صہیونی نظام کے ساتھ روابط کی بحالی پر عرب کھلاڑیوں کا زبردست وار

محمد انعام الحق قاسمی

مملکت سعودی عرب ، ریاض
وہ لوگ اپنے عوام سے بہت قریب ہیں، معتقدات میں نہایت ہی سچے ہیں، لوگوں کے درمیان بہت سادے انداز میں رہتے ہیں، جب وہ لوگ کھیل کے میدان سے اپنے کو دور کرلیتے ہیں تو اس کی گونج ہر سو سنائی دیتی ہے، وہ اپنے عوام الناس کے نباض ہوتے ہیں، اپنے ہم وطنوں کے نقطۂ نظر کو ڈھٹائی سے پیش کرتے ہیں، اُن میں سے بہت ایسے ہیں جو یا تو اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکے یا اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکے۔ نا ہی وے مقرر ہیں نا ہی واعظ، ناہی وے مرشد ہیں ناہی پیر ، بلکہ وے عامۃ الناس اور بھولے بھالے لوگوں میں سے ہیں، مگر اپنی امت اور عوام کے مسائل کی دقیق نظری ، ان کی تربیت کی اصالت، حب الوطنی کی صداقت، ان کے فیصلے کی آزادی اور ان کی شدت ِ غیرت ، یہ سب وہ صفات جو انہیں قوم کو درپیش خطرات سے زیادہ آگاہ و باخبر بنادیتی ہے، جو اس کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دے گا، یا اس کے وجود اور صلاحیتوں کو نشانہ بنائے گا، یا اس کی نعمتوں اور خزانوں پر ڈاکہ ڈالے گا۔
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ وے عرب کھلاڑی ہیں۔ زندہ قوم کے بچے اور خالص عربیت کے مقدمۃ الجیش ہیں جو شہرت و عظمت کی بالکل پرواہ نہیں کرتے اور تمغے و میڈل پر لات مار دیتے ہیں ، جو مکاسب و منافع، ہدایا و اموال ، تحائف و مراعات سے دست بردار ہو جاتے ہیں، جبکہ اُن میں سے اکثریت غرباء اور محتاجوں کی ہوتی ہے، لیکن وے وطن کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں ۔ وہ فلسطین کے لئے دشمنوں پر فتح کی تاک میں رہتے ہیں۔ وہ خواہشات پر اپنے اصول کو مقدم رکھتے ہیں۔ اپنی استطاعت کے مطابق وے آزادی کی جد و جہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اپنے موقف کا احترام کرتے ہیں، اپنی انکار اور ناپسندیدگی کی پرزور وکالت کرتے ہیں، جب کھیل کے میدان سے انسحاب و واپسی کافیصلہ کرلیتے ہیں تو اس پر ڈٹے رہتے ہیں۔ شاید کہ اپنے اِس وطن و قوم پرستی کے جذبے سےاپنے ابنائے وطن کا احترام جیت سکیں اور عوام کے دل میں گھر کرسکیں ۔وہ عوام جو اپنے دل کی گہرائیوں سے اُن سے محبت کرتی ہے، ان کے ناموں کی تختیاں اور تصویریں اٹھائے گلیوں اور چوراہوں پر لہراتی پھرتی ہے، ان کے استقبال کیلئے اسٹیشنوں اور ایرپورٹ پر ان کی بھیڑ اکھٹی ہوجاتی ہے۔ ان سے ملاقات اور سلام کرنے کیلئے آپس میں مسابقت کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔
جوڈو کراٹے کے جزائری کھلاڑی فتحی نورین اور سوڈانی کھلاڑی محمد عبد الرسول یہ دونوں پہلے عرب کھلاڑی نہیں ہیں جنہوں نے اپنے اسرئیلی چیلنجر سے مقابلہ کرنے کیلئے اولمپک قرعہ اندازی کے قانون کو ماننے سے انکار کردیا، اگرچہ وہ اس سیریز کیلئے نئے کھلاڑی ہیں جنہوں نے ٹوکیو اولمپکس 2021 ء میں اسرائیلی کھلاڑیوں کے ساتھ میچ جاری رکھنے سے قطعی طور پر انکار کردیا ، بلکہ ان سے پہلے بھی بہت سارے عرب اور مسلمان کھلاڑی اسرائیلیوں سے عالمی کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے سے انکار درج کراچکے ہیں، جن کے مؤقف کی عوام الناس میں دل و جان سے پذیرائی ملتی رہی ہے۔ اِن کے اس موقف سے اسرائیلیوں کو اُن کی خراب سیاست ، اُن کے ناجائز قبضے کی اشتعال انگیزی اور اُن کی حکومت کی بربریت کی وجہ سے گہرے غم کا احساس دلادیا ہے، اُن کو اپنے ساتھیوں , دوستوں و میزبانوں اور منتظمین کے سامنے زبردست شرمندہ کیاہے ، کیونکہ عرب و مسلمان کھلاڑیوں کا اسرائیلی کھلاڑیوں سے مصافحہ کرنے، ملنے یا مقابلہ کرنے سے انکار ذلت کا سبب بنتی ہے اور یہ خود دار کھلاڑی اسرئیلیوں کے اعتراف کے مقابلے میں میدان سے نکل جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسرائیلی کھلاڑیوں سے ملاقات کرکے اپنے ہاتھوں کو گندہ کرنے اور اپنے کھیل کے شرف کو داغدار کرنے کے بجائے سزا اور محرومی کو قبول کرلیتے ہیں۔
اِس واقعہ سے اسرائیلی آگ بگولہ ہیں، اُن کے ساتھ جو ہورہا ہے اس سے بہت پریشان ہیں، اس سے انھیں دکھ ہوتا ہے کہ ان کا بائیکاٹ اور الگ تھلگ کیا جارہا ہے، اور وہ عرب کھلاڑی جن کی حکومتوں نے ان کی پرورش کی اور لائق کھلاڑی بنایا اور اُن حکومتوں نے اسرائیل کے ساتھ روابط بحال کرلئے، صلح و مصالحت کا معاہدہ کرلیا تب بھی اُ ن عرب و اسلامی ملکوں کے کھلاڑی ، اسرائیلی کھلاڑیوں کا بائیکاٹ کرتے ہیں ، اسرائیلیوں سے مصافحہ کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ وے علناً کہتے پھرتے ہیں کہ ہم اُن ناپاکوں سے مصافحہ نہیں کریں گے ، اور ناہی ان کے ساتھ کھیل میں مقابلہ کریں گے ، ناہی اُس قرعہ اندازی کو قبول کریں گے جس کے ذریعہ فلسطینی زمین کے قابض اور فلسطینیوں کے حقوق کے پامال کرنے والے ظالم و جابر کھلاڑیوں سے مقابلہ کیلئے مجبور کیا جائے۔ مصر ی کھلاڑی اسلام الشہابی قابل ذکر ہے جنہوں نے 2016ء ریو اولمپیاڈ میں اپنے اسرائیلی مدِ مقابل سے مصافحہ کرنے سے انکار کردیا تھا ، اور اسی طرح دوسرے مصر ی کھلاڑی محمد عبد العال نے ٹوکیو میں ، کویتی کھلاڑی محمد الفضلی نے امسٹرڈیم میں اور انکے علاوہ بہت سے کھلاڑی ہیں جنہوں نے اپنے اعلی حب الوطنی اور عربیت سے انتماء کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے یا مصافحہ کرنے انکار کردیا تھا۔
اولمپکس کی انتظامیہ اور بین الاقوامی کھیلوں کے ادارے کھیلوں کی سرگرمیوں پر سیاست نہ کرنے اور ان کو سیاسی معیار کے تابع نہ کرنے پر اصرار کرتے ہیں اور تمام رکن ممالک کو کھیلوں کی شرائط کو قبول کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور قرعہ اندازی سسٹم پر اعتراض نہ کرنے پر زور دے رہے ہیں جو مقابلہ کرنے والا ایتھلیٹ کی شناخت کا تعین کرتا ہے۔ اور ایسے کھلاڑیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے ، اس کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے والوں پر سخت جرمانے عائد کرنے، ان کے اسپورٹس کلب کے لائسنس منسوخ کرنے کی دھمکی دیتے ہیں ، ان کے نتائج منسوخ کرکے تمغے واپس لینے اور دیگر اقدامات کی بھی ان کو دھمکیاں دیتے ہیں ، لیکن عرب اسپورٹس کلب اور زیادہ تر عرب ایتھلیٹس ، بین الاقوامی کھیلوں کے اداروں کی شرائط کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں ، اور اپنے عقائد پر عمل کرنے پر اصرار کرتے ہیں اور اپنے قومیت ، وطنیت اورضمیر کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے، چاہے اس کی قیمت ہی کیوں نہ اداء کرنی پڑے ۔ خواہ وہ قیمت میچ سے دستبرداری ہو جس میں بارہا ان کی فتح یقینی ہوسکتی ہے۔
اسرائیلیوں کو احساس ہے کہ وہ عرب نظام جن کے ساتھ روابط بحال ہوئے ہیں وے دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ وہ اپنی عوام کی نمائندگی نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں قائل کر سکتے ہیں ۔ امن و سلامتی کی بات ان کے ساتھ بہت ہی کمزور رسی ہے۔ تصویرکشی، مسکراہٹیں، دورے اور مبارکباد اس میں کبھی بھی گرم جوشی پیدا نہیں کرسکے گی، اور نہ یہ اسے معمول پر لاسکےگی اور نہ ہی عوامی مقبولیت میں تبدیل کرسکے گی۔اُن کو ایسے رجحان کا سامنا ہے جو دن بدن بڑھتا اور آگ کی طرح پھیلتا جارہاہے یہ فقط اسپوڑس کے میدان میں ہی نہیں ہے بلکہ اس میں تمام بین الاقوامی تقریبات اور سرگرمیاں بھی شامل ہیں ، جس میں عرب اور اسرائیلی شرکت کرتے ہیں بلکہ وہ ایک ایسے بڑھتے ہوئے رجحان کا سامنا کر رہے ہیں جو روز افزوں پھیل رہاہے ، اور اس میں صرف عرب و مسلمان کھلاڑی شامل نہیں ہیں ، بلکہ تمام بین الاقوامی تقریبات اور سرگرمیاں بھی شامل ہیں ، جس میں عرب اور اسرائیلی شرکت کرتے ہیں۔ اسرائیلی ، عرب و مسلمان فنکاروں اور صحافیوں کے بائیکاٹ سے دوچار ہوتے ہیں ، یہ لوگ اسرائیلیوں سے مصافحہ کرنے اور اُن سے بات کرنے سے انکار کرتے ہیں ، بلکہ وہ ان کی طرف دیکھنے اور اُن کے چہروں پر مصنوعی مسکراہٹ سے بھی انکار کرتے ہیں ، وے ان کو سلام کرنا یا ان کے سلام کا جواب دینا ، یا ان کے ساتھ تصاویر کھینچوانا یا ان کے قریب بیٹھنے سے بھی انکار کرتے ہیں۔
عرب باشندوں کے بائیکاٹ کا رجحان دن بہ دن بڑھتا جائے گا ، اورایک دن آئے گا کہ تمام عرب عوام غاصب صہیونی نظام کے سر پر چڑھ بیٹھیں گے ، جو یہ خیال کرتے ہیں کہ عرب سرزمین اُن کے لئے کھل ہوچکی ہے ، اور اس میں گھسنا آسان ہوگیا ہے ، اور ان کے باشندوں کے ساتھ روابط کی بحالی معمولی بات ہے۔ اور یہ کہ ان ملکوں میں بآسانی اپنی زندگی گزار سکتے ہیں ، لیکن اب انہیں احساس ہورہا ہے کہ ان کے پاؤں میں بدنامی کے دھبے ہیں ، انکے چہرے ظلم و بربریت سے کالے ہوچکے ہیں ، انکی شبیہ مسخ ہوچکی ہے ، اور یہ کہ عرب عوام سے وہ سب کچھ حاصل نہیں کر سکتے ہیں جو انہوں نے ان فاسد و سفاک حکومتوں اور نظاموں سے حاصل کرلیا ہے ، اور یہ کہ اسرائیلی ہر روز ہماری عرب قوم کے بیٹوں سے اپنے چہرے پر ایک ضرب اور پیٹھ پر ایک لات وصول کرتے رہیں گے ، ان اسرائیلیوں کو اُن کی طرف سے ایسی مسکراہٹ نہیں ملے گی جو انہیں تسلی دے سکےگی ، اور نہ ہی کوئی بشاشت وجہ ملے گا جو انہیں اطمینان دلا سکے گا ، اور نہ ہی یہ عوام انہیں قبول کر سکے گی ، چاہے وہ اپنے بدصورت و قبیح چہرے کو کسی بھی طرح سجانے کی کوشش کریں ، یا اپنی مکروہ شبیہ کو خوبصورت بناکر پیش کرنے کی کوشش کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔:::۔۔۔۔۔۔۔۔