ابوعفیفہ مفتی شفیع احمد قاسمی
(خادم التدريس جامعہ ابن عباس احمد آباد گجرات)
قربانی ایک مہتم بالشان عبادت ہے، سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر نبی آخر الزماں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تک چلی آرہی ہے، ہر مذہب و ملت میں اس عظیم عبادت پر عمل رہا ہے، چنانچہ رب کائنات کا ارشاد ہے
ولکل امۃ جعلنا منسکا لیذکروا اسم اللہ علی ما رزقھم من بہیمۃ الانعام ،
اور ہر امت کیلئے ہم نے قربانی مقرر کی تاکہ وہ چوپایوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کیا ہے،
قربانی کا عمل اگرچہ ہر مذہب میں رہا ہے، لیکن سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بحکم الٰہی اپنے معصوم لختِ جگر کو راہِ حق میں اس درد و خلوص سے قربان و جان نثار کیا، کہ اس قربانی کی نسبت ان کی طرف کردی گئی اور اسے سنت ابراہیمی کہا جانے لگا۔
شارح مشکوۃ ملا علی قاری نے حضرت زین العرب کے حوالہ سے عجیب بات نقل کی ہے جس سے قربانی کی عظمت ووقعت نمایاں ہوتی ہے۔
قال زین العرب : یعنی افضل العبادات یوم العید اراقۃ دم القربان، وانہ یأتی یوم القیامۃ کما کان فی الدنیا من غیر نقصان شئی منہ، لیکون بکل عضو منہ اجر ویصیر مرکبہ علی الصراط وکل یوم مختص بعبادۃ، ویوم النحر بعبادۃ فعلھا إبراهيم علیہ السلام من التضحیۃ والتکبیر، ولوکان شئی افضل من ذبح الغنم فی فداء الانسان لما فدی إسماعيل علیہ السلام بذبح الغنم،
مرقات المفاتيح /ج ٣ ص /٥٧٤
حضرت زین العرب فرماتے ہیں : عید الاضحٰی کے دن افضل عبادت قربانی کے جانور کا خون بہانا ہے، اور یہ جانور اپنے پورے وجود کے ساتھ قیامت کے دن حاضر ہوگا، اور اس کا کوئی عضو کم نہ ہوگا، جیسا کہ دنیا میں وہ اپنے مکمل اعضاء کے ساتھ تھا، تاکہ اس کے ہر عضو کے بدلہ اجر وثواب ہو، اور وہ پلصراط پر اس کی سواری بن جائے اور ہر دن کسی عبادت کے ساتھ مختص ہے، اور قربانی کا دن بھی ایک عبادت کے ساتھ خاص ہے جس کو سیدنا خلیل اللہ نے انجام دیا ہے، یعنی قربانی کرنا اور تکبیر کہنا، اور اگر انسان کے فدیے میں جانوروں کی قربانی سے کوئی چیز زیادہ فضیلت والی ہوتی، تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کا فدیہ ذبح غنم سے نہ ادا کیا جاتا۔
اس عظیم قربانی کی سب سے بڑی فضیلت آقائے نامدار جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک فرمان میں موجود ہے۔
عن زید بن ارقم، رضی اللہ عنہ قال قال اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،یا رسول اللہ ما ھذہ الاضاحی قال سنۃ ابیکم إبراهيم قالوا فما لنا فیھا یا رسول اللہ، قال بکل شعرۃ حسنۃ قالوا : فالصوف یا رسول اللہ؟ قال :بکل شعرۃ من الصوف حسنۃ ، رواہ احمد وابن ماجہ،
مرقات المفاتيح ج /٣ص/ ٥٧٨- ٥٧٧
ایک موقعہ پر محبوب کبریا سے اصحاب رسول اللہ نے دریافت کیا
اے اللہ کے رسول! یہ قربانی کیا چیز ہے؟
سرکار دوعالم نے ارشاد فرمایا، تمہارے باپ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، پھر صحابہ کرام نے استفسار کیا، اے اللہ کے پاک رسول! اس میں ہمارے لئے کیا ہے؟
آپ نے جوابا ارشاد فرمایا، اس کے ہر بال کے بدلہ ایک نیکی ہے، انھوں نے عرض کیا، بھیڑ اور دنبے میں ہمارے لئے کیا ثواب ہے.؟
آپ نے ارشاد فرمایا :اون کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔
حدیث شریف کے اس ٹکڑے ،،سنۃ ابیکم إبراهيم ،، میں دو باتیں قابل لحاظ ہیں، اول سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو باپ کہا گیا، وہ اسلئے کہ ہمارے ممدوح نبی آخر الزماں کو ان سے نسبا تعلق ہے اور آپ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور شریعۃ بھی تعلق ہے اسلئے کہ بہت سی چیزوں میں ہماری شریعت ملت ابراہیمی سے ہم آہنگ ہے ، اور اس میں شبہ نہیں کہ ہر نبی اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے، اس طرح بالواسطہ حضرت خلیل اللہ امت محمدیہ کے باپ ہیں۔
اسلوب ترغیب
اس موقع پر بدون ابیکم کے سنۃ إبراهيم بھی کہا جا سکتا تھا، لیکن نبی الانبیاء محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ،، ابیکم،، کا اضافہ فرمایا ، اس سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ تو تمہارے آباء اجداد کا طریقہ رہا ہے یہ کوئی باہر کی چیز نہیں ہے، اور اس میں شبہ نہیں کہ انسان فطری طور پر اپنے آباء اجداد کی رسوم ورواج پر پوری پابندی کے ساتھ عمل کرتا ہے، بلکہ آسانی سے اسے چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے، دیکھئے کفار مکہ کس قدر مضبوطی کے ساتھ اپنے آبائی رسوم پر گامزن تھے، کہ حق کے واضح ہو چکنے کے بعد بھی وہ اپنے آبائی دین سے دست کش نہ ہو سکے،
اثبات فضیلت
اس امر میں غور کرنا چاہیے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت کیا ہے، امت مسلمہ کا شاید کوئی ایسا فرد ہو ، جو اس سے ناواقف ہو کہ ان کی سنت ذبح ولد ہے، اسی وجہ سے اس قربانی کو سنت ابراہیمی کے ساتھ موسوم کیا جاتا ہے، اور دوسری قابل غور بات یہ ہے، کہ انہوں نے فعل ذبح پر پختہ عزم کرلیا تھا بلکہ اس معصوم کلی کو ذبح کرنے کی پوری کوشش کی اور ان کے گلے پر چھری تک چلائی، تاہم ذبح کا اثر مرتب نہ ہوا، اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کا گلا نہ کاٹا جا سکا، اسلئے کہ خلیل اللہ کو حکم تھا،( اذبح) ذبح کرڈالو، لیکن مسبب الاسباب کی طرف سے چھری کو کچھ اور ہی حکم تھا، کہ خبردار تمہیں اسماعیل کے گلا کاٹنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے، گویا چھری بزبانِ حال کہہ رہی تھی، کہ ابراہیم پروردگار کا حکم جس قدر آپ کیلئے قابل احترام اور لائقِ تعظیم ہے یقین جانیں، میرے پیدا کرنے والے کا فرمان میرے لئے بھی اتنا ہی موجب اعزاز ہے۔
بس آپ کو جو حکم ملا اس کی بجاآوری کریں اور مجھے جس حکم کا مکلف بنایا گیا ہے میں اس کی تعمیل کرتی ہوں، ، لہذا اس مختصر سی تفصیل سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے، کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت ذبح ولد ہے ۔
غور کا مقام یہ ہے کہ آقائے نامدار جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح حیوان کو سنت ابراہیمی قرار دیا ہے حالانکہ سیدنا خلیل اللہ نے اپنے لخت جگر کی قربانی دی تھی، اس کے باوجود آقا مدنی کریم کا یہ فرمان کہ یہ سنت ابراہیمی ہے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ یہ فرمارہے ہیں کہ گو دونوں عمل میں مغائرت سہی تاہم ان دونوں کے اجر وثواب میں اتحاد ویکسانیت ہے، قربانی کی یہ کیسی عظیم فضیلت و شرف ہے، الحمد للہ والمنۃ، کہ ہم ذبح تو جانور کریں، اور اجر وثواب ہمیں اپنی صلبی اولاد قربان کرنے کا دیا جائے، اور اس سے ایک نکتہ اور معلوم ہوا وہ یہ کہ سلاطین و بادشاہوں کے یہاں ہر کسی کو فرق مراتب سے انعامات تقسیم کئے جاتے ہیں، وزراء اور ارکان دولت کو جو انعام دیا جاتا ہے، وہ ادنی ملازموں اور چپراسیوں کو نہیں دیا جاتا۔
ظاہر ہے کہ انبیاء بارگاہ الٰہی کے مقرب ہیں، اور سیدنا خلیل اللہ جماعت انبیاء میں خاص خصوصیت کے حامل ہیں، اسلئے کہ قربانی میں انہوں نے اپنے معصوم لختِ جگر کو نثار کیا ہے، اگر بعینہ ہم بھی اپنی اولاد کو قربان کرتے تو بھی ہم ان کے برابر اجر کے مستحق نہ ہوتے، حالانکہ ہم نے تو جانور ذبح کیا ہے، کسی طرح بھی ثواب وانعام میں ہم ان کے برابر کا استحقاق نہ رکھتے، لیکن قربان جاؤں، اپنے پیدا کرنے کریم مالک پر کہ گویا وہ یہ فرمارہے ہیں
اے میرے محبوب نبی کی امت! تم میری راہ میں اپنی اولاد نہیں بلکہ صرف اخلاص سے جانور قربان کرو، تمہیں اپنی صلبی اولاد ذبح کرنے کے برابر اجر دوں گا، اور اسی پر بس نہیں بلکہ ذبح ولد پر جس قدر انعام واکرام کی بارش میں نے اپنے خاص بندہ پر کی ہے، انعامات کی وہی برسات تمہارے اوپر بھی کی جائے گی۔
کیا کہنے ہیں اس کے الطاف و عنایات کے، اسی لئے کہا گیا ہے کہ
رحمت حق بہانہ می جوید بہا نمی جوید
قربانی کی ایک عجیب فضیلت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اس عبادت سے دنیا میں بھی خوب فیضیاب ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ قربانی کے گوشت کی ایک بوٹی وہ کسی کو نہ دے، تو بھی کوئی حرج نہیں اور اس سے اس کی عبادت کی ادائیگی میں کوئی نقص نہیں آئیگا، انفاق مالی میں کوئی اس شان کی عبادت نہیں ہے، بلکہ تمام انفاقات مالیہ میں جب تک بندہ اپنی ملکیت سے اسے علیحدہ نہیں کرتا، اور صرف نہیں کردیتا، اس وقت تک اسکی ادائیگی ممکن نہیں ہے ، لیکن یہ انفاق مالی دیگر تمام مالی عبادتوں سے ممتاز ہے، سبحان اللہ
اللہ تعالیٰ نے اپنے اس محبوب عمل میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کردیا ہے ۔
مالی عبادتوں میں مال خرچ کرتے وقت انسانی نفس یہ حیلہ بہانہ کر سکتا تھا، کہ مال اپنی ملکیت سے نکل کر کم ہو جائے گا، گرچہ اس کا اخروی نفع ہو، بہرحال اس کا کوئی مادی اور فوری نفع نہیں ہے ، اور اس خیال پر نفس غالب آجاتا ، تو شاید اس جیسی عظیم اور متبرک طاعت سے محرومی و حرمان نصیبی کا شکار ہوجاتا، لیکن مالک کائنات نے اس انفاق مالی کی شان ہی نرالی رکھی، اور نفس کو اتنا بھی حیلہ جوئی کا موقع نہیں دیا، بلکہ اس کی ساری رکاوٹوں کو دور کردیا، اور اسے اس قدر سہل بنادیا کہ بندہ اس میں اپنے مال خرچ کرنے سے دریغ نہ کرے ، گویا خالقِ کائنات اپنی مخلوق سے یوں مخاطب ہے کہ اس انفاق مالی میں ذرا غور کرلو اس کی ساری منفعت تو تمہیں ہی لوٹتی ہے، پھر قربانی میں مال و زر صرف کرنے سے اس قدر جھجک کیوں؟
اس میں تو رضائے الہی کیلئے تمہیں اپنے خزانے کا دہانہ کھول دینا چاہیے، اور خوب دل کھول کر اس عبادت کی بجا آوری کرنی چاہیے ، اس سے یہ امر بھی واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ عمل کس قدر محبوب ہے کہ اس میں اس قدر سہولتیں پیدا فرمادی، کہ ہر کوئی بآسانی اسے ادا کرے، اور اس کی اخروی فضیلتوں میں ایک نمایاں شرف یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، فانھا علی الصراط مطایاکم، یہ قربانی کے جانور پلصراط پر تمہاری سواری ہوگی، اگرچہ محدثین نے اس حدیث پر ضعف کا حکم لگایا ہے، تاہم فضائل میں اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو اس عظیم عبادت کی زیادہ سے زیادہ توفیق مرحمت فرمائے۔