مدارس اسلامیہ میں آن لائن تعلیم وقت کی ضرورت ہے

پرویز عالم قاسمی
کرونا جیسی عالمی وبا کے قہر نے پوری دنیا اور اس کے جملہ نظامہائے حیات کو بالکل ٹھپ کردیا ہے، عبادت گاہوں سے لیکر تفریح گاہوںاور تجارت گاہوں سے لیکر دانش گاہوں تک سبھی کچھ بند پڑے ہوئے ہیں ۔ یہ سلسلہ دن بدن درازتر ہوتا جارہا ہے اور مستقبل کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ بعضوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے ، اسی لئے اب حیات مستعار کے ایام اسی حالت میں نئے راستوں کی تلاش کے ساتھ گذارنے پڑیں گے۔
ایسے غیر یقینی صورت حال میں جہاں لوگوں کی جانیں تلف ہورہی ہیں، پوری معیشت تباہ ہو رہی ہیں وہیں نونہالانِ امّت کا مستقبل بھی خطرات کے گھیرے میں ہے۔ کیونکہ ساری تعلیم گاہیں بند ہیں ، تاہم ان نقصانات کی تلافی کیلئے آن لائن تدریسی سرگرمیاں جاری رکھی گئی ہیں تاکہ بچوں کا انہماک اور شغف تعلیم و تعلم اور لکھنے پڑھنے سے برقرار رہے ورنہ ان خالی اوقات میں یہ قیمتی اثاثے تباہ وبرباد ہوجائیں گے۔ ہو سکتا ہے وہ ایسے مصروفیات و مشاغل میں منہمک ہو جائیں جو نہ صرف ان کیلئے خطرناک ہوں بلکہ پوری قوم و ملت کیلئے بڑا نقصاندہ ثابت ہوں۔
مشاہدہ سے پتہ چل رہا ہے کہ یہ وقتی اور عارضی تدبیریں کار آمد ثابت رہی ہیں ، اکثر اسکول و کالج میں تو کلی طورپر اور بعض مدارس و جامعات میں بھی جزوی طورپر تجربے کئے جارہے ہیں ۔راقم الحروف نے اس کا عملی مشاہدہ جامعہ اسلامیہ جلالیہ ہوجائی ، آسام کے نظام میں کیا ہے۔ یہاں کے ایک سنیئر استاد نے بتلایاکہ ہمارے ذمہ داران نے حالت کی نزاکت کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہمیں آن لائن تعلیمی سلسہ شروع کرنا چاھئے ؛چنانچہ بعض جماعتوں میں جدید داخلے بھی ہوئے اور پابندی کے ساتھ آن لائن تدریسی سرگرمیاں شروع ہوئیں ، طلبہ و اساتذہ دونوں نے اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کیا تاآنکہ جب ملک میں لاک ڈاون ختم ہوا تو طلبہ کو جامعہ میں بلوالیا گیااور باقی ماندہ نصاب کی تکمیل ہوئی اور سالانہ امتحانات بھی ہوئے۔ اس ادارے کے بعض طلبہ نے اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے بتلایا کہ ہمارا کوئی سبق خواہ آن لائن کا ہو آف لائن کا ناغہ نہیں ہوا۔
مذکورہ تجربے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لاک ڈاؤن میں بھی طلبہ کی تعلیمی سرگرمیاں جاری رہیں ، انہوں نے تعلیم کے علاوہ تعلیم کے منافی کوئی دوسرا رخ نہیں اپنایا، اساتذہ بھی مشغول رہے اور ذمہ داران مدرسہ کو تنخواہ دینے میں کوئی بار محسوس نہیں ہوا۔ ایک طر ف یہ کامیاب تجربہ ہے اور دوسری طرف اب بھی مدارس و جامعات کے مابین یہ موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ طلباء مدارس کی تعلیم وتعلم کو اسکولز اور کالجز کے طور پر آن لائن شروع کیا جائے یا نہیں؟
اس بارے میں موافق ومخالف متعدداور مختلف رائیں آرہی ہیں۔ بعضوں کا کہنا ہے کہ چونکہ علم سینہ بسینہ منتقل ہوتاہے اس لئے استاذ اور طالب علم دونوں کا باہم قریب ہونا ضروری ہے جیساکہ مروجہ درسگاہوں میں ہو تاہے ورنہ افادیت غیر ممکن ہے۔ بعضوں کا کہنا ہے کہ گوکہ استاذ اور طالب علم دونوں کا آمنے سامنے ہونا ضروری ہے مگر بایں طور نہیں کہ اگر دونوں میں کوئی خلل پیدا ہوجائے تو افادیت قطعاً غیر ممکن ہے ایسا ہرگز نہیں کیونکہ گرد وپیش کے ماحول اور واقعات و حقائق اس کا بالکلیہ انکار کرتے ہیں آج دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اور تمام فاصلے سمٹ چکے ہیں دوریاں سب نزدیکیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ انفارمیشن ٹکنولوجی نے یہ سب کچھ سہل ترین بنادیا ہے اور سبھی لوگ اسکا تجربہ کررہے ہیں۔
عملی طور پر دیکھا جائے توآج کے اس صنعتی معاشی انقلاب کی وجہ سے کئی جگہ افراد خانہ بھی عموماً یکجا نہیں ہوپاتے لیکن آن لائن نظام کی وجہ سے ان تمام کے مابین یک گونہ ارتباط وتعلق رہتا ہے، اور بسا اوقات گروپس کی شکل میں یہ اجتماعی طور پر اکھٹے ہوکر اس طرح لطف اندوز ہوتے ہیں جیسے کسی تقریب کے موقع پر حقیقی معنوں میں اکھٹے ہوکر باہمی تبادلہ خیالات کرتے ہیں۔ یا آجکل جس طرح سے سیاسی اور سماجی ورچول میٹنگیں ہورہی ہیں، علمی اجتماعات اور ویبینار ہورہے ہیں؛ فاصلے ان چیزوں کے انعقاد میں ذرہ برابر بھی حائل نہیں ہوتے ۔ اس آن لائن نظام سے عصری تعلیم گاہوں میں خوب استفادہ کیا جارہا ہے، درسگاہیں بند ہیں مگر ہر گھر اسکول میں تبدیل ہوچکا ہے، اس کی وجہ سے بہت سارے گھروں میں یہ گمان بھی نہیں ہوتا کہ بچوں کے اسکول بند ہیں۔ یہ اقدام اس وجہ سے قابل تعریف ہیں کہ اگر بچوں کو طویل وقفہ تک تدریسی سرگرمیوں سے علیحدہ رکھا جاتا تو پھر ایسی سرگرمیوں میں اپنے آپ کو مشغول کرلیتے کہ وہ اپنے لئے تو خطرہ مول لیتے ہی ، گارجین اور اس سے بڑھ کر سماج کیلئے بڑا مفسدہ ثابت ہوتے۔
بعضوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ مدارس میں طلبہ کے قیام کے دوران انہیں موبائل کے استعمال سے باز رہنے کیلئے بہترے قوانین و ضوابط کا پابند بنایا جاتا ہے، لہذا اب اگر آن لائن تعلیمی سلسلہ کا آغاز کیا جائے گا تو جن مقاصد کی وجہ سے ہم نے انہیں روکنے کی کوشش کرتے تھے وہ سارے مقاصد دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ ان حضرات کے خدشات بھی کسی حد تک صحیح ہیں تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ اگر انہیں گھروں میں بغیر کسی مشغولیت کے رکھا جائے تو جہاں ان کے فکر و خیال اور عقیدہ و اعمال میں گمراہیاں درآنے کے خدشات ہیں وہیں بے محابا موبائل کے غلط استعال اور اس کے متنوع نقصانات سے متاثر ہونے کے بھی قوی امکانات ہیں کیونکہ آج ہرگھر میں موبائل ہے اور بچے آزاد ہیں جب اور جس طرح چاہیں استعمال کر سکتے ہیں ۔ لیکن اگر انہیں آن لائن تعلیمی سلسلہ سے مربوط کردیا جائے تو پھر دن کے اکثر اوقات اسی میں مصروف رہیں گے اور موبائل کے غلط اور بے جا استعمال سے بہت حد تک باز رہیں گے اور پھر تو یہ اھون البلیتین کے مرادف ہوجائے گا یعنی جب دو مصیبتوں کا چاروناچار سامنا کرناہی ہے تو ان دونوں میں جو کم نقصاندہ ہے اسے ترجیح دی جاتی ہے۔
زیر بحث کلام سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ آن لائن تدریسی سرگرمیاں مذکورہ نقصانات کے خدشات کے پیش نظر نہایت ہی ضروری ہیں۔اس لئے ایسے حالات میں مدارس کو بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے تھا بلکہ الحکمۃ ضالۃ المومن فھو احق بھا
حیث وجدھا کی روشنی میں انفارمیشن ٹکنولوجی اور دیگر جدید ذرائع وسائل سے استفادہ کرنے کے مستحق اولین یہ مدارس ہی تھے ۔ جائز حدود میں رہ کر شریعت نے اسکی اجازت دی ہے فقہاء کرام نے اس کے جائز و ناجائز ہر پہلو کا شرعی جائزہ لینے کیلئے اس پر سیمینار کرکے امت کیلئے بہترین حل پیش کردیاہے۔
مدارس و جامعات کو اس سلسلہ میں اسلئے بھی پہل کرناچاہئے کہ طلبہ مدارس کی ایک بڑی تعداد مفلوک الحال اور افلاس زدہ گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے بلکہ بسا اوقات ناخواندہ ماحول اور علاقوں سے بھی آتے ہیں جو بہاں کندن بن کر نکلتے ہیں، اس لئے اگر وہ ان ایام میں تعلیمی سرگرمیوں سے علیحدہ رہ کر وقت گزاری کریں گے تو صحیح نگرانی اور گارجین کی ناخواندگی کی وجہ سے خطرہ ہے وہ اپنا پلیٹ فارم بدل ڈالیں ۔ کوئی ہو سکتا ہے کہ تعلیم سے ہٹ کر گھریلو پیشوں میں لگ جائے یا پھر اتنے لمبے وقفہ کی وجہ سے متاثر ہوکر اسکول و کالجز کی طرف رخ کرلیں۔ بعض جگہوں میں صورت حال یہ ہے کہ کافی تشکیل کے بعد اساتذہ دور دراز کے گاؤں دیہات سے ایسے چند بچوں کو نکال لاتے ہیں جو ان علاقوں کا نقشہ بدل دیتے ہیں اور اس اندھیارے میں علم کی قندیلیں روشن کرتے ہیں۔ اور اگر بچی کھچی یہ تعداد بھی دوسروں کی نذر ہوجائے تو پھر دین کی بقاء خطرات کے گھیرے میں آجائے گی۔
بریں بناء اب وقت آچکا ہے کہ ارباب مدارس و جامعات اسلامیہ مل بیٹھ کر کوئی مفید لائحہ عمل مرتب کریں اور اس تعلیمی سلسلے کو بحال کریں تاکہ اساتذہ بھی مصروف ہوں انتظامیہ کو تنخواہیں جاری رکھنے میں کسی قسم کا پس و پیش نہ ہو اور نہ ہی عوام الناس اپنے مالی تعاون کو جاری رکھنے میں کسی قسم کے رد و قدح کے شکار ہوں ۔ اس طرح پیغمبر انسانیت کے انسانیت نواز تعلیمات کے گہوارے محفوظ رہیں گے، امن پسندی، حب الوطنی اور انسانیت نوازی کے پیغام رسانی کے سلسلے بھی حسب سابق جاری و ساری رہیں گے۔
(مضمون نگار مرکزالمعارف ،ہوجائی ،آسام میں پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں)