بابری مسجد کی شہادت

شمسیدہ خاتون
آج ہی کے دن ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ کو بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا. یہ وہ دن ہے جو پورے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے سیاہ دن کے نام سے جانا جاتا ہے .آج ہی کے دن بڑے بڑے نیتاؤں کی موجودگی میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا. اس وقت اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت تھی اور کلیاں سنگھ وزیر اعلیٰ  تھے  .
بابری مسجد کی تاریخ –
١٥٢٨- میں ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ بابر  کے کمانڈر میر باقی نے اتر پردیس کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد کی  تعمیر  کروائی تھی ہندوں کے عقیدے کے مطابق بابری مسجد  وہ مقام ہے جہاں رام مندر کو توڑ کر بابری مسجد کی تعمیر  کی گئی_ بابری مسجد کی جب تعمیر کی گئی تو وہاں نہ کوئی مندر تھا نہ مسجد ہندوں کا دعوا ہے کے وہاں سولھوی صدی میں رام مندر تھا . ١٨٨٥ میں ایک ہندو مذہبی رہنما رگھوبیر داس نے مسجد کے باہر اپنی عارضی رہایش گاہ قائم کرنے کے لئے ایودھیا شہر کے ضلع فیضاباد کی عدالت میں درخواست دائر کی . اسکا کہنا تھا کے ہمیں مسجد کے باھر مندر بنانے کی اجازت دی جاۓ . میرے شردھلوں کوٹھنڈہ کے موسم میں یہاں آنے جانے میں بہت تکلیف ہوتی ہے . اس وقت فیضاباد عدالت کے وکیل جے کیشن تھے جنہوں نے مسجد کے باھر مندر بنانے کی اجازت نہیں دی صاف انکار کر دیا . پھر ١٩٤٩ میں ہندو مذهب کے پیروکارو اور اہم رہنماؤں نے بابری مسجد کی گنمبد میں بھگوان رام کی مورتیا سجا دی اور ١٩٥٠ میں کچھ ہندوں نے فیضاباد کی عدالت میں یہ اپیل کی کے مسجد کی گنبد میں جو مرتیاں سجائی گئی ہے  وہاں پوجا ارچنا کی اجازت دی جاے پھر ١٩٥٩ میں ہندوں نے قانونی طور پر قدم آگے رکھتے ہوئے فیضاباد کی عدالت میں یہ درخواست دائر کی کہ بابری مسجد کی جگہ کو ہندوں کے قبضہ میں ديا جائے
١٩٨١ میں سنی وقف بورڈ نے مسجد کی زمین کے اختیارات حاصل کرنے کے لیۓ عدالت میں رجوع کیا پھر ١٩٨٦میں فیضاباد کی عدالت نے ہندو رہنماؤں کی دی گی درخواست پر عمل کرتے ہوئے ہندوں کو مسجد میں بھگوان رام کی پوجا کرنے کی اجازت  دے دی_
6 دسمبر ١٩٩٢ کو ہندوں نے اپنی حد پار کرتے ہوئے بابری مسجد کو شہید کر دیا مسجد کی شہادت کے فوری بعد بھارت میں تنازعہ پھوٹ پڑا تقریبا چند ماہ میں ٢٠٠٠ افراد کا قتل ہوا اور وزیراعظم پی وی نر سمہا راوں نے مسجد کی تعمیر نو کرانے کا وعدہ کیا وہی ١٦ دسمبر ١٩٩٢ میں مسجد انہدام کی جانچ کے لیے ایم ایس لبراہن کمیشن کی تشکیل عمل میں آئی
جنوری ٢٠٠٢ میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپی نے اپنے دفتر میں ایک ایودھیا محکمہ شروع کیا جسکا کام تنازعہ کو حل کرنے کے لیے ہندو اور مسلمان گفت و شنید کرنا تھا
ستمبر ٢٠٠٣ میں عدالت نے فیصلہ سنایا کے مسجد منہدم کرنے کے لیے اکسانے والے ٧ ہندو لیڈر تھے
٢٣ ستمبر ٢٠١٠ میں الہ باد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے تاریخی فیصلہ سنایا جس میں زمین کا بندر بانٹ کر دیا گیا فلحال یہ معاملہ سپریم  کورٹ میں سماعت ہے . ٢٠١٦ میں ہندو مذہب ہی کے لوگوں نے بابری مسجد کی جگہ پر مندر تعمیر کرنے کی درخواست سپریم کورٹ می دائر کی . ٢٠١٧ میں سپریم کورٹ نے مسجد کے معاملوں کو کورٹ سے باھر حل کرنے کا حکم دیا .پھر جولائی ٢٠١٨ میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت اور اسکی زمین سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کیا لیکن اسی وقت ایک ہندو جج نے جنوری ٢٠١٩ میں کیس کی سماعت کا فیصلہ کرنے کے لئے خود کو بینچ سے الگ کر لیا . اسکے بعد جنوری ٢٠١٩ کے آخر میں فیصلہ سنانے کے لئے 5 بنچوں میں فیصلہ لیا . فروری سے اگست میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین کے مالیکانہ حقوق سے متعلق دو فریقین میں ثالثی کرنے کی تجویز دی . اور اگست تک ثالثی عمل کو مکمّل کرنے کا حکم دیا . ٢٠١٩ میں ہی ثالثی کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئ .پھر اگست ٢٠١٩ کے آغاز میں ہی سپریم کورٹ نے مسجد کے حوالے سے فیصلہ سنانے کے لئے روزانہ کی بنیادوں پر سماعت کرنے کا آغاز کیا اور اعلان کیا کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی ملازمت سے سبکدوش سے قبل ۱۸ نومبر تک فیصلہ سنا دیا جاۓ گا . سپریم کورٹ نے فیصلہ سنانے کے لئے ہونے والی سماعتوں کا بھی دن مقرّر کر دیا تھا .اچانک سے انہونے جو فیصلہ کا دن مقرّر کیا تھا اسے پہلے ہی فیصلہ سنانے کا من بنا لیا اور اچانک سے ٩ نومبر ٢٠١٩ کو سپریم کورٹ نے مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی دوسری جگہ مسجد بنانے کا بھی حکم دیا . جہاں پر پہلے بابری مسجد کی ۶۷ ایکڑ زمین تھی اسکی جگہ صرف پانچ ایکڑ زمین دینے کا فیصلہ سنایا، وہی پورے دیش بھر کے مسلمانوں نے اس فیصلہ کو صبر اور تحممل سے کام لیتے ہوئے قبول کیا ۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com