نگہ بلند سخن دل نواز جاں پر سوز

عوام کو اپنے رہنما کے اندر فکر و اخلاق کی بلندی اور نگاہ و قلب کی وسعت و کشادگی دیکھنا چاہئے!
کلیم الحفیظ، نئی دہلی
عربی کا ایک محاورہ ہے ”العوام کالانعام“ ۔یعنی عوام چوپائے کی طرح ہوتی ہے۔ چرواہا جدھر چاہتا ہے ہنکا لیجاتا ہے۔ اسی لیے ہم اکثر ایسے رہزنوں سے دھوکا کھاتے رہے ہیں جو رہبروں اور رہنماؤں کے لباس میں آتے ہیں،اس لیے عوام کے شعور کو اتنا ضرور بیدار ہونا چاہئے کہ وہ اپنے مخلص خیر خواہوں کو پہچان سکے۔ ہم سیاسی طور پر ایسے افراد کو اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں جس کی غنڈہ گردی کے قصے زبان زد عام ہوتے ہیں۔ہم اپنی برادری کی قیادت ایسے افراد کے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں جو بازوؤں کی طاقت کے ساتھ دولت مند بھی ہو خواہ اس کی اخلاقی حیثیت کچھ نہ ہو۔ یہاں تک کہ ہماری مساجد اور مدارس اور تعلیم گاہوں کے ذمہ داران وہ لوگ بنادئیے جاتے ہیں جن کی خوبی اس کے سوا کچھ نہیں ہوتی کہ وہ دبنگ ہیں اور ان کے سامنے کوئی شریف انسان بول نہیں سکتا ۔ یہ صورت حال نوے فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ امت مسلمہ کا حال اس وقت یہ ہوگیا ہے کہ نہ اس کے رہنماؤں کے پاس وہ خوبیاں ہیں جن کی ایک انقلابی قیادت کو ضرورت ہے اور نہ عوام کو ان پیمانوں کا شعور ہے جن کی روشنی میں اپنے قائد کو پہچان سکیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہ رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
ہماری اسی غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے تمام ادارے اپنے مقاصد میں تقریباً ناکام ہوکر کرپشن کا شکار ہوگئے ۔ سیاست تو اس قدر گندی ہوگئی کہ کوئی نیک اور شریف انسان اس کے نام سے گھبرانے لگا۔ انجام کار ہم زوال کی جانب ہی چلتے رہے اور آج ایک ایسے گہرے کنویں میں گر گئے ہیں جہاں سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بیدا رہوں ،اپنے رہنماؤں کو رہنما تسلیم کرنے سے پہلے ان کے کچھ اوصاف دیکھیں ۔ایسے افراد کو ذمہ داریاں سپرد کریں جو اس کے اہل ہوں۔ ذمہ داروں کو جواب دہ بھی بنائیں۔ میرے مطالعے کی حد تک ایک لیڈر اور رہنما میں جو خوبیاں ہونا چاہئے وہ درج ذیل ہیں۔
سب سے پہلی خوبی کسی بھی رہنما میں یہ ہونا چاہئے کہ وہ صاحب ویژن ہو۔ اس کا کوئی ہدف ہو ۔اس کا کوئی نظریہ ہو، جس شخص کا اپناکوئی ویژن، نظریہ یا ہدف نہیں ہوتا وہ مستقل مزاج نہیں ہوسکتا وہ کبھی ترقی کے راستے پر چل ہی نہیں سکتا، وہ امام نہیں بن سکتا بلکہ ایسے افراد پیروکار اور مقتدی ہوسکتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ امت مسلمہ کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا ویژن اور نظریہ اسلام کے معیار پر کیسا ہے؟ اسلامی عقائد سے بھی میل کھاتا ہے یا نہیں اس لیے کہ ایک مسلمان کے لیے اس کی آخرت اصل ہے ۔ ایک غیر مسلم کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ اس کا ویژن اسلام کی بنیادی تعلیمات سے متصادم نہ ہو۔میرے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ موحد اور نمازی ہو بلکہ وہ انسانیت کی بنیادوں پر مساوات کا قائل ہو اور رنگ و نسل یا علاقے کی بنیاد پر متصبانہ ذہنیت کا حامل نہ ہو۔ عام طور پر سیاست میں ویژن کی فکر نہ لیڈر کو ہے نہ عوام کو ۔ جب کہ کسی بھی گروہ کی ترقی اور تنزلی کا دارومدار اس کے رہنما کے ویژن سے سیدے سیدھے وابستہ ہے۔
دوسری خوبی جس کو میں ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر فائز ہو ۔ اس کے یہاں عداوت اور دشمنی کے بھی کچھ اصول ہوں ۔ آج کل خود غرضی ، ابن الوقتی، دھوکا دہی، دوغلہ پن اور چاپلوسی کو ہی سیاست کا نام دے دیا گیا ہے۔ اسی کو ہم رہنما سمجھتے ہیں جو ان عیوب میں طاق ہو۔ خود رہنما بھی اسی کورہنمائی سمجھتا ہے، لیکن یہ عیوب انسان کو پستی کی جانب لے جاتے ہیں۔کیا وہ انسانی گروہ کبھی عظمت و بلندی سے سرفراز ہوسکتا ہے جس کی سربراہی ایسے عیوب کے حامل افراد کررہے ہوں ، کیا سچائی ، امانت داری اور وعدہ کی پاسداری کے مقابلے یہ عیوب کہیں ٹھہر سکتے ہیں؟ اخلاص کے مقابلے مفاد پرستی کبھی محبوب نہیں رہی۔کسی زمانے میں بھی ترش روئی اور تلخ بیانی کو زبان کی شیرینی اور خندہ پیشانی پر سبقت حاصل نہیں ہوئی۔ بیشتر برائیاں اور اچھائیاں آفاقی حیثیت رکھتی ہیں ان کا مذہب سے نہیں فطرت سے تعلق ہے ، اس لیے عام انسان کی نظر میں خوبیاں قابل قدر ہی رہیں اور عیوب کو ناپسندیدگی کی نظر سے ہی دیکھا گیا۔
ایک رہنما کو بڑے دل کا مالک ہونا چاہئے۔ اسے اپنے دل میں کینہ ،کپٹ ،حسد اور جلن کو جگہ ہی نہیں دینا چاہئے ،اس کے مزاج میں درگزر اور چشم پوشی ہونا چاہئے۔ انتقام کی آگ خود اس کی اپنی ذات کے لئے بھی نقصان دہ ہے اور اس کے مشن کے لیے بھی۔ اپنے ماتحت افراد کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی کشادہ دلی کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ دل کی فراخی اور کشادہ قلبی کے بغیر کوئی شخص اپنے ماتحتوں کے دل میں جگہ نہیں بنا سکتا۔ اپنے کارکنان کے لیے سچی ہمدردی ، ان کی تکلیف کا احساس ،ان کے لیے خیر خواہی کے جذبات ہوں تبھی جاکر ایک ایسا کارواں تشکیل پاتا ہے جو پہاڑوں سے ٹکراجاتا ہے۔
تیسری خوبی جس کی ضرورت ایک رہنما کو ہوتی ہے وہ اس کی اصول پسندی ہے۔ وہ جس مشن کو لے کر اٹھا ہے اور اس نے اپنا جو ہدف طے کیا ہے اس کے حصول کے لیے اس نے جو اصول بنائے ہیں جو ضوابط طے کیے ہیں ان کی پابندی کرناہی اصول پسندی ہے۔ عام طور پر اقرباء پروری اور احباب نوازی سے اصول پسندی چور چور ہوجاتی ہے۔اقرباء پروری ایک گھن کی طرح ہے جو رفتہ رفتہ پوری عمارت کو کھاجاتا ہے۔ اس وقت ملک کی بیشتر سیاسی ، ملی یہاں تک کہ بعض دینی و مذہبی جماعتیں اس کا شکار ہوکر اپنے وجود کی آخری جنگ لڑ رہی ہیں۔ اقرباء پروری رہنما کو اس کے مقصد سے غافل کردیتی ہے۔اس کے اختیارات کو محدود کردیتی ہے ۔ کیوں ڈسپلن شکنی کے جرم میں اپنوں کے گلے پر چھری چلانا مشکل ہوجاتا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ رہنما کے اندر فیصلہ لینے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ اس کے نفاذ کی طاقت بھی ہونا چاہیے ، اسے فیصلہ لینے سے قبل غور وخوض یا مشاورت کے عمل سے گذرنے میں جو وقت درکار ہو، لگانا چاہئے لیکن جب ایک بار فیصلہ لے لیا جائے تو اس کو نافذ بھی ہونا چاہئے۔ جو قیادت اپنے فیصلوں کے نفاذ میں کمزور ہوتی ہے اس کی حکومت گھر اور دفتر تک محدود ہوجاتی ہے۔ بیشتر رہنما آج اسی کرب سے گزررہے ہیں،لیکن اس کے لیے جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ قول و عمل میں یکسانیت ہے ، جو رہنما اپنے کہے پہ خود عمل نہیں کرتے وہ دوسروں سے پابندی کرانے کا حق کھو دیتے ہیں۔
امت مسلمہ کو ان گزارشات کے تناظر میں اپنے رہنماؤں کا جائزہ لینا چاہئے ۔ یہ جائزہ بغیر کسی لاگ لپیٹ کے ہونا چاہئے اور جس شخص کے اندر اسے یہ خوبیاں نظر آئیں اس کی رہنمائی میں کام کرنا چاہئے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا مستقبل بہتر ہو اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیں طعنہ دینے کے بجائے دعائیں دیں تو ہمیں ذاتی مفادات، رنگ و نسل اور علاقہ و مسلک سے اوپر اٹھ کر ایک ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت کرلینا چاہئے جس کے ہر عمل اور ہر لفظ سے خوشبوئے وفا آتی ہے۔
نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کےلیے

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں