بعد مدرسہ کے پچاس سالہ جشن میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے میری وہاں حاضری ہوئی تو ہماری گاڑی مدرسہ کے عالیشان گیٹ سے سیدھے مدرسہ کے احاطے کے اندر داخل ہوئی۔ میں دیکھ کر حیران رہ گیاکہ مدرسہ کے حدود روڈ تک وسیع ہوگئے تھے۔ اور ایک بڑا عالیشان صدر دروازہ روڈ کے کنارے تعمیر ہوچکا تھا۔ وہاں کےاساتذہ اور ذمہ داروں سےمعلوم ہوا کہ یہ مشکل مرحلہ اسی مدرسہ کے ایک طالب علم شہاب الدین نےسر کیا جو اب ایک مشہور سیاسی لیڈر ہیں۔ انہوں نے روڈ کنارے کی تمام زمینیں اپنے نام خرید لیں ۔ جن کےحکم سےکسی کو مجال انکار نہیں ۔ اور پھر وہ سب کچھ انہوں نے مدرسہ کولکھ دیا۔ اس طرح مدرسہ نے ایک بڑے مشکل سے نجات پائی ۔ میں نے دیکھا کہ اس مقام پر نئی تعمیرات ہورہی تھیں۔

میری دوبارہ حاضری کے موقعہ پر بانی مدرسہ حضرت مولانا اقبال احمد صاحب زندہ نہیں تھے لیکن میں ان کی روحانی مسرت کومحسوس کرسکتا تھا۔ ساری زندگی جس کرب کے ساتھ انہوں نے گذاری آخراسی مدرسہ کے فرزند نے اس کرب کودورکرکے اپنے لئے سعادت اخروی فراہم کی۔ سیاست اور دنیاداری میں رہتے ہوئے دینی اداروں سے یہ رشتہ اور صدقہ جاریہ کی یہ وہ شاندار مثال ہے جو شاید ڈھونڈھنے سےبھی اس دور میں کسی سیاسی شخصیت کی زندگی میں نہ ملے۔

سیوان میں ان کی خدمت خلق کی اوربھی مثالیں ہیں ۔میں نےوہاں کےسفرمیں محسوس کیاکہ وہ دلوں پرحکومت کرتےتھے ۔اوراس میں کسی بھیدبھاوکےروادارنہیں تھے۔غلطیاں کس سےنہیں ہوتیں ۔لیکن مجموعی طورپروہ ایک نیک دل اور بہترین انسان تھے۔ان کا خوبصورت ماضی ان کے روشن مستقبل کا عکاس تھا۔ وہ بہت آگےتک جانے کا عزم رکھتے تھے۔ لیکن ان کی صلاحیت ومقبولیت ان کے دشمنوں کی آنکھوں کاکانٹابن گئی ۔ان کے راستے روکے گئے۔ ان کو بدنام کیا گیا۔ منصوبہ بندطورپر ان کی کردارکشی کی گئی۔ اور اس مردمجاہد کو”باہوبلی “کا نام دیا گیا ۔ اسی طرح ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہےگا۔ اس طرح ایک اچھا خاصا انسان پس منظرمیں چلاگیا۔ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے۔ نیکیوں کوقبول کرے۔ درجات بلندفرمائے۔ اور پسماندگان کوصبرجمیل عطا کرےآمین

وہ اس شعر کا مصداق تھے: ؎

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر

سارے جہاں کا درد ہمارے جگرمیں ہے