طالبان کی آمد اور ہندوستان کی کشمکش

سہیل انجم
اہل جبہ و دستار نے ایک بار پھر افغانستان کے اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔ البتہ اس بار ان کا قبضہ بڑے معنی خیز انداز میں ہوا ہے۔ عموماً ایسا ہوتا نہیں ہے کہ جدید ہتھیاروں سے لیس تین لاکھ نفری والی فوج ساٹھ ہزار نفری والے نسبتاً کم وسائل والے گروپ کے سامنے یوں سرنگوں ہو جائے جیسے اس پر سحر کر دیا گیا ہو۔ یہ صورت حال اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ جو کچھ ہوا ہے وہ ایک تحریر کردہ اسکرپٹ کے مطابق ہوا ہے۔ امریکہ نے بھی غالباً اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ طالبان افغانستان کی سب سے بڑی قوت ہیں اور ان کے بغیر وہاں امن و استحکام قائم نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اب جنگ بند کر دینی چاہیے۔ اسے وقت کا الٹ پھیر ہی کہا جا سکتا ہے کہ جس نے بیس سال قبل طالبان کے خلاف جنگ چھیڑی تھی اسی نے ان کو مذاکرات کے لیے مدعو کیا اور ان کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔ قصہ کوتاہ یہ کہ اب افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا ہو گیا ہے۔ جو تھوڑے بہت امریکی فوجی رکے ہوئے ہیں ان کا کام وہاں پھیلنے والی ممکنہ بدامنی کو روکنا اور جو ممالک اپنے شہریوں کو وہاں سے نکالنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔ ہندوستان کے تقریباً دو سو افراد جن میں ہندوستانی سفیر اور سفارتی عملہ بھی شامل ہے، امریکی مدد سے ہی وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ لیکن ہندوستانی شہریوں کے انخلا کے پیچھے صرف امریکی مدد ہی شامل نہیں رہی ہے بلکہ خود طالبان کا تعاون بھی اسے حاصل رہا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق جب ہندوستانی وفد کی دو بار نکلنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں تو اس نے طالبان سے رجوع کیا اور کہا کہ وہ ان کو ایئرپورٹ تک پہنچنے میں مدد دیں۔ چوبیس گاڑیوں پر مشتمل یہ قافلہ رات کی تاریکی میں اور طالبان کے جلو میں ایئر پورٹ کے لیے نکلا۔ راستے میں ہزاروں افراد نے راستہ روکنے کی کوشش کی۔ جہاں بھی قافلے کو آگے بڑھنے میں دشواری ہوئی، طالبان گاڑیوں سے نیچے اترے اور ہجوم کی جانب اپنے ہتھیار لہرائے اور اس طرح یہ قافلہ ایئرپورٹ پہنچا۔ پانچ کلومیٹر کا راستہ پانچ گھنٹے میں طے ہوا۔ اس سے دو روز قبل طالبان نے ہندوستان کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ اپنا سفارت خانہ بند نہ کرے۔ کابل میں سیکورٹی سے متعلق اس کے خدشات سے وہ بے خبر نہیں ہیں۔ اسے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ سفارتی عملہ کو پورا تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
طالبان کا یہ قدم اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ ہندوستان کو نظرانداز کرنے کی غلطی نہیں کر سکتے۔ اس سے قبل جب 1996 سے 2001 تک وہاں طالبان کی حکومت تھی تو ہندوستان نے اسے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اسے صرف تین ممالک نے تسلیم کیا تھا۔ اس طرح طالبان نے پانچ سال تک دنیا سے کٹ کر حکومت کی تھی۔ انھوں نے اُس دور اقتدار میں جو کچھ کیا اس کی پوری دنیا میں مذمت بھی ہوئی۔ اس وقت انھوں نے اپنا جو کردار پیش کیا تھا وہ یقینی طور پر قابل قبول نہیں تھا۔ اسی لیے اب بھی لوگ ان کے وعدوں پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تاہم اس بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ اب جو عالمی نظام ہے اس میں کوئی بھی ملک دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ تمام ممالک کے مفادات ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں۔ سب کو ایک دوسرے کے تعاون اور مدد کی ضرورت ہے۔ اس عریاں حقیقت کو شاید طالبان نے بھی سمجھ لیا ہے۔ اس لیے اس بار وہ اپنا ایک ایسا چہرہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں جو دنیا کے لیے قابل قبول ہو۔ پچھلی بار جب انھوں نے ملک پر قبضہ کیا تھا تو بیک جنبشِ اسلحہ حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھو ںمیں آگئی تھی۔ لیکن اس بار ایک ہفتہ ہونے کو آیا لیکن ابھی تک حکومت نہیں بن سکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان بھی اس حقیقت کو سمجھ رہے ہیں کہ وہ اگر تنہا حکومت بنائیں گے تو وہ دنیا کے دوسرے ملکوں کو تو چھوڑیے خود افغانستان کے تمام قبائل، گروپوں، دھڑوں اور جنگجو سرداروں کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی۔ اور اگر ایسا ہوا تو اس حکومت کا وجود ایسا ہی ہوگا جیسے کہ موجوں کے رخ پر ریت کا گھروندہ۔ اس لیے غالباً ایک ایسی حکومت کی صورت گری ہو رہی ہے جس میں سب کی نمائندگی ہو۔ اس ممکنہ تصویر میں رنگ بھرنے کے لیے صرف طالبان کے ہاتھوں میں ہی برش نہیں ہے بلکہ عبد اللہ عبد اللہ، حامد کرزئی اور دوسرے رہنماوں اور جنگجو سرداروں کے ہاتھوں میں بھی ہے۔ سب اپنے اپنے مزاج کے اعتبار سے اور اتفاق رائے سے اس تصویر میں رنگ آمیزی کر نے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ نئی حکومت کس شکل و صورت کی ہوگی۔ ملک کے مختلف علاقوں کے رنگوں سے بننے والی تصویر کے خد وخال کیا ہوں گے۔ ممکن ہے کہ ابھی چند دنوں کا انتظار اور کرنا پڑے اور طالبان کو ابھی اور صبر آزما ایام سے گزرنا پڑے۔ لیکن خطرہ اس بات کا ہے کہ کہیں ان کے صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہو جائے اور وہ دامن جھاڑ کر اٹھ کھڑے نہ ہو جائیں کہ ہٹو جی ہم خود حکومت بنا لیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ نہ صرف افغانستان بلکہ پوری دنیا کے حق میں برا ہوگا۔
بہرحال جس طرح طالبان نے اس حقیقت کو محسوس کیا ہے کہ وہ ہندوستان سے رشتہ منقطع کرکے نہیں رہ سکتے اسی طرح ہندوستان کو بھی یہ بات محسوس کرنی ہوگی کہ وہ طالبان سے کنارہ کشی اختیار کرکے اور نئی حکومت سے رشتہ توڑ کر عقلمندی کا کام نہیں کرے گا۔ شاید وہ ا س بات کو محسوس بھی کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوحہ مذاکرات کے آخری مرحلے میں ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے طالبان رہنما ملا عبد الغنی برادر اور دوسروں سے ملاقات اور بات چیت کی تھی۔ وہ ہندوستانی میڈیا جو طالبان کی آڑ میں مسلمانوں کو مغلظات سنانے کی مہم میں مصروف ہے اسے بھی یہ بات معلوم ہے۔ لیکن برا ہو مسلم مخالف ذہنیت کا کہ میڈیا اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا۔ تاہم ہندوستان کے لیے ابھی فوری طور پر کوئی فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ وہ ہمیشہ طالبان کے خلاف بولتا اور ان کی مدد کرنے والوں کو جواب دہ بنانے کی اپیلیں کرتا رہا ہے۔ اب وہ اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے کیسے کہہ سکتا ہے کہ آو¿ ہم تم راز و نیاز کی باتیں کریں۔ ابھی ہندوستان نے یہ فن نہیں سیکھا ہے۔ ہاں امریکہ سمیت دیگر ملکوں نے یہ فن ضرور سیکھ لیا ہے۔ جبھی تو بیس سال سے جنگ میں الجھنے کے باوجود امریکہ نے طالبان کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھنے میں کسی جھجک کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ہندوستان ابھی دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور یہ پالیسی درست بھی ہے۔ اسے یہ دیکھنا ہے کہ نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کیا ہوتی ہے۔ وہ خواتین اور لڑکیوں کو تحفظ فراہم کرتے اور انھیں دفاتر میں کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔ وہ اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں یا نہیں۔ ابھی ذرا نئی حکومت کا چہرہ تو دیکھنے دیجیے پھر ہندوستان فیصلہ کرے گا کہ وہ چہرہ اسے پسند ہے یا نہیں۔ البتہ اس نے افغانستان کی اس نئی صورت حال سے انتخابی فائدہ اٹھانے کی جو تیاری کی ہے وہ غلط ہے۔ اس کا یہ کہنا کہ افغانستان کے جو ہندو اور سکھ مدد مانگتے ہیں (مسلمان نہیں) ہم ان کی مدد کریں گے، اسی انتخابی سیاست کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ بعض مسلمانوں کی جانب سے غیر معتدل بیانات کی آڑ میں بھی ماحول گرمانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خاص طور پر میڈیا اس مہم میں مصروف ہے۔ موجودہ ملکی ماحول میں مسلمانوں کو اسے اسلام کی فتح قرار دینے اور طالبان کی شان میں رطب الساں ہونے سے بچنا چاہیے۔ میڈیا ایسے مسلمانوں سے بیانات لے رہا ہے جو جذبات میں آکر کچھ بھی بول دیں تاکہ وہ ان کی باتوں میں رنگ آمیزی کرکے یہ بتا سکے کہ دیکھو ہندوستانی مسلمان طالبان کے حامی ہیں۔ وہ ایسا اس لیے کر رہا ہے تاکہ حکومت کے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکے اور آنے والے اسمبلی انتخابات میں اس سے بی جے پی کو فائدہ پہنچا سکے۔ میڈیا کو بھی اس حرکت سے باز آنا چاہیے اور حکومت کو بھی۔ ہاں حکومت غور و فکر کے بعد یہ فیصلہ کرے کہ اسے طالبان سے کیسے ڈیل کرنا ہے۔ تاہم یہ فیصلہ مثبت ہو تو اچھا ہے۔ کیونکہ افغانستان میں ہندوستان کے مفادات خطرے میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر مثبت انداز فکر سے کام لیا گیا تو ان مفادات کا تحفظ ہو سکے گا ورنہ اس نے گزشتہ چھ برسوں میں افغانستان میں جو کچھ کمایا ہے وہ سب گنوا دے گا۔
sanjumdelhi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں