مسلمانوں کے لیے دینی نظامِ تعلیم کی بقا بے حد ضروری

قاری اسجد زبیر
صدر: جامعہ عربیہ شمس العلوم شاہد رہ، دہلی
یہ دوسرا سال چل رہا ہے۔کورونا وائرس سے پوری دنیا دوچار ہے۔ لاک ڈاؤن کے منفی اثرات جہاں عام زندگی پر پڑے ہیں، وہیں دینی تعلیم گاہیں بھی اس سے بے حد متاثر ہوے ہیں۔مدارس کے حالات بے حد خراب ہو گئے ہیں،مالی بحران کے ساتھ ساتھ نظامِ تعلیم بھی درہم برہم ہوگیا ہے۔ اس وقت مدارس بند ہیں۔یہ مجبوری ہے؛مگر کیا تعلیمی سلسلہ کا انقطاع بھی مجبوری ہے؟ کیا اس کا کوئی حل اور متبادل نہیں ہے؟ کیا ہمیں ان باتوں پر غور نہیں کرنا چاہیے؟
کالجز اور یونیورسیٹیوں پر مدارس کو قیاس کرنا بالکل درست نہیں ہے۔وہاں تعلیم کا بنیادی مقصد ڈگری اور نوکری ہے۔ جس کے لیے امتحانات ہو رہے ہیں، یعنی کسی درجے میں وہاں مقصد کا حصول ہو رہا ہے۔
جب کہ دینی تعلیم کا مسئلہ ایسا نہیں ہے۔اس تعلیم کا بنیادی مقصد ایمان و اسلام کا تحفظ ہے۔اسلامی علوم اور اہلِ علم کا وجود ہمارے لیے اسی طرح ضروری ہے جس طرح سانس لینے کے لیے آکسیجن ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ عہدِ رسالت سے آج تک مسلمانوں میں تعلیم و تعلم کا مربوط سلسلہ جاری رہا ہے۔ حالات بد سے بد تر ہوے؛ مگر تعلیمی سلسلہ مسلمانوں میں کبھی منقطع نہیں ہوا۔ چاہے مکی زندگی ہو جہاں دارِ ارقم میں صحابہ کرامؓ چھپ چھپ کر قران سیکھتے سکھاتے تھے، یا مدنی زندگی ہو جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے مسجد کی بنیاد رکھی جو عبادت گاہ بھی تھی اور تعلیم گاہ بھی، بعد میں اسی مسجد میں خاص طور سے دینی تعلیم کے لیے ایک چبوترہ بنایا گیا، جسے صفہ کہا جاتا ہے۔ جس کے معلم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور طلبہ صحابہ کرامؓ تھے۔ جن کی ایک جماعت علوم نبویہ کے حصول و تحفظ کے لیے وقف تھی۔ پھر اسی منبعِ علم و عرفاں سے اہلِ اسلام میں تعلیم و تعلم کا ایک مربوط سلسلہ چل پڑا۔جو آج مدارس و مکاتب کی شکل میں قائم ہے۔یہ تمام تعلیمی سلسلے عملی تفسیر ہیں پہلی وحی “اقرأ” (پڑھو) کی اور اس آیت کریمہ کی جس میں فرمایاگیا ہے کہ: “اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہلِ ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبر دار کرتے تاکہ وہ (غیر اسلامی روش سے) پرہیز کرتے۔ (التوبہ :122)
الغرض مسلم معاشرے کے لیے دینی ادارے رگ جاں کی طرح ہیں۔ان کا تحفظ مسلمانوں کی اولین مذہبی ذمہ داری ہے۔
یاد رکھیں ان اداروں کے تحفظ و بقا کے لیے بہت سی چیزیں ضروری ہیں،جو وسائل و ذرائع کے درجے میں ہیں؛ مگر تعلیم و تعلم کو روح کی حیثیت حاصل ہے، یعنی تعلیمی سلسلہ اگر ختم ہو گیا تو مدارس کا وجود خود بہ خود ختم ہو جائے گا؛کیوں کہ صرف عمارتوں کا نام مدرسہ نہیں ہے۔
اس وقت کورونا اور لاک ڈاؤن نے مدارس کے لیے سخت حالات پیدا کر دئیے ہیں، جن سے نمٹنا پوری ملت اسلامیہ کا فریضہ ہے، ہر فرد اپنے اپنے دائرے میں اس فریضہ کو انجام دے سکتا ہے۔
ناچیز کے علم کے مطابق عوام الناس کا ایک طبقہ کسی نہ کسی درجے میں اپنی ذمہ داری پوری کر رہا ہے۔ہزار تنگیوں اور پریشانیوں کے باوجود ملت کا یہ طبقہ کچھ نہ کچھ دینی اداروں کو مالی وسائل فراہم کر رہا ہے۔مدارس کی اہمیت و افادیت کو سمجھ رہا ہے، ویسے ہر ہر فرد کو دینی تعلیم کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ بہتر تو یہی تھا؛مگر کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ یعنی کسی حد تک عوام مالی فراہمی کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے جو قابلِ قدر ہے۔ یہ تو ہوئی وسائل کی بات۔اگر ہم مدارس کی روح یعنی تعلیم و تعلم کی بات کریں تو ایک سال سے زائد عرصہ گزر گیا مدارس میں تعلیمی سلسلہ منقطع ہے اور اس وقت بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی ہے۔یہ اچھا شگون نہیں ہے۔
خیال رہے کہ دو چیزیں الگ الگ ہیں: (۱) تعلیم گاہ (۲) تعلیم و تعلم۔ لاک ڈاؤن پہلی چیز پر ہے، دوسری پر نہیں۔ حکومت تعلیم گاہوں کو مکمل بند کروا سکتی ہے۔ تعلیمی سلسلہ پر کلی پابندی نہیں لگا سکتی ہے۔ تعلیم گاہوں کو بند رکھنا ہماری مجبوری ہو سکتی ہے؛ مگر تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا ہماری مجبوری نہیں؛ بلکہ ہماری کاہلی،غفلت اور لاپروائی ہے۔ ہمیں دریا سے سبق لینا چاہیے جو راہوں میں حائل پتھروں اور دیگر رکاوٹوں کو ہٹانے کے پیچھے نہیں پڑتا اور نہ ہی رکاوٹوں کے ختم ہونے کا انتظار کرتا ہے؛بلکہ کنارے سے اپنا راستہ نکال لیتا ہے اور آگے چلتا رہتا ہے، پھر جلد ہی وہ رکاوٹ اپنی موت مر کر اسی دریا میں گم ہو جاتا ہے۔ ہمارے لیے عربی کا یہ مقولہ بھی بہت سبق آموز ہے کہ: “ما لا یُدْرَک کلُّہ لا یُتْرَک کلُّہ” یعنی جو چیز سا ری کی ساری نہ مل سکے اس کو مکمل طور پر چھوڑنا بھی نہیں چا ہیئے۔
اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ نہ اب مکمل طور سے کورونا ختم ہوگا اور نہ ہی لاک ڈاؤن سے چھٹکارا مل سکے گا۔
ابھی چند دن قبل کی بات ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم اور استاذِ حدیث مولانا عبد الخالق صاحب مدراسی کے ساتھ ایک ملاقاتی مجلس میں ناچیز بھی موجود تھا۔دورانِ گفتگو حضرت نے فرمایا:
“جس چیز کا ایک مرتبہ دنیا میں وجود ہو جاتا ہے وہ مکمل طور سے کبھی ختم نہیں ہوتا۔ کورونا وائرس ختم نہیں ہوگا۔ہمیں اسی کے ساتھ نظامِ تعلیم پر غور کرنا چاہیے۔ کوئی حل نکالنا چاہیے۔اس سلسلے میں حکومت سے شکوہ فضول ہے۔”۔
اس لیے پہلی فرصت میں ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟ جس سے ملکی قانون لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی بھی نہ ہو اور تعلیمی سلسلہ کسی درجے میں ہی سہی مگر شروع ہو سکے۔
ملک میں علما کی تعداد لاکھوں میں ہے؛ اگر ہر عالم دین مسجدوں میں، اپنے گھروں پر،مدرسہ اور مکتب میں دو دو تین تین طالب علم کو بھی پڑھائے تو طلبہ کی بڑی تعداد علم دین سے جڑ جائے گی، اور جزوی طور پر تعلیمی نظام بہ حال ہو جائے گا۔ ابتدائی دور میں تعلیم کا نظام ایسا ہی تھا۔ ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے، یعنی ہر چیز کی جیسی ابتدا ہوتی ہے اس کی انتہا بھی ویسی ہی ہوتی ہے۔ وقت کی پکار بھی یہی ہے۔عہدِ صحابہ کے نظامِ تعلیم پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔
ایک بہتر صورت یہ بھی ہے کہ ذمہ دارانِ مدارس یہ فریضہ نبھائیں۔ اپنے اپنے اساتذہ کو مامور کریں کہ کورونا کے حوالے سے سرکاری گائیڈ لائن کا لحاظ کرتے ہوے اساتذہ اپنے اپنے گاؤں اور علاقے کے بچوں کو لے کر تعلیم شروع کریں۔مدرسہ کی جانب سے اساتذہ کو مشاہرہ دیا جائے۔ جہاں ذمہ دارانِ مدارس کی جانب سے یہ انتظام نہ ہو سکے وہاں علاقے کے معزز اور سرکردہ افراد یہ ذمہ داری نبھائیں۔ معلم متعین کریں، اور ان کی تنخواہوں کا انتظام کریں۔یہ بھی ممکن ہے کہ ذمہ دارانِ مدارس اور علاقے کے سرکردہ افراد مل کر یہ دینی فریضہ انجام دیں۔ اس طرح کہ ذمہ دارانِ مدارس معلموں کا انتظام کریں اور علاقے کے لوگ اساتذہ کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی ذمہ داری اٹھائیں، جیسا کہ امام و مؤذن کے اخراجات عوام براہِ راست اٹھاتی ہے۔اس طرح علمائے کرام کی معاشی پریشانی بھی کسی حد تک ختم ہو جائے گی اور ملت کا ایک بڑا کام یعنی تعلیمی نظام بھی چلتا رہے گا۔
یہ ناچیز کی ادنی رائے ہے۔جس میں خامیاں ہو سکتی ہیں۔ راقم کا مقصد صرف غور و فکر کی دعوت دینا ہے۔؛چنانچہ قوم و ملت کا درد اور دینی فکر رکھنے والے قائدین اور اکابرین سے خواہ وہ علمِ دین میں مہارت رکھنے والے علمائے کرام اور مفتیان عظام ہوں یا عصری علوم کے واقف کار وکلا، شعرا، ڈاکٹرز ہوں تمام اہلِ علم و دانش سے احقر نہایت ادب و احترام کے ساتھ عاجزانہ درخواست کرتا ہے‌کہ موجودہ حالات میں دینی تعلیمی نظام بحال کرنے کی طرف خصوصی توجہ دیجئے، اور باہمی مشورہ سے کوئی لائحہ عمل تیار کیجئے۔خدا نہ کرے اگر حالات اور زیادہ خراب ہو گئے اور جو کچھ بھی مواقع اور اختیارات آج ہیں وہ بھی ہاتھ سے نکل گئے توانجام بہت بھیانک ہوں گے۔ پھر یہی کہا جائے گا کہ: “اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت”۔
یاد رکھیں اگر توجہ نہیں دی گئی اور علمائے کرام اپنی انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے دنیا کے کاموں میں لگ گئے تو پھر ان کا دینی تعلیم کی طرف آنا کئی وجہوں سے نہایت مشکل ہوگا، اور ملتِ اسلامیہ ذی استعداد،کم تنخواہوں پر بے لوث دینی خدمات انجام دینے والی جماعت سے محروم ہو جائے گی۔اور پھر برسوں میں ایسی جماعت ملت کو نہیں مل سکے گی۔
آخر میں پھر عرض کروں گا کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے دینی تعلیمی نظام کی بقا بے حد ضروری ہے۔چاہے مدارس و مکاتب کی شکل میں ہو یا کسی اور نظام کے تحت ہو۔خدارا کچھ کیجیے۔