محمد شمیم اختر ندوی
(مہتمم جامعہ الابرار وسئ ایسٹ ممبئی)
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں پوری دنیا کے اندر بہت ساری تنظیمیں اور تحریکیں اٹھیں اور اپنے اپنے حلقہ اثر میں بعضے بہت کامیابی سے ہم کنار ہوئیں تو بعضے ناکامی سے دوچار ۔
انہیں چند کامیاب تنظیموں میں ہندوستان کی سرزمین پر پہلی بار خالص علماء کی ایک تنظیم ندوۃ العلماء کے نام سے اپنے دور کےانتہائی مقبول و معروف ادارہ مدرسہ فیض عام کانپور کے سالانہ جلسہ دستار بندی کے موقع پر پیر طریقت حضرت مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی کے خلیفہ اجل حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں 1892ء میں عالم وجود میں آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنے اہداف و مقاصد کی وجہ سے عامہ المسلمین کی توجہ کا مرکز بن گئی ، چونکہ ندوہ العلماء کے قیام کا مقصد مسلمانوں کی مختلف جماعتوں حنفی، اہل حدیث، اہل خانقاہ اور اثنا عشری اور عصری تعلیم یافتہ جماعت وغیرہ کے درمیان بڑھتی دوری اور خلیج کو پاٹنے کے ساتھ ساتھ مدارس میں رائج نصاب تعلیم کو زمانہ حال سے ہم آہنگ کرنا بھی تھا اس لئے بڑی تیزی کے ساتھ بلااختلاف مسلک و مشرب پورے ملک میں ندوہ العلماء کی پذیرائی ہونے لگی اور سال بہ سال ملک کے مختلف شہروں میں پابندی سے اس کے اجلاس ہونے لگے اور الحمدللہ مسلکی و گروہی عصبیت سے اوپر اٹھ کر ہرجماعت کے نمائندے اس کے کاز کو آگے بڑھانے لگے یہاں تک کہ ندوہ العلماء کے زیر اہتمام لکھنؤ کی سرزمین ایک بڑے دارالعلوم کا قیام بھی اس غرض سے عمل میں آیا کہ ایسے علماء کی ٹیم تیار کی جاسکے جو قدیم صالح اور جدید نافع سے جہاں ایک طرف لیس ہوں وہیں دوسری طرف بنیادی عقائد میں تصلب کے ساتھ فروعی مسائل میں توسع رکھتے ہوں تاکہ مختلف مسالک و جماعت کو ایک ساتھ لیکر چل سکیں اور ملک میں مسلمانوں کے درمیان ایک خوشگوار ربط قائم کا کرنے ذریعہ بنیں۔
ندوہ العلماء کے بیسویں اجلاس میں جوکہ سن 1910ء دہلی میں منعقد ہوا تھا علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ علیہ نے بوہرہ جماعت کے پیشوا کی مثال پیش کرتے ہوئے یہ تجویز پیش کی کہ ملک گیر سطح پر مسلمانوں کا ایک امام الہند منتخب کیا جانا چاہیے تاکہ مختلف فیہ مسائل کے علاوہ دیگر امور میں عامہ المسلمین ایک امام کی اتباع کا شاندار عملی مظاہرہ پیش کرسکے اور اس طرح مسلمانوں کی ترقی کی راہیں بھی ہموار ہوجائے۔
اس اجلاس کے بعد علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ علیہ بہت دنوں تک بقید حیات نہ رہ سکے اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے اور یوں علامہ شبلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا البتہ علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ علیہ کے ہونہار شاگرد مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ علیہ نے اسی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی جستجو میں سن 1913ء میں انجمن علماء بنگال کی داغ بیل ڈالی جس کے پہلے صدر چٹگام موجودہ بنگلہ دیش کے مولانا منیر الزماں منتخب کئے گئے اور اس طرح صوبہ بنگال کی سطح پر (جس میں اس وقت بنگلہ دیش، بہار اور اڈیشہ وغیرہ بھی آتا تھا) عامہ المسلمین کو جوڑنے کی کوشش کی گئ،بہار کو اگرچہ بنگال سے علیحدہ کرکے ایک الگ صوبہ بنانے کا حکومتی اعلان ہوچکا تھا لیکن عملا بہار بنگال میں ہی تھا،سوئے اتفاق انہیں ایام میں مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ علیہ کے اخبار الہلال پر پابندی لگا دی گئی اور ہرجانہ کے علاوہ ان کی جلاوطنی کا بھی فیصلہ سنا دیا گیا، مولانا آزاد کے مداح و بہی خواہ جناب سید عباس صاحب (ضلع گیا بہار) کے ذریعہ ہرجانہ کی رقم ادا کی گئی اور مولانا آزاد جلا وطنی کیلئے کلکتہ سے بہار کے رانچی شہر تشریف لے آئے۔
انہیں دنوں بہار کے مایہ ناز، عالی و روشن دماغ سپوت حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد بہاری رحمۃ اللہ علیہ جوکہ مدرسہ سبحانیہ الہ باد میں مدرس ہوا کرتے تھے مسلسل طبیعت کی علالت کی وجہ اپنے وطن گیا بہار لوٹ آئے تھے اور اپنے وطن بہار میں ہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے چنانچہ سید عباس صاحب ان کو ساتھ لیکر مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات کرنے رانچی گئے اور پھر ان دو عالی دماغ کی ملاقات کے بعد ہندوستان کی سرزمین پر ایک نئ تاریخ کا وہ روشن باب شروع ہوا جس کی نظیر مشکل سے مل پائے گی۔ سب سے پہلے مولانا ابو المحاسن محمد سجاد بہاری رحمۃ اللہ علیہ نے 1917ء میں بنگال کے طرز پر انجمن علماء بہار کی داغ بیل ڈالی اور پھر اس کے جلسوں میں مسلمانوں کے مختلف پیش آمدہ مسائل پر غور خوض کرنے اور ان کے حل کی تلاش میں لگ لگے، انجمن علماء بہار کی افادیت کو دیکھتے ہوئے انہیں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ملک گیر سطح پر علماء کی جماعت تشکیل دی جائے تاکہ اس کا فائدہ ملکی سطح عام و تام ہو،چنانچہ اس غرض سے انہوں نے ہندوستان کے مختلف مسلک کے بڑے بڑے علماء سے نہ صرف رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی بلکہ بریلوی مسلک کے مولانا عبد الباری فرنگی محلی لکھنؤ ، اہل حدیث مسلک کے مولانا ثناء اللہ امرتسری ، دیوبندی مسلک کے مفتی کفایت اللہ دہلوی اور دیگر حضرات سے بذریعہ خطوط اور بالمشافہ ملاقات کرنے کا سلسلہ جاری فرمایا اور بالآخر حضرت مولانا ابو المحاسن رحمۃ اللہ علیہ کی کوشش رنگ لائی اور سن 1919ء جمعیہ علماء ہند کا قیام عمل میں آیا اور انجمن علماء بہار کو اس کی ذیلی تنظیم جمعیہ علماء بہار کے نام سے موسوم کردیا گیا چونکہ آپ ہی جمعیہ علماء ہند محرک تھے اس لئے آپ کو ہی باتفاق رائے ناظم اول (جنرل سیکرٹری) اور مفتی کفایت اللہ دہلوی کو صدر منتخب کیا گیا، یہ الگ بات ہے کہ تعصب کا عینک لگائے بیٹھے لوگ بحیثیت بانی ان کا نام لینا تک گوارہ نہیں کرتے اور بانیان میں ان لوگوں کا نام گنواتے ہیں جو جمعیہ علماء ہند کے قیام کے وقت مالٹا کی سرزمین پر سخت اذیت میں اسیری کی زندگی گزار رہے تھے۔
جمعیہ علماء ہند کے قیام کے اگلے سال جب سن 1920ء میں حضرت شیخ الہند کی رہائی اور ہندوستان واپسی ہوئی تو ابو المحاسن حضرت مولانا محمد سجاد بہاری رحمۃ اللہ علیہ کو علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ علیہ کی وہ فکر انگیز تجویز بروئے کار لانے کی فکر لاحق ہوئی جو انہوں نے ندوہ العلماء کے اجلاس میں 1910ء پیش کی تھی کہ کل ہند سطح پر مسلمانوں کے اتحاد و ارتباط، غیر مختلف فیہ مسائل میں شرعی رہنمائی اور ان کے روشن مستقبل کیلئے بوہرہ جماعت کے پیشوا کے طرز پر ایک امام الہند منتخب کیا جانا چاہیے، اس تعلق سے آپ کی فکر مندی کا اثر دیکھئے کہ آپ نے انہی ایام میں دہلی میں منعقد ہونے والے جمعیہ علماء ہند کے اجلاس کے موقع پر شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کو اس تجویز پر عملی اقدام کرنے کیلئے آمادہ بھی کرلیا لیکن علالت کی وجہ سے شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ذات کو اس عہدے سے دور رکھتے ہوئے خواہش ظاہر کی کہ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ علیہ کی شخصیت زیادہ موزوں ہے انہیں کے حق میں رائے ہموار کی جائے اور جب رائے ہموار ہو جائے تو میری کھاٹ اٹھاکر لے جائیں تاکہ میں سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بیعت کرسکوں لیکن مولانا آزاد کے نام پر مسلم لیگ کی مخالفت کے ڈر سے امام الہند کے انتخاب کی تجویز ٹال دی گئی اور طے یہ پایا کہ پہلے صوبائی سطح پر امارت شرعیہ قائم کرکے امیر شریعت منتخب کرلیا جائے اس کے بعد کل ہند سطح پر امام الہند منتخب کرلیا جائے گا۔ چنانچہ اگلے سال 1921ء میں پٹنہ کی پتھر والی مسجد کے محلہ میں جمعیہ العلماء کے اجلاس کے موقع پر حضرت مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ علیہ کی صدارت میں امارت شرعیہ بہار کا قیام عمل میں آیا اور حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ (خانقاہ مجیبیہ) کو حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کی ایماء و تحریک پر امیر شریعت اول منتخب کیا گیا،اس کے بعد سن 1923ء میں صوبہ پنجاب میں حضرت مولانا سید انور شاہ کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی صدارت میں امارت شرعیہ پنجاب قائم ہوئی اور حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری امیر شریعت منتخب کئے گئے لیکن اس کے بعد آزادی ہند کے مطالبہ کی شدت اور اس کی تحریک کے زور پکڑنے کی وجہ سارے اکابر اسی میدان میں لگ گئے اور اس طرح الحمدللہ ملک تو انگریزوں کے ناپاک شکنجہ سے آزاد ہوگیا مگر افسوس کہ ملک کے دیگر صوبوں میں امارت شرعیہ کے قیام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا اور نہ ہی امام الہند کے انتخاب کا مسئلہ، بعد کے دور میں علماء کے درمیان یہ اختلاف بھی رونما ہوگیا کہ امام الہند کو جب قوتِ نافذہ نہیں ہوگی تو پھر انتخاب کا مطلب ہی کیا ۔ حالانکہ اس کا جواب بھی دیا گیا کہ اصل قوت نافذہ ایمان کی قوت ہے نہ کہ قوت قاہرہ، بہرحال ان سب اسباب و عوامل کی وجہ سے علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ علیہ کے خواب کو مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ علیہ اور مولانا ابو المحاسن محمد سجاد بہاری رحمۃ اللہ علیہ جیسے عالی دماغ بھی ملک گیر سطح پر شرمندۂ تعبیر نہ کرسکے۔