ریکارڈ توڑ مہنگائی اور نفرت عوام کے لئے مصیبت 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی 
بہت ہوئی مہنگائی کی مار اب کی بار ….، یہ دعویٰ دوسرے وعدوں کی طرح عوام کو اپنی غلطی کا احساس دلا رہا ہے۔ ڈیزل پیٹرول سے، کھانے کے تیل دالوں سے اور سبزیاں آلو پیاز پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ مہنگائی کی دوڑ میں ڈیزل پیٹرول سے ایک مرتبہ آگے نکل چکا ہے۔ اس وقت ملک کے کئی حصوں میں پیٹرول 100 کے پار ہے تو ڈیزل 90 روپے سے اوپر پہنچ چکا ہے۔ رسوئی گیس کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔ رسوئی گیس کا جو سلنڈر دسمبر 2013 میں 414 روپے کا تھا ،وہ اب دہلی میں 809 روپے میں مل رہا ہے۔ پیٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں پانچ ریاستوں کے انتخابات کے دوران دو ماہ سے زیادہ وقت تک کوئی اضافہ نہیں ہوا لیکن 4 مئی سے 20 جون 2021 تک پیٹرولیم مصنوعات میں 27 مرتبہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے نتیجہ میں پیٹرول کی قیمت 6.82 اور ڈیزل 7.24 روپے بڑھی ہے۔ مئی میں تھوک مہنگائی 12.94 اور خودرا مہنگائی 6.30 تک چلی گئی۔ جو پچھلے چھ ماہ میں سب سے زیادہ ہے۔ ریزرو بنک کے ہدف 2 – 6 سے مہنگائی زیادہ ہونے کی وجہ سے اس پر شرح سود میں اضافہ کا دباؤ بڑھے گا۔ لیکن کورونا بحران میں مانگ گھٹنے اور جی ڈی پی کمزور ہونے کے سبب وہ شرح سود میں اضافہ نہیں کر سکتا۔
دوسری طرف کورونا بحران کم ہونے کے ساتھ چین، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اقتصادی سرگرمیاں تیز ہو رہی ہیں۔ جس سے کچے تیل اور دوسری کموڈٹی کی قیمت میں اضافہ ہوگا ۔یعنی ریزرو بنک کو جی ڈی پی اور مہنگائی میں توازن بنانا آسان نہیں ہوگا۔ قیمت بڑھنے سے کموڈٹی کی صنعتوں پر برا اثر پڑے گا۔ کچا مال مہنگا ہونے سے مینوفیکچرنگ مصنوعات اور مہنگی ہو جائیں گی۔ کمپنیاں کچے مال کی بڑھی ہوئی قیمتوں کا بوجھ گاہکوں پر ڈال دیتی ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاءجس میں کھانے کا تیل دالوں کے ساتھ پیٹرولیم مصنوعات اور رسوئی گیس کے مہنگے ہونے کا اثر سب سے زیادہ غریبوں پر پڑ رہا ہے۔ لوکل سرکل نام کے کمیونٹی پلیٹ فارم کے ذریعہ کرائے گئے سروے کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کی وجہ سے قریب 51 فیصد لوگوں کو اپنے اخراجات میں کٹوتی کرنی پڑ رہی ہے۔ جبکہ 21 فیصد لوگوں کو اپنی بنیادی ضرورتوں پرقینچی چلانی پڑی ہے، وہیں 14 فیصد اپنی بچت کو استعمال کرنے کے لئے مجبور ہیں۔
حکومت چاہے تو وہ اس ریکارڈ توڑ مہنگائی سے عوام کو راحت دے سکتی ہے۔ کیوں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مرکزی و ریاستی ٹیکس کا بڑا حصہ شامل ہے۔ موٹے اندازے کے مطابق حکومت پیٹرول پر 61 فیصد اور ڈیزل پر 54 فیصد ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ پچھلے سال مارچ سے لے کر مئی کے بیچ مرکزی حکومت نے پیٹرول پر ایکسائز ڈیوٹی میں 13 روپے فی لیٹر یعنی 65.7 فیصد اور ڈیزل پر 16 روپے یعنی 101 فیصد کا اضافہ کیا ہے۔ اس لئے بین الاقوامی بازار میں کچے تیل کی قیمت میں بھاری گراوٹ کے بعد بھی اس کا فائدہ بھارت کے گاہکوں کو نہیں ملا۔ جبکہ ٹیکس میں غیر معمولی اضافہ کا چھپر پھاڑ فائدہ مرکزی و ریاستی سرکاروں کو مل رہا ہے۔ حکومت اور پیٹرولیم کمپنیوں کی ملی بھگت کی وجہ سے ہی پیٹرولیم مصنوعات کو جی ایس ٹی کے دائرہ سے باہر رکھا گیا ہے۔ تیل کے کھیل کو 2013 میں پیٹرول کی قیمت سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس وقت بین الاقوامی بازار میں کچے تیل کی اوسط قیمت 101 ڈالر فی بیرل تھی۔ تو دہلی میں پیٹرول 63 روپے فی لیٹر بک رہا تھا۔ آج جب کچے تیل کی قیمت 2013 سے لگ بھگ 30 ڈالر فی بیرل یعنی 42 فیصد کم ہے تو دہلی میں پیٹرول کی قیمت 53 فیصد زیادہ یعنی 96.12 پیسے ہو گئی ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھی قیمت عام آدمی کی کمر توڑ رہی ہے۔ لیکن مرکزی کابینہ وزیر بے شرمی کے ساتھ قیمتوں میں اضافہ کی مضحکہ خیز دلیلیں دے رہے ہیں۔مثلاً وزیر زراعت نریندر تومر نے کہا کہ حکومت نے سرسوں کے تیل میں ملاوٹ پر پابندی لگا دی ہے، اس لئے کھانے کا تیل مہنگا ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا گزشتہ سات سال تک ملک کے عوام ملاوٹی تیل کھا رہے تھے؟ حکومت کو اس سچائی تک پہنچنے میں اتنا وقت کیوں لگا۔ اسی طرح وزیر پیٹرولیم دھرمیندر پردھان نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سرکار کی جانب سے چلائی جا رہی عوامی فلاح کی اسکیموں اور مفت کورونا ویکسینیشن کےلئے پیسے بچانا بتایا۔ سوال یہ ہے کہ کورونا سے نبٹنے کےلئے جو پیسہ پی ایم کئیر فنڈ میں جمع ہوا تھا اس کا کیا ہوا۔ مسٹر پردھان2017 سے ہی پیٹرول ڈیزل کے مہنگا ہونے پر اسی طرح کی منطق بگھارتے رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ حکومت ہائی وے بنا رہی ہے، سوچھتا مہم چلا رہی ہے، اس لئے قیمت بڑھ رہی ہے۔ اب مفت راشن، کورونا ویکسین اور کسان سمان ندھی کو قیمت بڑھنے کی وجہ بتایا ہے۔ پی ایم کسان سمان یوجنا کے تحت دو ہزار روپے دینے کےلئے کسانوں کی جیب سے ہی حکومت نہ جانے کتنے ہزار کروڑ روپے نکال رہی ہے۔ ڈیزل کا 13 فیصد حصہ زراعت اور 38 فیصد کمرشیل گاڑیوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ڈیزل مہنگا ہونے سے کھیتی کی لاگت بڑھ جاتی ہے ۔ جس کے لئے کسانوں کو قرض لینا پڑتا ہے دوسری طرف ٹرانسپورٹ اور سفر مہنگا ہو جاتا ہے ۔ اس وجہ سے بھی مہنگائی بڑھی ہے ۔ حال ہی میں ریزروبنک نے مرکزی و ریاستی حکومتوں کو ٹیکس کم کرنے کےلئے کہا ہے۔ وزیر پیٹرولیم مرکز کی بات نہیں کرتے لیکن اپوزیشن کی ریاستی سرکاروں پر وہ تنقید کرنا نہیں بھولتے۔
دراصل برسراقتدار جماعت اور حکومت کو نہ عوام کی فکر ہے نہ ان سے سروکار۔ اس کا پورا دھیان الیکشن لڑنے اور جیتنے پر رہتا ہے۔ اس وقت بھی آنے والے انتخابات کےلئے ہر ہفتہ میٹنگ ہو رہی۔ الیکشن کی منصوبہ سازی کی جا رہی ہے اور ایجنڈہ طے ہو رہا ہے۔ اس طرح کی فکر مندی حکومت نے کورونا کے دوران نہیں دکھائی۔ نہ عوام کو راحت پہنچانے کےلئے کوئی میٹنگ کی گئی۔ کمبھ اور پھر مدھیہ پردیش میں ہوئے فرضی کورونا ٹیسٹ پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ مگر الیکشن جیتنے کےلئے سماج کو بانٹنے کےلئے نفرت کا ایجنڈہ سیٹ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر اترپردیش کو اس کی تجربہ گاہ بنانے کی تیاری ہے۔ بارہ بنکی میں سو سال پرانی مسجد کو شہید کیا جانا، 17 سال کے سبزی فروش فیصل کو کورونا کرفیو پر عمل کرانے کے نام پر پولس کے ذریعہ قتل کر دینا، علیگڑھ کے قریب ایک گاؤں میں دلتوں کی بارات کو مسجد کے سامنے سے خاموشی سے گزرنے کو کہنے پر اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرنا، 72 سالہ بزرگ عبدالصمد سیفی کو پیٹنا، ان سے جے سری رام کے نعرے لگوانا اور داڑھی کاٹ دینا، ہریانہ میں آصف پر فحش فوٹو بنانے کا الزام لگا کر قتل کر دینا، کرنی سینا کے سورج پال امو کے ذریعہ پنچایت میں بھڑکاؤ تقریر کرنا اور بی جے پی کے ذریعہ اسے اپنا ترجمان بنا دینا وغیرہ اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔ اس سے قبل سابق مرکزی وزیر جینت سنہا بھی ہجومی تشدد کے ملزمان کی ملائیں پہنا کر عزت افزائی کر چکے ہیں۔ مغربی بنگال کا الیکشن بھی ہندو، مسلم، دلت کی بنیاد پر لڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔ 2014 کے بعد سے اب تک اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
اب عمر گوتم اور مفتی جہاں گیر کو مذہبِ تبدیل کرانے کے نام پر یوپی اے ٹی ایس نے گرفتار کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس طرح کی یوپی سے اور بھی خبریں آسکتی ہیں۔ ماہرین کووڈ کی تیسری لہر کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں لیکن بی جے پی اپنے حق میں انتخابی ماحول بنانے کی کوشش میں لگی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندوؤں کو تصوراتی ڈر میں پھنسا کر بھاجپا اپنی انتخابی نیّا پار لگانا چاہتی ہے۔ نفرت اور مذہبی عصبیت کا نشہ ہی عوام کو مصیبت اور فرقہ پرستی کے سمندر میں ڈوبو رہا ہے اور بنیادی مسائل کو پیچھے دھکیل رہا ہے۔ اس سے بچنے کا واحد راستہ مل کر اپنے مسائل کو حل کرانے کےلئے حکومت پر دباؤ بنانا ہے۔ اپنے نمائندوں اور حکومت سے سوال پوچھنا ہوگا کہ ہم نے اپنے معیار زندگی کو بہتر بنانے کےلئے ووٹ کیا تھا آپ نے ہمارے لئے کیا کیا۔ روزگار، صحت، تعلیم، قانون کے راج اور سماجی تحفظ کا کیا ہوا۔ اگر سوالات کا یہ سلسلہ شروع ہو گیا تو ممکن ہے حالات بدلیں، سماج میں پنپ رہی نفرت، عوام کی مصیبت کم ہو اور وسائل کی تقسیم میں شاید کچھ حصہ مل جائے۔