اسلام حملہ آوروں کا مذہب نہیں ہے!

معصوم مرادآبادی
اب یہ ایک فیشن بنتا جارہا ہے کہ کچھ مسلمانوں کو کسی بھی عنوان سے جمع کرکے آرایس ایس سربراہ درس دے رہے ہیں ۔ درس بھی ایسا جو کلاس میں طالب علموں کو دیا جاتا ہے۔ کہیں دانشور، کہیں علماء اور کہیں داعی اسلام کے بھیس میں یہ مسلمان ، موہن بھاگوت کے ایسے لیکچر سن رہے ہیں، جو حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ انھیں ٹھنڈے پیٹوں برداشت بھی کیا جارہا ہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ آرایس ایس اور مسلمانوں کے درمیان مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں، ضرور ہونے چاہئے ، مگر ان کی نوعیت یک طرفہ نہ ہو بلکہ سرکردہ مسلمان آمنے سامنے بیٹھ کر موہن بھاگوت سے ان مسائل پر بامقصد گفتگو کریں جو آزادی کے بعد سے لگاتار مسلمانوں کو در پیش ہیں اور جنھیں پیدا کرنے میں سنگھ پریوار کی تنظیموں کا ہی ہاتھ ہے۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ پرامن بقائے باہم کا ہے ، کیونکہ مسلمان آزادی کے بعد سے مسلسل فرقہ وارانہ منافرت کا شکار ہیں اور انھیں زبردست جانی ومالی نقصان سے گزرنا پڑا ہے۔ آج بھی جبکہ آرایس ایس ملک کے اقتدار پر بالواسطہ طور پر قابض ہے پورے ملک میں مسلمان ہجومی تشدد کا شکار ہورہے ہیں اور انھیں اس حد تک مذہبی منافرت کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ ان کا جینا حرام ہوگیا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار مسلمانوں کو ہی یہ تنبیہ کی جارہی ہے کہ وہ اپنے ہاں انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کریں۔ گزشتہ ہفتہ ممبئی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں جمع ہوئے مسلمانوں کو موہن بھاگوت نے یک طرفہ طور پر یہی سبق پڑھایا ۔ شرکاء کا خیال ہے کہ اس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا۔ اس سے قبل غازی آباد میں ایک پروگرام کے دوران راشٹریہ مسلم منچ کے کارکنوں کے درمیان موہن بھاگوت نے یہی باتیں کہی تھیں اور وہاں بھی کسی کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ موہن بھاگوت سے سلگتے ہوئے مسائل پر باز پرس کرتا۔ یہی سب کچھ ممبئی میں بھی ہوا۔ وہاں موجودکسی داعی اسلام ، کسی دانشور اور کسی عالم دین کو یہ لقمہ دینے کی توفیق نہیں ہوئی کہ خود موہن بھاگوت ہندو سماج میں پنپ رہی انتہا پسندی کے خلاف کتنا سنگھرش کررہے ہیں ؟
موہن بھاگوت نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ پونہ کی ایک میٹنگ میں یہ سراسر جھوٹا الزام بھی لگایا کہ ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ذریعہ آیاہے۔ یہاں بھی انھوں نے مسلم رہنماؤں سے شدت پسندی کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کی اپیل کی۔ بھاگوت نے کہا کہ’’ اسلام حملہ آوروں کے ساتھ ہندوستان میں آیا۔ یہ ایک تاریخی سچائی ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’مسلمانوں کے سمجھدار لیڈروں کوانتہا پسندی کی مخالفت کرنی چاہئے۔انھیں شدت پسندوں کے خلاف مضبوطی سے بولنا ہوگا۔‘‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھاگوت جی نے ابھی تک ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کی تاریخ نہیں پڑھی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ایک سفید جھوٹ کو تاریخی سچائی کے طورپر بیان کررہے ہیں۔اگر وہ برا نہ مانیں تو ہم انھیں بتانا چاہیں گے کہ اسلام رسول عربی کے زمانے میں ہی ساتویں صدی عیسوی میں ہندوستان پہنچ گیا تھا۔ رسول اللہ کے ساتھی ملک بن دینار ہندوستان آنے والے پہلے مسلمان تھے، جو کیرل کے مغربی ساحل پر تشریف لائے اور یہیں ہندوستان کی پہلی مسجد 629 عیسوی میں تعمیر ہوئی ، جو آج بھی موجود ہے۔ جہاں تک مسلم حملہ آوروں کا سوال ہے تو بھاگوت جی کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کے لیے یہاں نہیں آئے تھے بلکہ ان کے دوسرے مقاصد تھے ، جنھیں انھوں نے پورا کیا۔ان حملہ آوروں کی ہندوستان آمد اس واقعہ کے پانچ سوسال بعد ہوئی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم بادشاہوں کے لگ بھگ آٹھ سوسال کے دور حکومت میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انھوں نے یہاں اسلام کی تبلیغ کاکوئی کام کیا ہو یا زور زبردستی کسی کو مسلمان بنایا ہو۔
ہندوستان میں اسلام دراصل مساوات اور انسانیت نوازی کی وجہ سے مقبول ہوا ، کیونکہ ہندو سماج میں چھوا چھوت کی وجہ سے پسماندہ طقوں کے جن لوگوں کا جینا حرام تھا ، وہ تیزی کے ساتھ اسلام کی طرف راغب ہوئے ، کیونکہ مسلمان ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے پیتے تھے جنھیں بھاگوت جی کے سماج نے ٹھکرادیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں اسلام کو سب سے زیادہ فروغ صوفیوں کی انسانیت نوازی سے ہوا ۔ ان میں خواجہ معین الدین چشتیؒ، حضرت نظام الدین اولیاؒ، حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ جیسے بزرگوں کا بڑا رول ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کے مزاروں پر حاضری دینے والوں میں مسلمانوں سے زیادہ تعداد ان ہندوؤں کی ہے جو یہاں آکر روحانی سکون حاصل کرتے ہیں۔ خود بی جے پی کی فائر برانڈ لیڈر اوما بھارتی نے ایک نجی گفتگو میں کہا تھا کہ’’ بھارت کو جن دوچار طاقتوں نے روحانی طورپر متحدکر رکھا ہے، ان میں ایک طاقت خواجہ اجمیری کی ہے۔‘‘
ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے مذاکرات نہیں ہونے چاہئے، لیکن یہ مذاکرات گول میز کانفرنس کی صورت میں ہوں نہ کہ لیکچر کی صورت میں۔ کیونکہ لیکچردینے والا صرف اپنی بات کہتا ہے اور وہ دوسرے کی سننے پر یقین نہیں رکھتا۔ آرایس ایس اپنی شرطوں پر مسلمانوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے اور اس کی سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان خود کو ’ ہندو‘ سمجھیں ، کیونکہ اس کی نگاہ میں ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص خواہ وہ کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو ، بنیادی طورپر” ہندو ” ہے۔ موہن بھاگوت اپنی تقریروں میں اسی بات پر سب سے زیادہ زور دیتے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ ہندو نہیں بلکہ’ ہندوستانی ‘ ہیں اور انھیں اپنی اس شناخت پر اتنا ہی فخرہے جتنا کہ مسلمان ہونے پر۔ موہن بھاگوت نے ممبئی میں یہ بھی کہا کہ تمام ہندوستانیوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ ہم سب کے آباواجداد ایک ہیں۔ ہم سب بھارت ماتا کی اولاد ہیں۔ جس کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی وہ ہندو ہے خواہ اس کی ذات، زبان، رنگ ونسل اور مذہب کوئی بھی ہو۔
پہلے تو بھاگوت جی کو یہ واضح کرنا چاہئے کہ وہ سب ہندوستانیوں کو ’ ہندو‘ ثابت کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ جب ہندوستان کے باشندوں کو پورا دنیا میں انڈین یا ہندوستانی کہا جاتا ہے تو انھیں اس پر اعتراض کیوں ہے؟ اب آئیے اس سلسلے میں آرایس ایس کے بانی کے ساورکر کے نظریہ سے رجوع کرتے ہیں ، جو لفظ’ ہندو‘ کی اصل توضیح پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی مشہور کتاب ’ہندتو‘ میں لکھا ہے کہ’’ ہندو وہی ہے جو ہندوستان کو مقدس سرزمین تسلیم کرے۔‘‘ ظاہر ہے مسلمان اپنے وطن کے طورپر ہندوستان سے محبت کرتے ہیں اور ایسا کرنا اسلامی تعلیمات کا ایک حصہ ہے ۔ لیکن جہاں تک وطن کو’ مقدس‘ قرار دے کر اس کی پوجا کرنے کا سوال ہے تو یہ اسلام میں جائز نہیں ہے ، کیونکہ اسلام میں عبادت صرف اللہ کی ہی جاتی ہے اور مٹی کی عبادت کرنا شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ جہاں تک مذہب اور وطن کی محبت کا سوال ہے تو اس فلسفہ کو رئیس الاحرار مولانا محمدعلی جوہر نے لندن کی گول میز کانفرنس میں بڑے مدلل انداز میں پیش کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا:
’’ میرے پاس ایک تمدن ہے۔ ایک سیاسی نظام ہے۔ ایک نظریہ زندگی ہے اور اسلام ان سب کا امتزاج ہے۔ جہاں تک احکامِ خداوندی بجالانے کا تعلق ہے ، میں اوّل بھی مسلمان ہوں ، دویم بھی مسلمان ہوں اور آخر میں بھی مسلمان ہوں۔ یعنی مسلمان ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوں۔ لیکن جہاں ہندوستان کا سوال آتا ہے، جہاں ہندوستان کی آزادی کا سوال آتا ہے یا جہاں ہندوستان کی فلاح وبہبود کا سوال آتا ہے، میں اوّل بھی ہندوستانی ہوں اور آخر بھی ہندوستانی ہوں اور ہندوستانی ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوں۔‘‘

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں