اتر پردیش کے مسلمانوں کی معاشی بد حالی کا ذمہ دار کون؟

مسلمانوں کی اپنی سیاسی قیادت نہ ہونے کے سبب ان کی آواز اٹھانے والا بھی کوئی نہیں ہے

کلیم الحفیظ، نئی دہلی

کسی فرد کی خوش حالی اور ترقی اس کی معاشی حالت پر منحصر ہے۔ امیر آدمی کو سب کچھ مل جاتا ہے۔غریب صرف آرزو کرکے رہ جاتا ہے۔ پیسہ ہے تو بچے بھی اچھے اسکول میں تعلیم پاتے ہیں۔ بڑے کاروبار بھی کیے جاسکتے ہیں۔ سیاست میں بھی مقام بنایا جاسکتا ہے۔ پیسہ نہیں ہے تو اپنا سایہ بھی طعنے دینے لگتا ہے۔کہتے ہیں کہ کسی کو جھکانا ہو تو اس کے پیٹ پر لات ماردو۔ یعنی اس کی معاشی سرگرمیوں پر چوٹ کردو۔ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ مسلمانوں کی معاشی سرگرمیاں ایک ایک کرکے ختم کی جاتی رہیں اور مسلمان کارخانے دار سے مزدور ہوگئے۔ اتر پردیش جہاں کے ہر بڑے شہر میں ایک بڑی صنعت تھی اور اس صنعت میں مسلمان غالب تھے۔ آج وہ تمام صنعتیں یا تو دم توڑ رہی ہیں یا پھر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی ہیں۔ کانپور میں چمڑے،فیروزآباد میں چوڑیاں،مرادآباد میں پیتل کے برتن،لکھنو میں چکن کڑھائی، رام پور کے چاقو، بریلی کا سرما، قنوج کا عطر، بنارس کی ساڑی، سہارنپور میں ہینڈی کرافٹ،علی گڑھ کے تالے اور میرٹھ کی قینچیاں زمانے بھر میں مشہور ہوا کرتی تھیں، اور ان میں سے ہر ایک صنعت میں مسلمان آگے تھے، وہی اس کے بہترین کاریگر تھے، لیکن رفتہ رفتہ حکومت نے سازش کرکے منصوبہ بند طریقے پر ان صنعتوں کو مسلمانوں سے چھین لیا۔ کپڑا بنائی اور رنگائی تک کے کام جو خالص مسلمانوں سے وابستہ تھے آج غیرمسلموں کے کنٹرول میں ہیں۔ یہاں تک گوشت کے بڑے تاجر اور ایکسپورٹرس غیر مسلم ہیں۔

اس وقت میرے سامنے ایک رپورٹ ہے جسے 7/ جنوری کو آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے لکھنو میں جاری کیا ہے۔ اس میں اتر پردیش کے مسلمانوں کے تعلق سے چشم کشا اعداد و شمار دیے گیے ہیں۔ان اعداو شمار کا مطالعہ خون کے آنسو رلاتا ہے۔ کوئی بھی تو ایسا باعزت شعبہ نہیں جہاں ہم کسی ہم وطن قوم سے آگے ہوں، تعلیم، صحت، کاروبار، زراعت، سرکاری ملازمتیں، ہر جگہ ہم دلتوں سے بھی بہت پیچھے ہیں۔ البتہ جیلوں میں اپنی آبادی سے زیادہ ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ مسلمانوں کا ذی شعور طبقہ یہاں نہ ہو،یہاں مسلمانوں کے بڑے بڑے دارالعلوم ہیں۔ زیادہ تر ملی جماعتوں کے سربراہ اسی ریاست سے ہیں،مسلم سیاست میں بھی بڑے بڑے رہنما یہاں پیدا ہوئے، اس کے باوجود مسلمان ہر دن ڈوبتے سورج کے ساتھ پسماندگی کی مزید گہرائیوں میں جارہے ہیں۔ روزگار سے متعلق کچھ اعدا و شمار آپ بھی ملاحظہ کیجیے۔ یہ اعدار و شمار سرکاری رپورٹوں سے حاصل کیے گئے ہیں اور 2010 سے متعلق ہیں۔ مجلس کی رپورٹ میں مزید تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں۔

کسی قوم کی خوش حالی اس کی آمدنی کے بجائے اس کے خرچ سے ناپی جاتی ہے،اس لیے کہ کوئی شخص اسی وقت خرچ کرسکتا ہے جب اس کی آمدنی ہو۔ملک میں ایک فیملی ماہانہ 988 روپے خرچ کرتی ہے، اتر پردیش کا مسلمان صرف 752 روپے ماہانہ خرچ کرتا ہے۔ یعنی ایک پورا گھر 25 روپے یومیہ خرچ کرتا ہے۔ باقاعدہ ماہانہ اجرت پانے والے مزدوروں کا اوسط ملک میں 31.6ہے اور یوپی کے مسلمانوں کا یہ اوسط 25.6 ہے۔ یہی حال سروس سیکٹر میں مزدوری کا ہے۔ یوپی کے مسلمانوں کا اوسط 27.3 فیصد ہے۔جب کہ پورے ملک میں یہ شرح 32.2 فیصد ہے۔اس کا مطلب ہے کہ اتر پردیش کا مسلمان کم آمدنی والے زمرے میں سب سے نیچے ہے۔سن 1993- 94 کی ایک رپورٹ کے مطابق زراعت کے شعبے میں مسلمان 44.7 فیصد تھے جو 2009-10 میں گھٹ کر 36.5فیصد رہ گئے۔جب کے اسی شعبے میں اتر پردیش کے دلتوں کی شرح 51.4 اور او بی سی غیرمسلموں کی شرح 65.5 ہے۔ تعمیرات کے شعبے میں ریاست کا دلت 10۔2009 میں 24.8اور مسلمان 10.3 فیصد ہی ہے۔ یہاں تک 48.5 فیصد مسلمانوں کے پاس اپنا گھر تک نہیں ہے۔

سرکاری خدمات میں نمائندگی کمیونٹی کی حیثیت کا تعین کرنے کا ایک اہم اشارہ ہے۔ یہ لوگوں کو خوش حال بھی بناتا ہے اورطاقت بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور ملازمت کے سلسلے میں ان کے ساتھ غیر اعلانیہ امتیازی سلوک کی پالیسی کی وجہ سے سرکاری ملازمتوں میں ان کی نمائندگی کم ہے۔ U.Pکے ایک سروے سے واضح ہوتا ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں او بی سی مسلمانوں کا حصہ آبادی میں ان کے حصے سے بہت کم ہے۔ دوسری طرف غیر مسلم او بی سی ذاتوں کوسرکاری خدمات میں زیادہ نمائندگی دی گئی ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ ریزرویشن کا فائدہ زیادہ تر غیر مسلم او بی سی جیسے یادو، کرمی اور جاٹ حاصل کرلیتے ہیں۔اسی طرح اقلیتوں کے نام پر جو سرکاری مراعات ہیں انھیں جین،بدھ،اور سکھ سماج لیجاتا ہے۔سرکاری اعداد و شمارسے پتا چلتا ہے کہ 2015 میں یو پی پی ایس سی نے 521 امیدواروں کا انتخاب کیا تھا جن میں سے صرف 19 (3.65 فیصد) مسلمان تھے۔ اسی طرح ماتحت خدمات کے معاملے میں 2013 میں منتخب کیے گئے 1545 امیدواروں میں سے صرف 31 (2.01 فیصد) مسلمان تھے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ کے معاملے میں بھی یہی کہانی دہرائی جاتی ہے۔ ریاستی یونیورسٹیوں میں کام کرنے والے 1834 یونیورسٹی اساتذہ میں سے، صرف 57 (3.11 فیصد) مسلمان تھے۔ U.P ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعہ منتخب کردہ 727 اسسٹنٹ پروفیسرز میں سے 149 اسامیاں او بی سی کے لیے مخصوص تھیں۔ ان عہدوں کے لیے صرف 4.69 فیصد مسلمانوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔

ریاست سے باہر جاکر روزگار تلاش کرنے والوں میں مسلمان سب سے زیادہ ہیں۔ایک سروے کے مطابق اتر پردیش کے تمام مہاجرین میں 51فیصد مسلمان ہیں۔ اس کا مطلب ہے مسلمان اپنی آبادی سے تین گنا زیادہ ہیں۔باہر جانے کی ضرورت تب ہی پڑتی ہے جب کہ کسی کو اس کے اپنے مقام پر روزگار کے مواقع میسر نہ ہوں۔ یہ ہجرت اس وقت تو اچھا اشارہ ہے جب کہ وہ کسی بڑے عہدوں پر کام کرنے گئے ہوں، لیکن مسلمانوں کی یہ ہجرت بہت چھوٹے کاروباریا مزدور کی حیثیت سے ہے۔مثال کے طور پر ممبئی، دہلی میں چھوٹے کامگاروں اور مزدوروں کا تعلق دوسری ریاستوں سے ہے،ان میں بھی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔گھر سے باہر جاکر کام کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کا خاندانی نظام، بچوں کی تعلیم و تربیت، اپنے سماج کے لیے ان کی خدمات وغیرہ سب متأثر ہوتے ہیں۔

معاشی سرگرمیوں میں بینکوں کا اہم رول ہے۔مسلم علاقوں میں بینکوں کی سہولیات بھی کم ہیں،سنبھل اور بل رامپور جہاں سب سے زیادہ مسلمان ہیں، وہیں سب سے کم بینک ہیں،پھر بینکوں نے بعض مسلم علاقوں کو بلیک لسٹ کررکھا ہے، کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ ان علاقوں کے مسلموں کو بینک قرض کیوں نہیں دیتے، مسلم علاقوں میں اے ٹی ایم کی مشینیں بھی بہت کم ہیں۔ مسلم بستیوں کو ہائی وے سے جوڑنے میں بھی سرکاروں نے تعصب سے کام لیا ہے۔ سرکاروں کی جانب سے کھولے جانے والے کارخانے اور فیکٹریاں بھی مسلم بستیوں سے دور رکھی گئی ہیں۔ یہ سب کام اسی لیے ہیں کہ مسلمان خوش حال نہ ہو،وہ غریب رہے گا تو غلام رہے گا۔

سوال یہ ہے کہ یہ صورت حال کس طرح تبدیل ہوسکتی ہے۔کسی بھی قوم کی ترقی اور خوش حالی کے لیے حکومتیں ہی منصوبہ بندی کرسکتی ہیں، دلت سماج نے اپنی سیاسی قیادت کھڑی کرکے اور ریزرویشن کی بدولت آج اپنی حالت خیر امت سے بہتر کرلی ہے، اسی طرح یادو، جاٹ، کرمی، موریہ وغیرہ ہیں جن کی اپنی سیاسی لیڈر شپ نے ان کے لیے قانونی اور غیر قانونی دونوں طرح ترقی کے دروازے کھولے ہیں۔ مسلمانوں کی اپنی سیاسی قیادت نہ ہونے کے سبب ان کی آواز اٹھانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ اگر اترپردیش کے مسلمان چاہیں تو اپنی حالت بدل سکتے ہیں۔ اس کے لیے ایک ہی راستا ہے کہ مسلمانوں کو ریزرویشن دیا جائے، ایک پارٹی نے وعدہ کیا تھا لیکن پانچ سال تک حکومت میں رہنے کے باوجود اس نے مسلمانوں کے رزرویشن پر زبان تک نہیں کھولی۔اگر مسلمان سیاسی طور پر اپنی قیادت کو مضبوط کریں تو رزرویشن کے لیے حکومت کو مجبور کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی بھی نام نہاد سیکولر پارٹی نے ہمارے ساتھ ظلم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ اس وقت بھی اتر پردیش میں جو سیاسی سرگرمیاں جاری ہیں وہ کھلے عام مسلمانوں کے ساتھ بھید بھاؤ پر مبنی ہیں۔ بابری مسجد انہدام، مندر کی تعمیر، مظفر نگر فساد، ماب لنچنگ، لوجہادکے نام شادی کے قانون میں تبدیلی، مسلم نوجوانوں پر یو اے پی اے کا بے دریغ استعمال، سی اے اے این آر سی پر خاموشی، مولاناکلیم صدیقی، عمر گوتم کی گرفتاری، تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کے واقعات کچھ زیادہ پرانے نہیں ہیں، اسی کے ساتھ روزگار اور تعلیم کے مواقع میں سرکاروں کا تعصب ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com