کورونا بحران: قبلہ اول پر حملہ اور عید

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
پھر عید آگئی۔ ایک بار پھر آنسوؤں میں بھیگی ہوئی عید۔ 2020 میں ہم نے غم سے بوجھل دل اور نہ رکنے والے آنسوؤں کے ساتھ عید منائی تھی۔ امید تھی کہ 2020 اپنے تمام نحوستوں کے ساتھ ختم ہوگیا۔ ایک نئے سال کا آغاز ہوا ہے تو اپنوں کے بچھڑنے کا غم اور زخموں کی کسک کے سہارے ہی سہی ایک نئی زندگی گزاری جائیگی۔ مگر یہ سلسلہ تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اتنی طویل آزمائش‘ اللہ کی پناہ!
ہر رمضان میں ہم اپنے آپ کو اس بات کا احساس دلاتے رہتے ہیں کہ زندگی پانی کا بلبلہ ہے۔ پچھلے رمضان میں جو ساتھ تھے‘ اس رمضان میں نہیں رہے۔ 2020ء میں بھی جو ہمارے درمیان تھے ان میں سے اتنے سارے اتنی تیزی سے یوں بچھڑ جائیں گے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔ کچھ تو آخری دہے کے آغاز تک بھی ساتھ تھے۔ عید سے پہلے ان کا غم ان کی یاد رہ گئی۔ ایسا کونسا گھر ہے جہاں سے کوئی فرد کم نہیں ہوا یا اس عالمی وباء سے متاثر نہیں ہوا۔ کس قدر وحشت، دہشت اور خوف طاری ہے۔ فاصلے تو پہلے سے ہی پیدا ہورہے تھے‘ رہی سہی کسر سماجی فاصلوں کی ہدایت نے پوری کردی ہے۔ گھر میں کسی مہمان کی آمد کو اللہ کی رحمت سمجھا جاتا تھا، اب آنے والے مہمان کو ملک الموت سمجھا جانے لگا ہے۔ رشتے، ناطے، اخلاقی اقدار، اخلاص، مروت کے معنی و مفہوم بدل گئے۔ سناتھا کہ میدان حشر میں نفسا نفسی کا عالم ہوگا۔ اس کا ٹریلر دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔ کوئی کسی کی عیادت کے لئے تیار نہیں… جنازوں میں شرکت سے گریز‘ اس ڈر سے کہ کہیں وائرس چھو نہ لے۔ کہتے ہیں کہ مردہ جسم سے وائرس نہیں پھیلتا۔ کون کسے سمجھائے؟ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی علم و ادب کی دنیا اپنے سرمائے اور اثاثے سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ جید علمائے کرام، مایہ ناز ادبی اور علمی ہستیاں ایک ایک کرکے رخصت ہوتی جارہی ہیں۔ عمر رسیدہ حضرات رخصت ہوتے ہیں تو اتنا ملال نہیں ہوتا مگر جواں سال گزر جاتے ہیں تو اس صدمے کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران جن آزمائشی حالات سے ہم گزرتے رہے‘ اس سے ہم نے کوئی سبق بھی نہیں لیا۔ جو بچ گئے وہ غالباً اس خوش فہمی ہے کہ ان کا نمبر ابھی آنے والا نہیں‘ تبھی تو اپنے طرز زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اِن دنوں اپنے خیالات، احساسات اور جذبات کے اظہار کے لئے سوشیل میڈیا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ اور یہی سوشیل میڈیا ہمارے ذہنوں کی عکاسی کررہا ہے کہ ہم کیا سوچتے ہیں‘ ہم کیا چاہتے ہیں اور ہم کیا کررہے ہیں۔ جنہیں اللہ نے توفیق دی وہ تو سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی نئے سرے سے نئے سانچوں ڈھال رہے ہیں۔ اور جنہیں توفیق ہونی ہے‘ وہ ابھی بھی بے حس ہیں۔ اور کچھ تو موت کے سوداگر بھی بنے ہیں۔
عید تو اللہ کا انعام و ا کرام ہے۔ جنہیں ماہ رمضان المبارک میں تمام مسائل و مصائب کے باوجود عبادت کاموقع ملا اس کاشکرانہ ہے۔ نئے ملبوسات اور ضیافتوں کا نام نہیں‘ یہ ضرور ہے کہ اپنے خوشی کا اظہار یوں بھی کیا جاسکتاہے مگر ایسے وقت جبکہ ساری دنیا سسک رہی ہے۔ بلک رہی ہے‘ آکسیجن کے انتظار میں سانسیں اکھڑ رہی ہیں۔ زندگی کی آس میں یا تو جائیدادیں بک رہی ہیں یا پھر قرض کے بوجھ تلے دب رہے ہیں۔ اس پس منظر میں کتنا اچھا ہوتا کہ ہم اپنے حصہ کی خوشیاں دوسروں میں تقسیم کریں۔ کسی کے آنسو پوچھیں۔کسی کی ضرورت کی تکمیل کریں۔ ایسا نہیں کہ ہمارے درمیان ایسے لوگ نہیں ہیں‘ جو چپکے سے بند مٹھی دوسروں کی مدد کررہے ہیں۔ مگر اسے ایک تحریک بنانے کی ضرورت ہے۔ 2020-21 کے درمیان کتنے ہی سفید پوش جب بے نقاب ہوئے تو ان کے دامن بھی اور کردار بھی داغدار نکلے۔ آئے دن جب ایسی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں کہ زندگی موت کی کشمکش میں آکسیجن سلینڈر طلب کرنے والوں سے آن لائن دھوکہ کیا گیا۔ نقلی ریمیڈی سیور انجکشن تیار کرکے لاکھوں روپئے کمالئے گئے۔ ہاسپٹل کی بیڈ پر تڑپتے مریضوں سے رقم اینٹھنے والی نرسس، مریضوں کے ارکان خاندان کے جذبات کا استحصال کرتے ہوئے ان کی کھال تک کھینچنے لینے والے پرائیویٹ ہاسپٹلس کے واقعات پڑھنے کے بعد کیا اس دنیا سے کوئی رغبت باقی رہ سکتی ہے۔ عوام کے پیسے پر عیاشی اور راج کرنے والے ہمارے خود غرض، بے ضمیر نیتا جو ایم پی فنڈ سے ایمبولنس خریدتے ہیں اور عوام کے استعمال میں لانے کی بجائے ویران مقامات پر زنگ آلودہ ہونے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں۔ گنگاجل کے گھونٹ پی کر دم توڑنے کی آرزو کرنے والے وہ ہندو قائدین جو پچیس برس سے گنگا کی صفائی کے پراجکٹ میں جانے کیا کررہے ہیں‘ آج انہی کی نااہلی کی وجہ سے اسی گنگا میں سینکڑوں نعشیں تیر رہی ہیں۔ ان نعشوں کا وارث کون ہے۔سرکاری انتظامیہ کی لاپرواہی کی وجہ سے موت کا شکار ہونے والے یہ غریب بے سہارا لوگ گنگا کے حوالے کردیئے گئے اور گنگا نے بھی انہیں ا س لئے اُچھال پھینکا کہ گنگا کے نام کو بدنام کرنے والے منظر عام پر آسکیں۔ قبرستان ہو یا شمشان نہ یہاں دفن کرنے کیلئے جگہ نہ وہاں سپرد آتش کرنے کے لئے جگہ۔یہ کیساو قت آگیا کس بدترین دور سے ہم گزر رہے ہیں۔ اس کے لئے کون ذمہ دار ہے۔ شاید ہر ہندوستانی اس کے لئے ذمہ دار ہے۔
یہ کیسا وقت آگیا میرا ملک جو ساری دنیا کے ممالک میں اپنی صلاحیتوں، نوجوانوں کی آبادی کے تناسب، آئی ٹی ایکسپرٹس کی بدولت ایک منفرد مقام حاصل کررہا تھا‘ آج اُسے عالمی برادری نے اچھوت بناکر رکھ دیا۔ ہم نے پڑھا ہے کہ اگر حکمران ظالم ہو تو اس کا اثر ملک پر پڑتا ہے۔ یہاں آفات سماوی نازل ہوتی ہیں۔ زلزلہ، قحط سالی سے ایسے ملک تباہ ہوتے ہیں۔ ہندوستان آج تباہی کے دہانے میں داخل ہوچکا ہے۔ اور دنیا نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ آج کی ہندوستانی قیادت ظالم اور خود غرض ہے اپنے سیاسی اقتدار کے لئے اس نے موت کا کھیل کھیلا ہے۔
یہ حالات شاید اس لئے بھی پیدا ہوئے کہ قدرت یہ بتانا چاہتی ہے کہ اس کی عدالتِ انصاف میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ جو لوگ ہماری نسل کشی کررہے تھے‘ انہیں ہمارے بعض تنگ نظر تعصب پسند بھائیوں نے اپنے ملک کا نجات دہندہ سمجھ لیا۔ مسلم دشمنی کرنے والے کو دنیا کی ہر قوم اپنے سر پر بٹھاتی ہے۔ دنیا کی ہرقوم کو صرف اور صرف دشمنی، نفرت اور تعصب ہے تو وہ مسلم قوم سے ہے۔ ایک دور تھا جب یہود اور نصرانی ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ آج مسلم دشمنی کے لئے وہ دونوں ایک ہوچکے ہیں۔ اور بھی اقوام ان کے ہم نوا بن چکے ہیں۔ مسلمانوں کی نسل کشی کے ذمہ دار کو اعزاز عطا کرنے کے لئے ملک کے سب سے بڑے منصب پر فائز کیا گیا۔ ہم اللہ سے گلہ شکوہ کرتے رہے۔ اے پروردگار! یہ کیسا انصاف ہے۔ تیرا نام لینے والے تیرے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کے نام و نشان مٹانے والوں کو کامیابی اور ترقی کی نئی نئی منزلوں سے ہمکنار کررہاہے۔ آج اللہ رب العزت نے کورونا بحران کے ذریعہ ساری دنیا‘بالخصوص مسلمانوں کے قاتلوں کو ہیرو تسلیم کرنے والوں کو خود یہ کہنے کے لئے مجبور کردیا ہے کہ جس نے مسلمان کی نسل کشی کی تھی‘ وہ تو پورے ہندوستانی قوم کی تباہی و بربادی اور ان کی ہلاکتوں کا ذمہ دارہے۔ کل تک وہ انٹرنیشنل میڈیا جس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہا تھا آج اس کی مذمت کرتے ہوئے نہیں تھکتا۔اللہ رب العزت اپنے بندوں پرظلم کرنے والوں کو ڈھیل دے دے کر اُسے اس حد تک پرواز کا موقع دیتا ہے جہاں پہنچ کر ا س کی طاقت پرواز جواب دینے لگتی ہے اور پھر وہ بلندی سے بڑی تیزی سے پستی میں آگرتا ہے تو دوبارہ اڑنے کے قابل نہیں رہتا۔ یہ پستی کبھی الیکشن میں شکست فاش کی صورت میں، تو کبھی ہنگامی حالات سے نمٹننے میں ناکام اور نااہلی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔
میرے ملک کے حالات جیسے بھی ہیں‘ آج نہیں تو بہتر ہوجائیں گے ان شاء اللہ۔ مگر ا س کی ضرب ہم کو مٹانے والوں پر کچھ اس طرح سے لگی ہے کہ وہ زندہ رہ کر بھی گمنام ہوجائیں گے اور کسی کو ان کی یاد آبھی جائے تو عبرت کی نشانی کے طور پر۔
عید تو بہرحال منانی ہے!مغموم ٹوٹے دل اورخشک ہوتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ کہ قبلہ اول پر ایک بار پھر حملہ ہوا ہے۔ تقدس کو پامال کیا گیا۔ بے شمار فلسطینی مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ اگست 1969ء کے بعد ایک بار پھر مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ میں آگ لگائی گئی۔ اسرائیلی فوج کی درندگی اپنی شدت پر ہے۔ او آئی سی نے تشویش او رمذمت کی مگر اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک ہی مردانہ آواز اٹھی طیب ارغان کی‘ جنہوں نے ترکی افواج کو اسرائیل سے لڑنے کے لئے بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی چاہتے ہیں کہ تخت سلیمان کو لاکر قبلہ اول میں رکھا جائے اور تھرڈ ٹیمپل تعمیر کیا جائے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت جسے کرسی میں تبدیل کردیاگیا ہے اس وقت ویسٹ منسٹر لندن میں رکھاہوا ہے۔ اسرائیلی چاہتے ہیں کہ مسیح دجال کو اس تخت پر بٹھایا جائے جسے وہ اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خواب ان شاء اللہ پورا نہیں ہوگا۔ یہ ہمارا پختہ یقین ہے۔
رابط3: 9359381226

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں