مولانا انیس الرحمن قاسمی
قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل
اسلام ایک ایسے پاکیزہ معاشرے کی تعمیرکرناچاہتاہے،جس میں عورت کی عصمت محفوظ ہو، اس کی پاک دامنی کوسلامتی حاصل ہو،اس کی عظمت پر بے ہودہ نگاہ نہ پڑے،اسے ہوس کاشکارنہ بنائے،پاکیزہ خیالی اورنیک نیتی کاچلن ہو،صنفی انتشار، شہوانی ہیجانات اورفحاشی وآوارگی کارجحان نہ ہواورمعاشرے میں کبھی زناکاری اوربدکاری کے واقعات پیش نہ آئیں؛کیوں کہ یہ مہلک بیماری صرف اشخاص وافراد کی تباہی تک محدودنہیں رہتی؛بلکہ کبھی کبھی توپورے خاندان اوربڑی بڑی آبادی کوتباہ کرنے کاذریعہ بن جاتی ہے۔ مہلک بیماری کے مکمل روک تھام کے لیے حکم دیاگیا ہے کہ مردوعورت دونوں اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔اللہ جل شانہ کاحکم ہے:”اے نبی!آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی آنکھوں کو نیچی رکھیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں،یہ ان کے لیے صاف ستھرہ طریقہ ہے، وہ جو کچھ کرتے ہیں یقینا اللہ کو ان سب کی خبر ہے،اورمسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں،اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں،اوراپنی زیبائش وآرائش کو ظاہر نہ کریں،سوائے اس کے جو کھلا رہتا ہے،اوراپنے گریبانوں پر دوپٹے ڈال لیا کریں۔“
اللہ جل شانہ نے انسان کو اپنی تمام مخلوقات میں مکرم ومحترم بنایا،جسم کی بہتربناوٹ رکھی،اسے ظاہری وباطنی خوبیوں سے مزین کیااوراس کے اندر ایسی قوتیں رکھی، جس کی وجہ سے وہ تمام مخلوقات پرفضیلت رکھتاہے۔اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:”ہم نے بنایا آدمی خوب سے، اندازے پر۔“
دوسری جگہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے:”ہم نے آدم کی اولاد کو مکرم بنایا۔“
انسان کی ان خوبیوں کی وجہ سے اللہ جل شانہ نے(۱) اسے ظاہری اور باطنی طورپر مزین رہنے کا حکم دیا،(۲)شرم وحیا کوانسان کازیور قرار دیاہے،(۳)عفت وعصمت، پاکدامنی ا ور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کوانسانی معاشرہ کا فریضہ قرار دیاہے،(۴) پاکدامنی اسلامی معاشرہ کی پہچان ہے،جس سماج میں شرم وحیا نہ ہو،وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہوجاتاہے،شرم وحیاء ایک ایسی صفت ہے،جس کی وجہ سے انسان اخلاقی گناہوں سے بچتاہے،لوگوں کے حقوق کو ادا کرتا ہے اوریہ ایمان کی علامت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:”ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں،ان میں سب سے کم درجہ راستہ سے تکلیف دہ چیزکوہٹادیناہے اورسب سے افضل لاالہ الا اللہ کا کہناہے، شرم وحیا ایمان کا ایک شعبہ ہے“
شرم وحیا کے تقاضوں کا ایک حصہ لباس ہے؛اس لیے شریعت نے یہ حکم دیا ہے کہ مرد وعورت شائستہ وساتر لباس اختیار کریں،شریعت میں اگرچہ کوئی خاص وضع، ساخت،یا خاص رنگ ونوعیت کی تعیین نہیں کی، البتہ اس بات کی تاکید کی کہ لباس کا بنیادی مقصد ستر پوشی ہے؛ اس لیے اس کا خاص لحاظ کریں،چناں چہ مردوں کے لیے ناف سے لے کر گھٹنے تک کا حصہ قابل ستر قرار دیا اورعورتوں کے لیے چہرہ، ہتھیلی اور قدم کے علاوہ بدن کے تمام حصوں کو چھپانے کا حکم دیتے ہوئے اللہ جل شانہ نے فرمایاہے:”عورتیں اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجزاس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینہ پراوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں“
یعنی حجاب کے لیے ایسا لباس استعمال کریں،جس سے جسم کے نشیب وفراز کی نمائش نہ ہو اور قابل ستراعضاء چھپے رہیں، ایسا چست وتنگ یا باریک لباس نہ پہنیں،جو پردہ پوشی کے لحاظ سے ناکافی ہو، یا جوان کے جسمانی حسن کی نمائش کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاہے:
”بہت سی ایسی عورتیں ہیں،جوکپڑا پہننے کے باوجود ننگی ہیں،دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے والی ہیں اور خود بھی مائل ہونے والی ہیں،ان کے سر اونٹ کے کوہان کی طرح جھکے ہوئے ہیں،یہ جنت میں داخل نہ ہوں گی“
اسی طرح دوسری قوم کی مشابہت اختیار کرنے سے بھی منع کیا ہے،معاشرے کے دوسرے مذہب وقوم کے لوگوں کی تقلید نہیں کرنی چاہیے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیارکی،وہ انہیں میں سے ہے“
بلکہ اسلام نے مردوں کو عورتوں کے لباس اختیار کرنے سے اورعورتوں کو مردوں کے لباس اختیار کرنے سے بھی منع کیا ہے،مثلاً ایسے لباس جوعورتوں کے لیے مخصوص ہوں،یا ان کی زیب وزنیت کی چیزیں؛ جیسے ہار، کنگن، پازیب وغیرہ ان کا مردوں کوپہننا جائز نہیں ہے،اسی طرح ایسے کپڑے جو مردوں کے لیے خاص سمجھے جاتے ہیں؛جیسے ٹوپی، عمامہ وغیرہ ان کا عورتوں کو استعمال کرنا منع ہے؛مگر بعض لباس ایسے ہوتے ہیں،جو مرد وعورت کے لیے یکساں ہوسکتے ہیں؛ اس لیے کہ لباس کی وضع ہرعلاقے کے رواج کے مطابق مختلف ہوتی ہے اور مردو عورت کے لباس میں کوئی امتیاز نہیں ہوتاہے، ایسی جگہوں پرعورتیں پردہ اورحجاب جیسی چیزوں کے ذریعہ ممتازہوتی ہیں۔ تشبہ میں اس بات سے بھی پرہیز ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کالباس ایسا ہو،جو فساق وفجار وغیرمسلموں کی مخصوص وضع سے الگ ہو۔
مغربی تہذیب وتمدن نے بے پردگی کواس طرح پھیلایا ہے کہ مسلمان بھی اس کو معیوب نہیں سمجھتے ہیں،اپنی لڑکیوں اورعورتوں کو اس طرح کا لباس پہناتے ہیں،جس سے عریانیت جھلکتی ہے، اس کی وجہ سے شرم وحیا ختم ہوتی جارہی ہے،زنا اور فحش کاری، بدکاری عام ہوتی جارہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:”اگر تم دو چیزوں کی حفاظت کی ضمانت دو تومیں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں، ایک وہ جوتمہارے دو جبڑوں کے بیچ ہے؛یعنی زبان اور دوسری وہ جو تمہاری دورانوں کے درمیان ہے؛یعنی شرم گاہ“
اسلام نے بے حیائی اور بدکاری کوسختی سے روکاہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد گرامی ہے:
”آپ کہہ دیجئے کہ میرے رب نے حرام کیا ہے،بے شرمی کے کاموں کو، خواہ کھلے ہوں، یا چھپے اورگناہ اورحق کے خلاف زیادتی کو“
بے پردگی اورعریانیت کی وجہ سے گھناؤ نا جرم زنا کا ارتکاب ہورہاہے،خواہ یہ زبردستی ہویا باہمی رضامندی سے،حالاں کہ اللہ رب العزت نے زنا کے قریب جانے سے بھی منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”اور زنا کے قریب نہ پھٹکو بے شک زنا بدکاری ہے اور براراستہ ہے“
اس گھناؤنا پن کااظہار حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے واضح طور پر ہوتا ہے،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاہے:”زناکار جس وقت زنا کرتاہے، ا س وقت وہ مومن نہیں رہتا“
اللہ جل شانہ نے زنا کے ان تمام راستوں کو بند کرنے کے لیے مومنوں کو شرم وحیا اور پاکدامنی کے ایسے احکام دیئے ہیں،جوان کی شخصیت اور سیرت کو پاکیزگی اورمعاشرہ کو اخلاقی بلندی عطا کرتے ہیں اوربے حیائی ا وربدکاری سے محفوظ رہنے کے لیے یہ حکم دیا ہے کہ عورتیں اپنی زیب وزنیت کااستعمال اپنے گھر میں کریں اور اگر باہر نکلیں تو اپنے حسن اور زینت کی نمائش نہ کریں۔ اللہ جل شانہ کاارشاد ہے:
”اے نبی! اپنی بیویوں اوربیٹیوں اورمومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ ا پنے اوپر اپنی چادر کے پلو لٹکالیا کریں،یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے؛ تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اوراللہ بخشنے والامہربان ہے“۔
ہمارے سماج کی اخلاقی حالت الٹی ہوگئی ہے،عورتیں جب اپنے گھروں میں ہوتی ہیں تو زینت نہیں کرتیں اور جب شادی بیاہ؛جیسے سماجی پروگراموں، یا گھر سے باہر نکل کر بازاروں میں جاتی ہیں توخوب بناؤ سنگار کرکے نکلتی ہیں۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے:”شوہر کے علاوہ) نامحرم کے سامنے زیب وزینت کااظہار کرنے والی عورت اس تاریکی کی طرح ہے، اس کے لیے قیامت کے دن روشنی نہ ہوگی“
موجودہ دور میں اسکول وکالج میں پڑھنے والے لڑکے لڑکیوں میں جس طرح کا لباس رائج ہے،اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ تعلیم گاہ نہیں؛بلکہ بے پردگی اوربے شرمی کااڈہ ہے۔ فلم،ٹی وی سیریل،فیشن شو،ماڈلنگ اورمقابلہ حسن کی شیطانی تہذیب نے مسلمانوں کے گھروں سے پاکیزگی کو چھین لیاہے۔شرم وحیا اور پاکدامنی جو شریف گھرانوں کی علامت سمجھی جاتی تھی،وہ آج بے شرمی اور بے پردگی کی جگہ بن گئی ہے۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ:
(۱) بدنگاہی کو روکا جائے۔ (۲) گھروں میں بچوں اوربڑوں کو ساتر لباس پہنایا جائے،چھوٹے بچوں وبچیوں کو بھی آدھے بدن والے لباس پہننے کا عادی نہ بنایا جائے۔ (۳) پردہ کا اہتمام کیا جائے۔ (۴) شرم وحیاکو اپنی معاشرہ کا لازمی حصہ بنایا جائے۔
ہمارا ملک بھارت ایک جمہوری ملک ہے،جس میں ہر شہری کو برابر حقوق دئے گئے ہیں،ہمارے آئین کی دفعہ 25، جو بنیادی دفعات میں سے ایک ہے،اس کے مطابق ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اوراس کی تبلیغ کی اجازت ہے، اسی طرح ہر فرد کی زبان،بولی اوررہن سہن،رسم و رواج،پہناوا اورلباس کو بنیادی حقوق میں تسلیم کیا گیاہے۔بھارت کے ہرشہری کو اپنی پسند کی زندگی گزارنے،من چاہی غذا کھانے،اورمن پسند لباس پہننے کی مکمل آزادی ہمارا آئین دیتا ہے۔گزشتہ دنوں کرناٹک کے ایک کالج میں خواتین کے حجاب پہن کر آنے پر پابندی عائد کردی گئی،اوربا حجاب طالبات کو کالج کمپس میں داخل نہیں ہونے دیا گیا،یہ عمل نامنصفانہ اوردستورہند کے خلاف ہے، حجاب اورپردہ اسلام کے بنیادی احکامات میں سے ہیں،اللہ تعالیٰ نے خواتین کو با پردہ زندگی گزارنے کاحکم دیا ہے،نیز حجاب یا پردہ ہندوستانی تہذیب کا حصہ بھی ہے،تمام ہندوستانی مذاہب میں خواتین کے لیے بدن اورسرڈھانک کر اپنے کو بہتر سمجھا گیا ہے، ہندومت، عیسائیت وغیرہ میں قدیم زمانہ سے ایسا پردہ رائج ہے اور ہر ہندوستانی خاتون کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا من چاہا پردہ والا لباس پہنے اورایک مسلمان خاتون کے لیے پردہ لگانا اورحجاب پہننا اس کے دین اورمذہب کا حصہ ہے، کسی کو پردے سے روکنا اس کی مذہبی آزادی میں مداخلت ہے اور دستور ہند کے خلاف اورملک کی قدیم روایتوں سے متصادم ہے۔ اس کو سیاست کے طورپر استعمال کرنا خاص طبقہ کونشانہ ملک کے لیے نیک شگون نہیں ہے،اس طرح کی باتیں کرناٹک کے ساتھ اب مدھیہ پردیش میں بھی ہونے لگی ہے۔حجاب طالبات بعض کالجوں میں آمد پر عائد کی گئی ظالمانہ ہے، طالبات کی عزت نفس کو باقی رکھنا اورتعلیم کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرناضروری ہے، ان کی توہین کی کسی بھی حال میں اجازت نہیں ہے۔
اللہ رب العزت ہم سب کوپاک وصاف اورشرم وحیاسے آراستہ معاشرہ کی تشکیل کی توفیق دے۔
اس وقت ملک کے بعض حصوں میں پردہ موضوع بحث ہو گیا ہے۔پردہ نہ صرف زینت ہے،بلکہ اس کی عظمت وعفت کے لیے ڈھال ہے، پردہ شیطان اورشیطانی افکاروخیالات رکھنے والوں کے لیے شمشیر برہنہ ہے، یہی وجہ ہے کہ شیطانی ٹولی پردہ کے خلاف برسر پیکار ہے، لیکن یقین ہے کہ صرف پردہ کے اہتمام سے تہذیب کی اس جنگ میں انسانیت اورخواتین کی جیت ہوگی،کیوں کہ اس ہتھیارکا ان کے پاس کوئی جواب نہیں، بے حیائی کے سامنے زیر ہوکر رہے گی۔