شمیم اکرم رحمانی
امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد امت مسلمہ پر ایک مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ گیا تھا، ہر طرف اضطراب و بے کلی فضا چھا گئی تھی، دن کے اجالے کی طرح رات کے سناٹے بھی ایسی صدا لگارہے تھے جو قلوب کو متاثر کررہے تھے، بے چین کرنے والی کیفیتوں، اور خاموشیوں میں چھپی آوازوں کے بیچ مخلصین کے سینکڑوں لب تھے جو جنبش کررہے تھے اور نہ چاہتے ہوئے بھی سوالات پوچھ رہے تھے، اب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ملت کی نگہبانی کا فریضہ کون سر انجام دے گا؟
اس میخانے کا کیا ہوگا جہاں رندوں کا ہجوم سیراب ہو کر سرور کی کیف میں مبتلا ہوجایا کرتاتھا؟ کون سیاست کو مفاد پرستی کے بجائے ملت کے مفاد میں استعمال کرسکے گا؟ حکومت کی بدتمیزوں کے خلاف کون سینہ سپر ہوگا؟ نہ جانے کتنے ایسے سوالات تھے جو اہل درد علماء و دانشوران کو شش پنج میں مبتلا کر رہے تھے، لیکن ان تمام سوالوں کے بیچ سب سے بڑا، اہم، اور نمایاں سوال یہ تھا کہ اب بہار اڈیسہ اور جھار کھند کے مسلمانوں کا امیر کون ہوگا؟ یہ سوال اس قدر اہم تھا کہ اس اس کا جواب تلاش کرتے ہوئے لوگ کئ خیموں میں بٹ گئے تھے، اور نجی مجلسوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر مباحثے کا بازار گرم ہوگیا تھا جو رفتہ رفتہ تنقید اور پھر تنقیص کی شکل میں تبدیل ہوگیا تھا، سرعام پگڑیاں اچھالی جارہی تھیں، ناموس کے پردے چاک کئے جارہے تھے اور مباحات کے حدود پھلانگنے جارہے تھے، ایک ہی شخص کو کہیں فرشتہ سمجھایا جارہا تھا تو کہیں شیطان باور کرایا جارہاتھا، تقریباً 5/6مہنے تک یہ منحوس سلسلہ جاری رہا، پھر آخرکار اللہ تعالیٰ نے رحم کرم کے جھونکے چلانے اور نائب امیر شریعت حضرت مولانا شمشاد رحمانی نے شوری کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کرلیا ، شوری کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں تھا،بلکہ اس پورے قضیے کا سب سے اہم فیصلہ تھا جس پر عمل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، اس لیے کہ انتخاب امیر کی دو مختلف تاریخیں مقرر ہوگئیں تھیں ،اور دونوں تاریخیں اراکین شوری کی جانب سے متعین ہوئی تھیں ، ممکن ہے دونوں گروپوں کی نیتیں درست ہوں تاہم بظاہر بڑے نقصانات کااندیشہ تھا, لیکن نائب امیر شریعت نے شوری کے اجلاس کے انعقاد کا جو فیصلہ لیا تھا اس. پر جرأت و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مضبوطی سے جم گئے، چنانچہ مورخہ 30 /ستمبر کی متعینہ تاریخ پر اراکین شوری کی بڑی اکثریت جمع ہوئی اور کچھ دیر کی گفت و شنید کے بعد آپسی مصالحت اور انتجابی عمل کی انجام دہی کے لیے تمام فریقوں پر مشتمل گیارہ رکنی کمیٹی بنائی، جس کمیٹی نے اخلاص کے ساتھ اپناکام کیا اور متفقہ طور پر یہ اعلان کیا کہ امیر شریعت ثامن کا انتخاب 9/اکتوبر ہوگا، یہ اعلان بہت اہم اور بڑا باوزن تھا جس کی وجہ سے فضا میں تغیر پیدا ہونا شروع ہوا اور لوگ متعینہ تاریخ کا انتظار کرنے لگے، اللہ اللہ کرکے 9/اکتوبر کا دن آیا اور ارباب حل و عقد کا شاندار اجتماع المعہد العالی امارت شرعیہ کے پہلو میں موجود خالی زمین پر منعقد ہوا، سخت سیکورٹی انتظامات کے سائے میں ہونے والا یہ اجتماع بڑا تاریخی تھا، اجتماع گاہ میں ارباب حل و عقد کے علاوہ دوسرے اشخاص کے آنے پر پابندیاں عائد تھیں ، انتظامیہ کے افراد بھی خوب چوکسی برت رہے تھے، اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا، اور پھر شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نذرانہ عقیدت پیش کیا گیا، تلاوت اور نعت خوانی کے بعد اسٹیج پر موجود بزرگوں کی تقریریں ہوئیں، نائب امیر شریعت نے کوششیں کیں کہ ارباب حل و عقد متفقہ طور پر کسی ایک امیر کا انتخاب کرلیں، لیکن توقع کے عین مطابق یہ کوششیں بارآور ثابت نہ ہو سکیں، اس لئے کہ ارباب حل و عقد کی جانب سے ہی پانچ نام سامنے آئے تھے جن میں سے تین شخصیات نے گرچہ اپنے نام واپس لے لئے لیکن دو شخصیات میں سے ایک کو امیر منتخب کرنے کے لئے ووٹنگ از بس ضرورت بن چکی تھی چنانچہ ووٹنگ ہوئی اور ارباب حل و عقد کی بڑی واضح اکثریت نے امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند حضرت مولانا ڈاکٹر احمد ولی فیصل رحمانی کے حق میں ووٹ دیا جس کے نتیجے میں وہ امیر شریعت منتخب ہوگئے، فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بھی ووٹنگ میں حصہ لیا، حالات کے پیش نظر ارباب حل و عقد چونکہ ووٹنگ کرانے پر متفق تھے اس لیے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ امیر شریعت ثامن کا انتخاب بھی اتحاد کے ساتھ ہی ہوا ہے،مقاصد شرعیہ اور مصالح شرعیہ سے ناواقفیت کی وجہ سے کچھ لوگ ووٹنگ کے عمل کو مطلقاً غلط سمجھتے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ ووٹنگ اظہار رائے کی ایک شکل جسے مطلقاً غلط کہنا کہیں سے روا نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ انتخاب سے ایک دن قبل جناب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے فرمایا تھا کہ جب کئی نام ہوں تو ووٹنگ کے ذریعہ انتخاب واحد حل ہے، افراد کو تولے بغیر سر گنے جانے والی بات کا تعلق بھی عوام کی ووٹنگ سے، خواص کی ووٹنگ سے نہیں، ورنہ تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کاانتخاب بھی 6/نفری کمیٹی کے ذریعہ ہی ہوا تھا، اکثریت کی رائے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حق میں تھی، کون ہے جو اس انتخاب کو غلط کہنے کی جرات کرسکتا ہے ، لہذا ارباب حل و عقد کی ووٹنگ کے عمل کو کراہت کی نگاہ سے دیکھنا بھی درست نہیں چہ جائکہ ناجائز کہنے کی گنجائش ہو، لہذا جولوگ بھی احقاق حق کے نام پر ارباب جل و عقد کی، ذمہ داروں کی یا امیر شریعت کی کردار کشی کررہے ہیں انہیں باز آجانا چاہیے اور سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ انتخاب امیر شریعت کے بعد مسلمانانوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے
اسمعوا وأطيعوا وإن استعمل عليكم عبد حبشي (الحديث)
ترجمہ : تم اپنے امیر کی سمع و طاعت کرو اگر چہ کوئی حبشی غلام تمہارا امیر بن جانے ۔
مذکورہ روایت کے ذریعے مسلمانوں کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ انتخاب امیر کے بعد مسلمان ہر جائز معاملے میں اپنے امیر کی اطاعت کریں، جس کے لازمی معنی یہ ہویے کہ انتخاب امیر کے بعد مسلمانوں کے لئے لیت اور لعل کی گنجائش نہیں ہے، ان کام اگر کچھ ہے تو بس اتنا کہ امیر شریعت کے جائز احکام کو مانیں، ناجائز احکام کو ماننے سے انکار کریں، خواہ امیر کوئی بھی ہو، حتی کہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو اب ظاہر ہے کہ جس قوم کواطاعت امیر کے معاملے میں اس قدر احتیاط برتنے کی ہدایت دی گئی ہو اس قوم کے چند افراد اگر احتیاط کے بجائے بداحتیاطی پر آمادہ ہوجائیں تو کم از کم سماج کے بااثر افراد کو ضرور اپنا کردار اداکرناچاہیے، ورنہ ملت کے مفادات کو زک پہونچے گا، اللہ کا شکر ہے کہ امیر شریعت کے لیے جس شخصیت کا انتخاب عمل میں آیا ہے وہ ہر اعتبار سے اس عہدے کے لیے موزوں ہیں، اللہ تعالی نے انہیں گوناگوں اوصاف سے نوازا ہے، وہ ایک طرف جہاں خاندان رسالت کے چشم و چراغ ہیں تو دوسری طرف دیندار ، منکسرالمزاج، بے انتہا متواضع اورخوب متحرک و فعال بھی ہیں، قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں مہارت اور بڑے اہم اداروں میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں، مختلف عالمی زبانوں پر گرفت ہے، جہاں دیدہ ہیں، متعدد ممالک کا دورہ کرچکے ہیں،جرات و عزیمت تو وراثت میں ملی ہے، نہ جانے لوگ کیا کیا سوچتے ہیں لیکن امیر شریعت کے کام کرنے کا انداز اور مقصد سے بے پناہ لگن دیکھ کر اہل نظر افراد کے لئے یہ طے کرنا آسان ہوجاتاہے کہ حالات کے تقاضے کے مطابق ان شاء اللہ کام ہوگا اور ملت کو وہ فائدہ پہونچے گا جو شاید اب تک نہیں پہونچ سکا ہے، شرط بس اتنی ہے کہ مسلمان دل و جان سے امیر شریعت کی اطاعت کریں اور کام میں مکمل تعاون کریں،اگر مسلمان ایسا کریں گے تو آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنا کچھ آسان ہوگا، ان شاء اللہ ورنہ دشواریاں پیدا ہوں گی ۔
کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا
ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تُو