زبان اور تہوار کے نام پر نفرت پیدا کرنے کی کوشش

سہیل انجم
راقم السطور نے جب یہ خبر پڑھی کہ ملبوسات کے ایک مشہور برانڈ ’فیب انڈیا‘ کو اپنا ایک اشتہار محض اس وجہ سے ہٹا دینا پڑا کہ اس میں اردو کا لفظ استعمال کیا گیا تھا تو بڑی حیرت ہوئی۔ بی جے پی یوتھ ونگ کے سربراہ تیجسوی سوریہ نے اس اشتہار پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’دیوالی جشن رِواز (رواج) نہیں ہے‘۔ انھوں نے اسے ہندو تہواروں کے ’ابراہیمی کرن‘ سے تعبیر کیا اور کہا کہ اس ’جرم‘کی پاداش میں مذکورہ کمپنی کو مالی نقصان سے دوچار ہونا چاہیے۔ اس کے بعد فیب انڈیا کے خلاف ایک مہم چل پڑی اور اسے مجبور ہو کر اپنا یہ اشتہار واپس لینا پڑا۔ اس اعتراض پر افسوس بھی ہوا، غصہ بھی آیا اور اعتراض کرنے والوں کے ذہنی دیوالیہ پن پر ماتم کرنے کو جی بھی چاہا۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ اشتہار دیوالی سے متعلق نہیں تھا۔ اس کی وضاحت کمپنی نے بھی کی اور بتایا کہ دیوالی کلکشن بعد میں آنے والی ہے۔ دوسرے یہ کہ اردو لفظ کا املا غلط تھا۔ اسے ’رِواز‘ لکھا گیا جبکہ اصل لفظ ’رواج‘ ہے۔ اشتہار میں جو زبان استعمال کی گئی اس سے بھی نہیں لگتا کہ یہ دیوالی کلکشن کا اشتہار ہے۔ البتہ اس میں روشنیوں کی بات کی گئی ہے۔ اور سب سے اہم اور خطرناک بات یہ ہے کہ اردو لفظ کی مخالفت کی وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے۔ اب بتائیے اردو کہاں سے صرف مسلمانوں کی زبان ہو گئی اور کسی زبان کے لفظ کے استعمال سے کسی تہوار کا مرتبہ کیسے گھٹ گیا۔ اردو تو ہندو، مسلم، عیسائی سب کی زبان ہے۔ اس زبان کے فروغ میں ہندوؤں کی خدمات مسلمانوں سے کم نہیں ہیں۔ اعتراض میں کہا گیا کہ ’یہ ابراہیمی کرن‘ کی کوشش ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان تو اردو تھی ہی نہیں۔ بلکہ اس وقت تک تو اردو پیدا بھی نہیں ہوئی تھی۔ تو پھر اسے ابراہیمی کرن کیسے کہا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب بہت صاف ہے کہ مذکورہ اصطلاح کا استعمال کرکے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
جس طرح اس معاملے کو اٹھایا گیا اور اسے ہندووں کے تہوار کی تضحیک قرار دیا گیا مجھے ڈر ہے کہ کہیں مسلمانوں پر یہ الزام عاید نہ کر دیا جائے کہ وہ ’شاعری جہاد‘ اور ’لٹریچر جہاد‘ چھیڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اردو ادب و شاعری میں نہ صرف دیوالی بلکہ ہندؤوں کے دیگر تہواروں پر بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ہندو مذہب کی مہان ہستیوں کی شان میں قصیدے لکھے گئے اور مضامین قلمبند کیے گئے ہیں۔ مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ اگر تعصب اسی طرح بڑھتا رہا تو یہ نہ کہہ دیا جائے کہ اقبال نے یہ شعر لکھ کر کہ ’ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز، اہل وطن سمجھتے ہیں اس کو امام ہند‘ مریادا پرشوتم کی توہین و تذلیل کی ہے۔ احتجاجی تحریکوں میں گرمی اور جوش پیدا کرنے کے لیے ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ لگایا جاتا ہے اور یہ نعرہ سبھی لگاتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آگے چل کر اسے بھی مسلمانوں کا نعرہ قرار دے دیا جائے۔ ہندو مذہب کی بہت سی مقدس کتابوں جیسے کہ وید، پران اور گیتا کے اردو میں بے شمار تراجم ہوئے ہیں۔ کہیں یہ نہ کہہ دیا جائے کہ مسلمانوں نے ان تراجم کی مدد سے ہندوؤں کے پوتر گرنتھوں کو اَپوتر کر دیا ہے۔ اردو کے متعدد شعرا نے ہولی، دیوالی، دسہرہ اور دیگر تہواروں پر نظمیں لکھی ہیں ، کیا اردو کی مخالفت کرنے والے اسے نظرانداز کر سکیں گے۔ ہندوستان مشترکہ تہذیب و ثقافت کا ملک ہے۔ یہاں ہر مذہب کے تہوار ہر مذہب کے پیروکار مل کر مناتے ہیں۔ کیا پریم چند کے افسانے ’عید گاہ‘ کو کوئی شخص فراموش کر سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ خود تیجسوی سوریہ نے بھی یہ کہانی پڑھی ہوگی۔ ہندو تہواروں پر نظمیں لکھنے والوں میں نظیر اکبرآبادی سرفہرست ہیں۔ انھوں نے دیوالی پر بھی نظم لکھی ہے۔ جس کا پہلا بند یوں ہے:
ہراِک مکاں میں جلا پھر دیا دیوالی کا
ہراک طرف کو اجالا ہوا دیوالی کا

کسی کے دل کو مزہ خوش لگا دیوالی کا
عجب بہار کا ہے دن بنا دیوالی کا

 شاد عارفی کی نظم دیوالی کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں:
ہو رہے ہیں رات کے دیوں کے ہر سو اہتمام
صبح سے جلوہ نما ہے آج دیوالی کی شام

ہو چکی گھر گھر سپیدی دھل رہی ہیں نالیاں
پھرتی ہیں کوچوں میں مٹّی کے کھلونے والیاں

دوسرے متعدد شعرا نے بھی دیوالی پر نظمیں لکھی ہیں۔ کس گنگا جمنا میں ان نظموں اور اشعار کا جل پرواہ کیا جائے گا؟
دیوالی کو ہندووں کا تہوار اور اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دینے پر ہنسی بھی آئی کہ آج کی سیاست نے لوگوں کو کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ خاکسار کو اپنے بچپن کا واقعہ یاد آرہا ہے۔ ہمارے گاو ¿ں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ہندو اقلیت میں ہیں۔ لیکن جب دیوالی کا موقع آتا ہے اور پڑوسی مواضعات کے کمھار مٹی کے چھوٹے چھوٹے برتن اور دیے بنا کر گاو ¿ں میں فروخت کرنے لاتے ہیں تو مسلم والدین بھی اپنے بچوں کے لیے برتن اور کھلونے خریدتے ہیں تاکہ ان کے بچے بھی اپنے دروازے پر دیوالی منا سکیں۔ بچے مٹی کے گھروندے بناتے اور ان میں دو چار دیے بھی روشن کرتے ہیں۔ کھِیل بتاشوں کا بھی انتظام ہوتا ہے اور بچے ان کا آپس میں ان کا تبادلہ بھی کرتے ہیں۔ دیوالی کے روز گپتا برادری کے لوگ خوب مٹھائیاں بنا کر بازار میں اپنی دکانوں کو سجاتے ہیں اور ان مٹھائیوں کے خریداروں کی اکثریت مسلمان ہوتی ہے۔ لہٰذا کیا برائی پر اچھائی کی فتح کو کسی ایک مذہب کے خانے میں محدود کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح رمضان کے مہینے میں بعض ہندووں کی جانب سے مسلمانوں کے لیے افطار کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان کو مسلمانوں کی زبان کہہ کر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ آج کے اس گئے گزرے دور میں بھی ہندو ادیبوں اور شاعروں کی کمی نہیں ہے۔ یہ ادبا وشعرا اور صحافی ہندوستان میں بھی ہیں اور دنیا کے ان تمام ملکوں میں بھی ہیں جہاں اردو بولی اور پڑھی جاتی ہے۔ کیا جشن اردو کا عظیم الشان اہتمام کرنے کی وجہ سے ریختہ پر ان غیر مسلم نوجوانوں کا مذہب تبدیل کرنے یا ان کا مذہب بھرشٹ کرنے کا الزام عاید کیا جا سکتا ہے جو لاکھوں لاکھ کی تعداد میں اس جشن میں شرکت کرتے ہیں۔ پنڈت دیا شنکر نسیم، دیا نرائن نگم، منشی نول کشور، رتن ناتھ سرشار، مہاراجہ سرکشن پرساد، منشی نوبت رائے نظر، فراق گورکھپوری، سرور جہان آبادی، پنڈت برج نرائن چکبست، پروفیسر تلوک چند محروم، پنڈت ہری چند اختر، جسٹس آنند نرائن ملا، مالک رام، عرش ملسیانی، گوپال متل، کنھیا لال کپور، اوپندر ناتھ اشک، کرشن چندر، راج بہادر گوڑ، فکر تونسوی، ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد، کشمیری لال ذاکر، رام لعل، گیان چند جین، جوگیندر پال، راج نرائن راز، میلارام وفا، منشی ہرگوپال تفتہ، پنڈت دتاتریہ کیفی، دھرمیندر ناتھ، کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر، مہیندر سنگھ بیدی، اور ابھی جو ہم سے جدا ہو گئے یعنی گلزار دہلوی اور نند کشور وکرم اور موجودین میں گوپی چند نارنگ، ستیہ پال آنند، اوم پرکاش سونی، پی پی سری واستو رند اور چندر بھان خیال وغیرہ کے بارے میں کیا کہیں گے۔ کیا یہ کہیں گے کہ انھوں نے اردو کی خدمت میں اپنی زندگی گزار کر اپنا مذہب ناپاک کر لیا یا یہ لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ جس طرح ہندو مہاپرشوں اور ہندو تہواروں کی شان میں نظمیں لکھنے اور مضامین قلمبند کرنے والوں کی ایک پوری فوج ہے اسی طرح حمد، نعت، منقبت اور سلام لکھنے والے غیر مسلموں کی بھی بہت بڑی تعداد ہے۔ کیا مہیندر سنگھ بیدی سحر دہلوی کے ان نعتیہ اشعار کو کوئی فراموش کر سکتا ہے:

ہم کسی دین سے ہوں صاحب کردار تو ہیں
ہم ثنا خوان شہ حیدر کرار تو ہیں

نام لیوا ہیں محمد کے پرستار تو ہیں
یعنی مجبور پئے احمد مختار تو ہیں

عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں

کیا کوئی چندربھان خیال کی منظوم سیرت لولاک کو فراموش کر سکتا ہے یا دھرمیندر ناتھ کے مرتب کردہ نعتیہ مجموعے کو بھلا سکتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہب اور زبان کے نام پر عوام کو تقسیم کرنے کے بجائے انھی بنیادوں پر ان کو آپس میں جوڑا جائے۔ ہندوستان ایک ملی جلی تہذیب کا نام ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں ہندو رسوم و رواج کے اثرات اسلام پر بھی پڑے ہیں اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی متاثر ہوئے ہیں۔ بزرگان دین کے مراکز سب کے لیے مرجع خلائق ہیں۔ خدا را اس تہذیب کو ملیا میٹ مت کیجیے۔ اگر یہ مشترکہ تہذیب مٹ گئی تو ہندوستان کی امتیازی شناخت بھی ختم ہو جائے گی۔ ہر معاملے کو ہندو مسلم چشمے سے دیکھنے والوں کو یہاں کی صدیوں پرانی تہذیب و ثقافت سے متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
sanjumdelhi@gmail.com

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com