عالمی یوم اردو ، فروغ اردو کی تجاویز اور اردو والے

یہ صرف سید احمد خان صاحب کو اکیلے نہیں بلکہ ان سبھی کو سوچنا ہوگا جو مردم شماری کے فارم میں مادری زبان کے کالم میں اردو درج کرتے ہیں
اشرف علی بستوی
ہندوستان میں عالمی یوم اردو کی تحریک کے روح رواں ڈاکٹر سید احمد خان صاحب قابل صد مبارکباد ۔ آپ کا جنون کی حد تک اردو کے فروغ کے لیے کوشاں رہنا ہی ا س تحریک کی کامیابی ہے بلکہ میں یہ کہوں تو غلو نہ ہوگا کہ ہندوستان میں یہ تحریک آپ کے دم سے گزشتہ 25 برس سے زائد عرصے سے رواں دواں ہے ۔ کل میں نے لگ بھگ تین درجن سے زائد لوگوں سے ملاقات کی ہوگی ہم سب نے ایک دوسرے کے احوال دریافت کیے ،ایک بات سب کے زبان پر مشترک تھی کہ یہ سید صاحب کا خلوص ہے جو ہمیں ہر سال اس روز کھینچے لاتا ہے ۔
ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں کسی بھی پروگرام کی معمولی سی مالی اعانت کے بدلے توقع کی جاتی ہو بلکہ مطالبہ کیا جاتا ہو کہ صدارت یا مہمان خصوصی کی کرسی دیں گے ؟
آپ نے ہمیشہ کی طرف اس بار بھی محفل آراستہ کی پیارا سا اسٹیج سجایا اسے مہمانوں کے حوالے کیا اور خود سامعین کی بھیڑ میں گم ہوگئے، گزشتہ 15 برس سے جب سے دہلی میں ہوں ہر بار یہی منظر نوٹ کیا ہے ۔
یقینا یہ آپ کا خلوص ہے ، اردو کا حقیقی فروغ آپ کا مقصد ہے جو آپ کے عمل سے صاٖف صاف نظر آتا ہے ۔ ورنہ اسی دلی میں اردو کے فروٖغ کا سرخ اینٹوں سے تعمیر ایک پیارا سا قومی ‘بھون’ ہے ، دہلی کے قلب میں ایک نہایت خوبصورت درو دیوار والا گھر’ بھی ہے اور اکیڈمی تو ہے ہی لیکن ان تینوں کو یوم اردو منا نے کی توفیق نہیں ہوئی ، ابھی یہ لوگ اسی پر دست گریباں ہیں کہ علامہ اقبال کے یوم پیدائش کو یوم اردو منایا جائے یا کوئی اور دن تلاش کریں وہ ابھی تلاش میں ہیں اور آپ نے سلور جبلی مکمل کرلی ہے ۔ اس کے لیے مبارکباد ۔ اب کوئی اس دن کو تبدیل کرتا رہے آپ نے عالمی سطح پر متعارف کرا دیا ہے ۔
ہر سال کی طرح اس بار بھی اردو کے فروغ پر قیمتی مذاکرہ ہوا تجاویز پیش کی گئیں ، پروگرام کے دوران اردو سے وابستگی اور فروغ کے جذباتی لمحات بھی دیکھے گئے ، لیکن میرا ایک سوال آپ سے بھی ہے اور ان سبھی مقررین سے بھی کہ ہر بار اردو کے مسائل اور اس کے حل کے عنوان سے پر الگ الگ طریقے سے بات ہوتی ہے لیکن کبھی گزشتہ برس کیے گئے اعلاتات اور تجاویز کا جائزہ کیوں نہیں لیا جاتا ؟ جو اہداف طے کیے جاتے ہیں ان پر کیا پیش رفت ہوئی اس پر بات کیوں نہیں ہوتی ؟
کم ازکم اس بار ایک ملک گیر سطح کا سروے ہی کر لیا جائے کہ ملک میں اردو کس زینے پر کھڑی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں اردو سے بے اعتنائی کا مرض کس اسٹیج میں ہے ، کیا ابھی علاج ممکن ہے ؟ میرا خیال ہے سرکار کے مالی تعاون سے چلائے جانے والے اردو اداروں سے مل کر یہ کام کرایا جا سکتا ہے ۔
صاحبو ! سید صاحب کی کاوشیں بہت اہم ہیں اور قابل قدر ہیں لیکن ان سمیناروں اور کانفرنسوں کی سفارشات تجاویز زمین پر کیسے اتاری جائیں یہ صرف سید احمد خان صاحب کو اکیلے نہیں بلکہ ان سبھی کو سوچنا ہوگا جو مردم شماری کے فارم میں مادری زبان کے کالم میں اردو درج کرتے ہیں ۔
(مضمون نگار ایشیا ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com