آفسپا قانون – ضرورت یا ظلم

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
دسمبر کی 4 تاریخ کو ناگالینڈ کے مون ضلع میں فوج نے ایک آپریشن کے دوران 14 افراد کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا، ناگالینڈ میں آزادی کے وقت سے ہی علیحدگی پسند تحریکیں پورے زور شور سے متحرک رہی ہیں، تاہم مارے گئے 13 افراد کا تعلق کونیک قبیلے سے تھا جو کہ عموما حکومت کا حامی تسلیم کیا جاتا ہے، اس حادثے کے بعد سلامتی افواج کو مخصوص اختیارات دینے والے قانون آرمڈ فورسیز اسپیشل پاورس ایکٹ کو لے کر بحث شروع ہوگئی ہے، یہ قانون ہماری افواج کو لامحدود اختیارات فراہم کرتے ہیں حتی کہ کوئی بھی فوجی کسی بھی شہری پر صرف شک کی بنیاد پر گولی چلا سکتا ہے، اور اس قتل کے جرم میں اس فوجی کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کی جاسکے گی، اس حادثے کے بعد ایک بار پھر آفسپا قانون کو ختم کرنے کی آواز اٹھنی شروع ہوگئی ہے، ۷ دسمبر کو ناگالینڈ کیبنیٹ نے آفسپا قانون کو ختم کرنے کی سفارش منظور کی ہیں، آفسپا قانون کے خلاف ناگالینڈ و نارتھ ایسٹ کے دیگر صوبوں میں ایک لمبے عرصے سے آوازیں اٹھتی رہی ہیں، آفسپا قانون کے خاتمے کی مانگ لے کر ہی سال 5 نومبر 2000 میں سماجی کارکن اروم شرمیلا بھوک ہرتال پر بیٹھی تھیں اور 16 سال مکمل کرنے کے بعد9 اگست 2016 میں اپنی بھوک ہڑتال ختم کی۔
8 اگست 1942 میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے بامبے سیشن کے دوران مہاتما گاندھی نے “بھارت چھوڑو تحریک” کی بنیاد رکھی تھی، بھارت چھوڑو تحریک نے انگریز حکومت کے لئے اس ملک میں اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنا مشکل ہوگیا تھا، انگریز حکومت نے اس تحریک کو اپنی فوجی طاقت کے زور پر ختم کرنے کے لئے 15 اگست 1942 کو چار آرڈیننس پاس کئے، جو کہ “بنگال ڈسٹرب ایریاز (اسپیشل پاورس آف آرمڈ فورسیز) آرڈیننس” ، “آسام ڈسٹرب ایریاز (اسپیشل پاورس آف آرمڈ فورسیز) آرڈیننس”، “ایسٹ بنگال ڈسٹرب ایریاز (اسپیشل پاورس آف آرمڈ فورسیز) آرڈیننس” ، اور “یونائیٹیڈ پروونسیز ڈسٹرب ایریاز (اسپیشل پاورس آف آرمڈ فورسیز) آرڈیننس” شامل تھے، 1947 میں آزادی کے بعد ہماری حکومت نے تقسیم ہند کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والی داخلی دراندازیوں کو روکنے کی غرض سے ان آرڈیننس کو دوبارہ نافذ کیا، لیکن آفسپا کو باقاعدہ قانون کی شکل 1958 میں ملی جب وزیراعظم جواہرلال نہرو نے پارلیمنٹ کے ذریعے یہ قانون پاس کیا۔
آفسپا قانون کا اطلاق نارتھ ایسٹ صوبوں کے علاوہ جموں وکشمیر اور پنجاب میں نافذ کیا گیا، سب سے پہلے پنجاب سے اس قانون کا نفاذ ہٹایا گیا جس کے بعد تریپورہ اور میگھالیہ سے بھی اس کا خاتمہ ہوا تاہم جموں وکشمیر، آسام، ناگالینڈ، میزورم، منی پور اور اڑوناچل پردیش میں ابھی تک اس قانون کو نافذ رکھا گیا ہے جہاں سلامتی افواج کو غیر معمولی اختیارات و مراعات حاصل ہیں۔ یہ قانون صوبے کے گورنر یا مرکز کے ماتحت صوبوں کے منتظم کو ہی یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی صوبے یا صوبے کے کسی بھی حصے کی ڈسٹرب علاقہ کے طور پر نشاندہی کریں۔ دستور ہند کی آرٹیکل 355 کے تحت مرکزی حکومت کی دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے ہر صوبے و علاقے میں داخلی امن و امان قائم رکھے اور ہر طرح کے خلل سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے، اسی آرٹیکل کے تحت مرکزی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی علاقے کو ڈسٹرب علاقہ تسلیم کرکے وہاں مرکزی قانون آفسپا کے تحت مرکزی افواج کو غیر معمولی اختیارات کے ساتھ تعینات کردے، ان غیر معمولی اختیارات میں فوج کسی کو بھی بغیر کوئی وجہ بتائے یا وارنٹ لئے یا دکھائے بغیر گرفتار کرسکتی ہے، کسی کے گھر یا کسی بھی جگہ کوئی سرچ وارنٹ لئے بغیر داخل ہوکر سرچ کرسکتی ہے اور اس سرچ یا تلاشی کے لئے فوج کو کسی بھی مروجہ قانون کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری نہیں ہوگا، نیز صرف شک کی بنیاد پر ہی کسی کے اوپر گولی چلائی جاسکتی ہے نیز کسی کی جان جانے پر بھی اس فوجی کے خلاف قتل کا مقدمہ درج نہیں ہوگا اور نا ہی مروجہ قوانین کے تحت پولیس گرفتار کرسکتی ہے اور نا ہی مروجہ عدالتی نظام کے تحت یا فوجداری قوانین کی روشنی میں اس کو عدالت میں پیش کرکے مقدمہ چلایا جائے گا۔
1958 کے قانون “آرمڈ فورسیز اسپیشل پاورس ایکٹ” ( آفسپا ) کے خاتمے کے لئے 1997 میں “ناگاپیوپلس موومنٹ آف ہیومن رائٹس” نے یونین آف انڈیا کو پارٹی بناتے ہوئے پٹیشن داخل کیا تھی، اس پٹیشن میں آفسپا کی دستوری حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا، نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) بھی اس مقدمے میں پارٹی یعنی رفیق مقدمہ تھا، بحث میں کہا گیا کہ صوبے میں لا اینڈ آرڈر کو قائم کرنا یا بحال رکھنا صوبہ کی دستوری ذمہ داری ہے، پارلیمنٹ صوبے کے لا اینڈ آرڈر کے ضمن میں کوئی قانون نہیں پاس کرسکتا ہے، دستور کے آرٹیکل 352 میں ایمرجنسی کے نفاذ سے متعلق شقات درج کی گئی ہیں، جس میں صوبے کی پولیس و انتظامیہ کے اختیارات مرکزی حکومت کے پاس چلے جاتے ہیں، جب کہ آفسپا قانون کے نفاذ کے بعد صوبے کی پولیس و انتظامیہ کے اختیارات منتقل ہی نہیں بلکہ پورے نظام کے اختیارات ہی سلب ہوجاتے ہیں، حتی کہ عدلیہ کے اختیارات بھی محدود ہوجاتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے متفقہ طور پر اس قانون کو قائم و دائم رکھتے ہوئے پٹیشن کو خارج کردیا، تاہم سپریم کورٹ نے یہ تشریح ضرور کردی کہ اس قانون کا اطلاق وقتی طور پر ہی کیا جائے گا نیز حالات کے استوار ہوتے ہی اس قانون کو واپس لے لیا جائے گا، اس کے ساتھ ہی ساتھ کسی بھی صوبے یا علاقے کو ڈسٹرب علاقہ تسلیم کرنے سے پہلے صوبائی حکومت کی رائے لینی ضروری ہوگی نیز وقتا فوقتا صورت حال کا جائزہ لینا ضروری ہوگا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ حکم تو دیا کہ فوج اس قانون کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بھی کم سے کم طاقت کا ہی استعمال کرے گی تاہم حالیہ حادثہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تارتار کردیا۔ آفسپا کی دفعہ 6 کے تحت متاثر شخص کے ذریعے اس کے ساتھ ہوئے حادثہ میں اختیارات کے غلط یا ناجائز استعمال کی شکایت ایک شکایت نامہ دے کر کی جائے گی، انکوائری کے بعد اگر الزامات صحیح ثابت ہوئے تو متاثرہ شخص کو معقول معاوضہ دیا جائے گا جب کہ متعلقہ فوجی یا فوجی افسر کے خلاف قانونی کاروائی کے لئے سینکشن آرڈر فراہم کیا جائے گا۔
2004 میں کانگریس حکومت نے سپریم کورٹ کے ریٹائر جج جسٹس جیون ریڈی کے ماتحت ایک پانچ ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی کی تشکیل دی جس سے ہم جسٹس جیون ریڈی کمیشن کے نام سے واقف ہیں، اس کمیٹی نے 2005 میں اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا آفسپا قانون ظلم و زیادتی کا ایک نشان بن گیا ہے نیز اس قانون کو ختم کرنے کی سفارش پیش کیں۔ اس کے بعد ایک دوسرا کمیشن ویرپا موئلی کی قیادت میں بنایا گیا لیکن کسی بھی حکومت نے ایمانداری کے ساتھ اس قانون کو نا تو ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوششیں کیں اور نا ہی اس کے غلط استعمال کو روکنے کی غرض سے آفسپا قانون میں کوئی ترمیم و تنسیخ کی۔
اس قانون کے تحت حقوق انسانی کی خلاف ورزی کا حالیہ حادثہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، 2012 میں منی پور کی ایک سماجی تنظیم “اکسٹراجوڈیشیل اکزیکیوشن ویکٹم فیملیز ایسوسئیشن آف منی پور” نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کرتے ہوئے دعوی کیا کہ 1979 سے 2012 کے دوران سلامتی افواج کے ذریعے اس کالے قانون آفسپا کا غلط استعمال کرتے ہوئے کل 1528 فرضی انکاونٹر کئے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے تین رکنی کمیٹی کے ذریعے 2009 کے 6 فرضی انکاونٹر کے معاملات میں انکوائری کا حکم دیا تھا اور اس کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق وہ تمام 6 معاملات میں فوج نے فرضی انکاونٹر کیا تھا۔ اگر ہماری مرکزی حکومت واقعی امن و امان کی بحالی کو لے کر سنجیدہ ہے تو کالے قوانین کے ذریعے عوام پر ظلم و ستم یا فوج کا خوف طاری کرنے کے بجائے عوام میں دستور ، عدلیہ و حکومت کے تئیں ایمان و اطمینان قائم کرنے کی کوشش کرے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com