ہجرت نبوی کے مقاصد اور حکمتیں

مولانا انیس الرحمن قاسمی
قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل نئی دہلی
جب دعوت الی اللہ کی راہ میں مشکلات پیدا ہوں اورجان و مال کی حفاظت مشکل ہوجائے تو دعوتی مقاصد کے حصول کے لیے نیک ارادوں اور تمناؤں کے ساتھ اللہ کے لیے اپنے گھر کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلا جانا اور مال و دولت اور خاندان والوں کی پرواہ نہ کرنا بڑی نیکی ہے۔ ہجرت کے بعد ایسے لوگ دوسری جگہ کو اللہ کی زمین کو اپنے لیے بہتر پناہ گاہ اور کشادگی رزق کا سامان پاتے ہیں۔ اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے:
(جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا، وہ زمین میں پناہ لینے کے لیے بہت جگہ اور بسر اوقات کے لیے بڑی گنجائش پائے گا)۔ (سورۃ النساء: 100)
اللہ کے دین کو پھیلانے اورحق بات اللہ کے بندوں تک پہنچانے کا حکم ہے جب اللہ جل شانہ نے آخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کور سول بناکر بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری انسانیت کو دین حق پہنچانے کی ذمہ داری دی اور یہ اعلان کرنے کا حکم دیا:
(آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگوں! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں)۔ (سورۃ الأعراف:158)
مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین حق کااعلان کیا تو سب سے زیادہ مخالفت مکہ مکرمہ میں آپ کی قوم نے کی، انہوں نے نہ صرف آپ کی مخالفت کی؛ بلکہ اذیت دی اور قتل کے درپے ہوئے،یہاں تک کہ جب انہوں نے دین حق قبول نہیں کیا اور مکہ میں آپ کا رہنا دوبھر کردیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے طائف تشریف لے گئے؛ مگر مکہ سے زیادہ تکلیف طائف والوں نے پہنچائی، انہوں نے آپ کو پتھر مارکر لہولہان کیا؛مگراس حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چہرے سے خون پوچھتے تھے اوران کے لیے دعاکرتے ہوئے کہتے تھے:
“اللّٰہم اغفر لقومی فإنہم لا یعلمون”۔(صحیح البخاری، کتاب الأنبیاء، باب حدیث الغار، رقم الحدیث: ۷۷۴۳)
(اے اللہ! میری قوم کی مغفرت فرما؛ کیوں کہ وہ نہیں جانتے ہیں۔)
قرآن کریم میں اللہ نے گزشتہ زمانہ کے انبیاء کرام اور ان کے متبعین کے مشکل حالات میں صبر و استقامت کے واقعات بیان کر کے رہنمائی کی ہے، خاص طور پر سورۂ کہف کی آیات میں اصحاب کہف کے واقعات ہجرت و استقامت اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کی بہترین مثال ہیں؛ اس لیے مکہ کے سخت حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کرام کو مکہ مکرمہ چھوڑکر حبشہ کے پر امن ملک میں ہجرت کرنے کی اجازت دی اور پہلا قافلہ سن 5/نبوی کو سولہ افراد (مرد و خواتین) پر مشتمل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی قیادت میں روانہ ہوا، ان کے ساتھ ان کی بیوی حضرت رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھیں، یہ لوگ خفیہ طور پر روانہ ہوئے اور بحر احمر کے بندرگاہ شعیبہ سے دو تجارتی کشتیوں کے ذریعہ حبشہ پہونچ گئے، قریش کو اس سے بڑا قلق ہوا اور انہوں نے مسلمانوں پر مکہ میں مزید ظلم و ستم شروع کردیا۔ حبشہ کے مہاجرین جب مکہ واپس آئے اور وہاں کے حالات کو بیان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کو دوبارہ مشورہ دیا کہ وہ حبشہ چلے جائیں، چناں چہ انہوں نے پوری تیاری کی اور منصوبہ کے مطابق ایک سو مسلمانوں نے (مرد و خواتین پر مشتمل) ہجرت کی اور حبشہ چلے گئے، اس بار اس قافلہ میں گزشتہ مہاجرین بھی شامل تھے، جومکہ واپس آگئے تھے؛ مگر اس بار قریش مکہ نے اس میں اپنی غیر معمولی شکست محسوس کی؛ اس لیے حبشہ کے بادشاہ کے پاس اپنا وفد بھیجا اور ان کو وہاں سے ہٹانے اور مکہ لانے کی کوشش کی؛ مگر وہ ناکام رہے، حبشہ میں صحابہ کرام کی کوششوں سے دین اسلام کو فروغ ملا، ادھر مکہ کے حالت نا گفتہ ہورہے تھے اور مسلمانوں پر مشرکین کی زیادتی بڑھتی جارہی تھی۔
ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سال مکہ میں گزارے، یہاں تک کہ جب ظلم و زیادتی بڑھ گئی اور مشرکین مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے درپے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور صحابہ کرام کو مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص منصوبہ کے تحت اپنی روانگی مدینہ سے پہلے مسلمانوں کو ایک ایک دو دو کرکے مکہ سے مدینہ بھیجنا شروع کیا، اس طرح مشرکین مکہ کی نگاہ سے اس ہجرت کو مخفی رکھنا بھی تھا؛ مگر مکہ مکرمہ ایک چھوٹا سا شہر تھا؛اس لیے چند ہی دنوں کے بعد یہ بات پھیل گئی کہ مسلمان اپنے گھر اورسامان کو چھوڑ کو یہاں سے جارہے ہیں، کفار مکہ نے ان کو جانے سے روکا اور ان میں بعض کوان کے مال و دولت کے بدلے کو جانے کی اجازت دی۔
اسی درمیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہجرت کی اجازت آگئی اور آپ نے اس کی تیاری کرلی؛ مگر مشرکین نے اسی شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کفار نے کرلیا، حالاں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان سے خاموشی سے نکلے اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے باہر غارِ ثور میں جاکرچھپ گئے، جب کفارنے آپ کو صبح گھر میں نہ پایا اور دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سو رہے ہیں تو ان کو احساس ہوا کہ آپ رات ہی میں نکل گئے ہیں، جس کے بعد انہوں نے آپ کو تلاش کرنا شروع کیا اور آپ کو قتل کرکے آپ کے سر کے لیے ایک سو اونٹوں کے اعلان انعام کا اعلان کیا، اس انعام کے لالچ میں کتنے ہی لوگوں نے آپ کا تعاقب کیا، جن میں سراقہ کا واقعہ مشہور ہے، اس نے آپ کے قریب پہونچنے کی کئی بار کوشش کی؛ مگر ہر بار اس کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس جاتے، تب اس نے آپ سے امان مانگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امن کا پروانہ لکھوا کر عطا فرمایا۔
ہجرت کے اس سفر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی معجزات ظاہر ہوئے، جب آپ ’قبا‘ پہونچے تو 14/دن وہاں قیام کیا، چوں کہ نماز فرض ہو چکی تھی؛ اس لیے آپ نے وہاں سب سے پہلے مسجد کا قیام کیا، اس کے بعد انصار و مہاجرین کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوئے، وہاں بھی آپ نے سب سے پہلے ’مسجد‘ قائم کی اوراس کے ساتھ ایک چتوترہ بھی بنوایا، جہاں علم حاصل کرنے والے صحابہ ٹھہرتے تھے۔ آج یہ مسجد نبوی مدینہ میں ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے۔
مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ کی عصبیت اور اونچ نیچ کو ختم کرنے کے لیے انصار و مہاجرین کے درمیان مواخات و بھائی چارہ قائم فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی کے ممبر پر بیٹھ کر مہاجرین و انصار میں سے ایک ایک شخص کو بلاتے اور ایک کا ہاتھ دوسرے کے ہاتھ میں دے کر فرماتے ” تم دونوں آپس میں بھائی بھائی ہو”۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبائلی عصبیت کو ختم کرکے اسے اسلامی مواخات میں بدل دیا، یہاں تک کہ مواخات کا یہ رشتہ خونی رشتہ سے بھی زیادہ قیمتی قرار پایا۔ اللہ جل شانہ نے ان کے اس طرح کے اخوت کے رشتے کو پسند فرمایا اور اس کا ان الفاظ میں اعلان کیا:
(مومن تو بھائی ہی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرو؛ تاکہ تم پر رحم کیا جائے)۔ (سورۃ الحجرات:10)
سورۂ انفال میں ہے:
(بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے جگہ دی اور مدد کی، یہ لوگ! ان کے بعض بعض کے دوست ہیں۔) (سورۃ الأنفال:72)
مہاجرین قریش مکہ سے تعلق رکھتے تھے اور قریش کا حال یہ تھا کہ وہ احساس برتری میں مبتلا تھے اور کہتے تھے کہ ہم اللہ کے قریبی اور پڑوسی ہیں، وہ لوگ اپنے علاوہ دیگر قبائل کے لوگوں کو کمتر خیال کرتے تھے، مدینہ کے اوس وخزرج کے قبائل کے ساتھ بھی ان کا یہی رویہ تھا، خود ان دونوں قبیلوں کا حال یہ تھا کہ ان کے آپس میں سالہا سال سے جنگ برپا تھی اور معمولی معمولی باتوں پر وہ آپس میں ایک دوسرے سے بدلہ لینے کے لیے جنگ کرتے رہتے تھے اور میرا قبیلہ میرا قبیلہ کا نعرہ لگاتے تھے، جب یہ لوگ مسلمان ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسلامی اخوت اور امت مسلمہ کے ڈور سے باندھا اور مہاجرین و انصار میں اخوت قائم کرادی، اس اخوت کے نتیجے میں ان کے درمیان حیرت ناک تبدیلی واقع ہوئی اور وہ سب ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہوگئے۔
دوسری طرف دین اسلام کے لیے قربانی نہ دینے والوں اور ہجرت نہ کرنے والوں کے بارے میں اللہ کی طرف سے وعید آئی:
(اور جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت نہ کی، تمہارے لیے ان کی دوستی میں سے کچھ بھی نہیں، یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں اور اگر وہ دین کے بارے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر مدد کرنا لازم ہے؛ مگر اس قوم کے خلاف کہ تمہارے درمیان اور ان کے درمیان کوئی معاہدہ ہو اور اللہ اسے جو تم کر رہے ہو، خوب دیکھنے والا ہے۔ (سورۃ الأنفال:72)
یعنی وہ مسلمان جو ابھی ہجرت کرکے نہیں آئے، وہ اس دائرہ ولایت ’دوستی‘سے باہر ہیں۔ جب تک کہ ہجرت نہ کریں؛ اس لیے کہ انہیں فی الحال اس پر قدرت نہیں ہے، ہاں جب وہ ہجرت کرکے آجائیں تو ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگا۔ دوسری طرف کفار و مشرکین کے بارے میں کہا گیا کہ وہ کفر کی وجہ سے ایک ملت کے فرد ہیں؛ اس لیے ان سے ایمانی دوستی نہ کرو۔
(اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ لوٹ کر جانے کی بری جگہ ہے۔) (سورۃ التوبۃ:73)
بہرحال جاہلیت کی عصبیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام اور تمام ایمان والوں سے دور کرنے کے لیے حجۃ الوداع کے موقع پر اعلان فرمایا کہ:
“أَلَا إِنَّ کُلَّ شَیْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضُوعٌ”۔ (سنن أبی داؤد، رقم الحدیث:۵۰۹۱)
(جاہلیت کی ہر شے آج میرے قدموں کے نیچے ہے۔)
“أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلَی عَجَمِیٍّ، وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلَی عَرَبِیٍّ، وَلَا أَحْمَرَ عَلَی أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَی أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَی”۔ (مسند الإمام أحمد،رقم الحدیث:۹۸۴۳۲)
(زبان کی بنیاد پر، رنگ ونسل کی بنیاد پر تعصب میں مت پڑھنا، کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت نہیں ہے، سب اللہ کی نظر میں برابر ہے، برتری صرف تقویٰ کی وجہ سے ہے۔)
ہجرت کے بڑے دور رس اثرات ہوئے۔ اس کے مقاصد عظیم تھے اور حکمتیں بہت تھیں، اس ہجرت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہجرت نے ایمان والوں کے اخلاق و کردار کو بہتر بنایا اور اللہ کی راہ میں صبر و استقامت کی تعلیم دی، یہی وہ عظیم خوبیاں تھیں، جن کو دیکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسلامی کیلنڈر کے آغاز کا ارادہ کیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت، یا وفات کے دن سے نہ کیا اور نہ ہی نزول قرآن کے دن سے کیا؛ بلکہ ایسے واقعہ سے اس کا آغاز کیا، جو تاریخ اسلامی کا ایک نادر واقعہ تھا، جس نے اسلام کو قوت عطا کی اور اس کے بعد اسلام پھیلنا شروع ہوا اور جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مہاجرین و مددگار انصار دونوں شریک تھے اور آنے والی امت مسلمہ کے لیے ایک یادگار تاریخ تھی؛ اس لیے اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہجرت سے ہوا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت 622ء (سن13/نبوی) میں ہوئی تھی؛ اس لیے یہی سال ہجرت کا پہلا سال ہوا، البتہ اس کے ماہ کا آغاز سال کے پہلے مہینہ محرم الحرام سے ہوا۔
(3) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل منصوبہ بندی کے ساتھ ہجرت کیا تھا، اس میں سب سے اہم ہجرت کے مقام کا انتخاب تھا، جب ہم اس پر غورکرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ کا انتخاب بہتر تھا؛ اس لیے کہ اگرچہ قریش کا اثر کعبہ کی وجہ سے تمام عرب قبائل پر تھا؛ مگر تجارت ہی پر ان کے مالی استحکام کا دار و مدار تھا، انہوں نے اپنے تجارتی اسفار کے راستوں کو پر امن بنا رکھا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہجرت کے بعد بھی قریش کی عداوت و ایذا سے وہ اور مسلمان اسی صورت میں محفوظ رہیں گے، جب قریش کے تجارتی شاہراہ پر ان کا قبضہ ہوگا، چنانچہ مدینہ منورہ کے انتخاب سے یہ فائدہ مل رہا تھا، یہاں سے ان کے تجارتی شاہراہ کی نگرانی کی جاسکتی تھی۔
(4) مدینہ منورہ کے قبائل اوس و خزرج چند سال پہلے سن۰۱/نبوی سے اسلام میں داخل ہو رہے تھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے وہاں موجود رہ کر ان کو دین سکھاتے اور دعوت الی اللہ کا کام کرتے تھے؛ اس لیے وہاں کی زمین ہموار ہوگئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے کی دعوت ۲۱/نبوی میں مدینہ کے لوگوں نے اس وقت دی تھی، جب انہوں نے مکہ حج کے موقع پر آکر اسلام قبول کیا تھا، اس وقت انہوں نے مدینہ آنے کی دعوت کے ساتھ آپ کی اور مسلمانوں کی حفاظت کا مکمل وعدہ کیا تھا۔
(5) مدینہ مکہ سے پانچ سو کلومیٹر دور تھا اور مدینہ کے لوگ کاشتکار تھے اور قریش کے زیر اثر نہ تھے؛ اس لیے وہاں اسلام کو جلد فروغ حاصل ہو گیا، وہاں کے مقامی یہودیوں سے سن کر نئے اورآخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر سے وہ آشنا تھے، البتہ قریش کے یہودیوں سے تجارتی روابط تھے؛ اس لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوس و خزرج کے ساتھ یہودیوں سے معاہدہ کیا تو قریش کی یہودیوں سے تجارتی روابط پر عمل درآمد پر روک لگ گئی۔
(6) مسلمانوں کے لیے ایک ایسے مرکزی شہر کی ضرورت تھی، جہاں سے وہ ساری دنیا میں اسلام کے پیغام پہونچا سکتے تھے اوریہ اسی صورت میں ہوتا جب ان کو وہاں سیاسی اور مادی اعتبار سے غلبہ ملتا تھا اور یہ غلبہ مدینہ سے مل رہا تھا، مدینہ کے افراد نے مکہ آکر ۲۱/نبوی میں اسلام قبول کرنے کے ساتھ اس کا وعدہ کیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جانے کے لیے آمادہ ہوئے تھے۔ مدینہ پہونچنے کے بعد اہل مدینہ نے آپ کی مکمل حمایت کی، البتہ بعد میں یہودیوں نے دھوکہ دیا۔
(7) اسلام کے دعوتی مقاصد کے لیے ضروری تھا کہ مستقبل کے خطرات کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت ایک مرکز سے کی جائے؛ اسی لیے اللہ جل شانہ مکہ کے تمام مسلمانوں کو (سوائے کمزور و بوڑھے افراد و خواتین و بچوں کے) کو حکم دیا تھا کہ وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہونچیں اور ان عظیم مقاصد کے حصول میں شامل ہوجائیں۔
(8) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں موجودگی اورآپ کے ساتھ رہنے سے دین و اخلاق کو سیکھنا آسان تھا، قرآن مجید کا نزول ہورہا تھا اورمدینہ کے اصحاب بآسانی قرآن سیکھتے اوراس کو یاد کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اس پر عمل کرتے اور دعوت اسلام کا کام کرتے تھے۔
اس طرح ہجرت کا واقعہ بے شمار خوبیاں رکھتا ہے، ہمیں چاہیے کہ ہجرت کے مقاصد اور حکمتوں کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھیں اس سے بڑا فائدہ ہوگا اور غلطیوں سے محفوظ رہیں گے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com