بزرگوں کی بستی گھوریگھاٹ — ایک یادگار سفر!

مرغوب اثر فاطمی

(علی گنج، روڈ۔ ۷ گیا۔سبکدوش سینئر ڈی ایس پی)

                     عزیز گرامی پروفیسرمولانا عبدالواحد ندوی،صدر شعبہ عربی صغری کالج ،صاحزادہ حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب رحمہ کی دعوت پر مشہور بستی گھوری گھاٹ کیلئے آخر نکل ہی پڑا،ساتھ میں میرے بھاى نیاز نذر فاطمی اور عزیزی حافظ سعید اختر وغلمان واجد بھی تھے،وہاں جانا میرے لیے کئ معنوں میں خاص تھا۔ سنِ شعور سے میں اپنی پرانی رشتہ داری کی روداد اپنے بزرگوں سے سنتا رہا تھا۔مزید یہ کہ موضع ڈھبری عرف روشن گنج مولنا سید نظام الدین صاحب سابق امیر شریعت امارت شرعیہ کا سسرال اور میرا نانیہال ہے۔ وہاں کے دونوں گھرانے رشتہ داری کے علاوہ مراسم کے اعتبار سے بھی شیر و شکر رہے۔ رنج کے ساتھ یہ ذکر لازم ہے کہ وقت کے تھپیڑوں نے سادات کے گھرانوں کو دوسرے مقامات پر منتقل ہونے پر مجبور کر دیا۔ اسے میں ہجرت نہیں کہنا چاہتا ہوں۔

خوب یاد ہے، گرمیوں کی چھٹیوں میں مولانا نظام الدین مرحوم کی فیملی اور میری فیملی ڈھبری ،نانیہال اور میکے کا لطف لینے کے لیے پہنچتی تھی۔مولانا موصوف ٹمٹم وغیرہ سے اور ہم اپنے گاؤں بیلا۔وارث سے بذریعہ بیل گاڑی۔ مولانا کے صاحبزادے ضیاء الحسن (شمٌو) اور ڈاکٹر حامد حسین (حمٌو) میرے اور میرے منجھلے بھائ نیاز نذر فاطمی کے ہم جولی تھے۔ مہینہ ڈیڑھ مہینہ گویا ہم لوگ دوسری ہی دنیا میں رہتے تھے۔ آم کے پیڑوں کے گرد منڈالانا، سبزی کے کھیتوں میں لاٹھا سے پانی پٹانے کی ضد کرنا، تالاب میں مچھلی مارنے کی ناکام کوشش کرنا، کھیلتے کھیلتے کسی گھر میں چلے جانا، ہر جگہ کھانے کو کچھ مل جانا، سروں پر پیار بھرے ہاتھوں کا پھرنا، کھلے میدان میں کھاٹ پر سونا،چاندنی کا لطف لینا اور چھکوڑی ماموں کی کہانیاں سنتے سنتے خوابوں کی دنیا میں چلے جانا ۔۔۔ بہت کچھ /سب کچھ یاد ہے۔میرے نانیہال کی لائبریری میں ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کی پوری سیریز تھی۔مجھے ان کا چسکا لگا جو زندگی بھر نہیں چھوٹا۔مجھے اعتراف ہے کہ اردو زبان کی تھوڑی سی شدبد جو مجھے ہے اس کے لیے ابن صفی کا شکر گزار ہوں۔یہ سلسلہ 1968 تک قائم رہا۔

  حضرت مولانا نظام الدین صاحب دامت برکاتہم جو میرے نوشہ بھائی تھے وہ بھی اس دوران ڈھبری تشریف لاتے تھے۔ آپ امارتِ شریعہ بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ کے ناظم کے عہدے پر تھے۔ ان کی آمد پورے گاؤں کے لیے با برکت سمجھی جاتی تھی۔ شام کے وقت دالان کے سامنے کھاٹیں بچھائی جاتیں۔ ان کے ہم عمر اور بزرگ حضرات یکجا ہوتے۔ روزمرہ کے مسائل سے باتیں شروع ہوتیں۔ یہاں عرض کر دوں کے میرے والدِ محترم مسعود احمد فاطمی بھی گاؤں سے آ جاتے تھے اور مولانا سے ان کی خوب نبھتی تھی۔رشتہ میں کون بڑا کون چھوٹا یہ معنی نہیں رکھتا تھا۔ مجھے اور میرے ہم عمروں کو بلا کر ساتھ بٹھایا جاتا اور گفتگو میں حصہ لینے کے ذوق کی آبیاری کی جاتی تھی۔ میں کہہ رہا تھا کہ بات چھوٹے مسائل سے شروع ہوتی تھی اور دھیرے دھیرے ملکی،سیاسی اور دینی صورت حال تک جا پہنچتی تھی۔ میں گفتگو کے رموز تک پہنچنے کی عمر میں تو نہ تھا لیکن چیزیں دماغ تک پہنچتی تھیں جن کا کہیں نہ کہیں اثر ہوا ضرور۔ ابوالکلام آزاد کی معاملہ فہمی اور ان کے سیاسی شعور کے سبھی قائل تھے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ ایسا دور تھا کہ قوم تقسیم ملک کی ہولناکی سے اُبر رہی تھی۔ ہجرت کے ریلے نے گاءوں کو ویران کر دیا تھا۔ گھر کے لوگ آدھے اِدھر تو آدھے اُدھر ہو گئے تھے۔ سپنے بن رہے تھے اور ٹوٹ رہے تھے۔ مولانا کے خیالات باعثِ تقویت ہوتے تھے۔ علاقہ کے غیر مسلم شرفاء بھی ان سے مل کر خوش ہوتے تھے اور اچھے تاثرات لے کر جاتے تھے۔ میرے والد صاحب چونکہ سماجوادی آندولن میں فعال و متحرک تھے اس لیے ان کے حلقۂ ارادت کے لوگوں کی موجودگی بھی ایک سماں باندھ دیتی تھی۔ بزرگوں کی تربیت کے نقوش مٹاۓ نہیں مٹاۓ جا سکتے۔ مولانا کی قاپلیت اور شخصیت کا کچھ ایسا رعب تھا کہ پر لطف رشتہ ہوتے ہوے بھی ان سے کوئی مذاق نہیں کرتا تھا۔ میں تو خیر عمر میں بہت چھوٹا تھا ان کے سامنے۔ مولانا اپنی صلاحیتوں کے بل پر ترقی کی منزلیں طے کرتے گئے اور دنیا نے انہیں امیر شریعت کے اعلی مقام پر دیکھا ،مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت کرتے دیکھا ۔ہر روپ میں وہ ملت و قوم کے لیے فکرمند رہے، فعال رہے اور انمٹ نقش قدم چھوڑ گئے ۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔

در اصل مجھے گھوری گھاٹ پہنچنا ہے لیکن افسانہ ہے کہ پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ میں بھی بوڑھا ہوا۔ بہت کچھ تلف ہو گیا۔ بات نکلی ہے تو چاہتا ہوں کہ جو ذہن کے نہاں خانوں سے جھانک رہا ہے اسے محفوظ کر دوں۔ خوف یہ بھی ہے قارءین یہ نہ سوچنے لگیں کہ یہ کہاں کی ہانکے جارہا ہے۔

 جو بھی ہو۔ میں پولس کی نوکری میں آ گیا۔القصہ مختصر میں پھلواری شریف کے صدر تھانہ کے ادنیٰ عہدے پر تقریباً چار سال تک یعنی 2003 تک مامور رہا۔ حضرت اس وقت امیرِ شریعت تھے۔ پھلواری شریف کا علاقہ فرقہ واریت کا شکار رہا ہے۔ معمولی حادثات بھی تنازعہ کی شکل لے لیتے ہیں اور فساد و غارت گری تک بات جا پہنچتی ہے۔ وہ زمانہ 9/11 کا تھا ۔ امریکا کے شعلے پھلواری شریف تک آ گئے تھے جو کبھی خفتہ رہتے تھے کبھی بھڑک اٹھتے تھے۔ حالات سے نپٹنے کے لیے پتا نہیں کیوں مجھے ہی معقول سمجھا گیا۔خیر ذکر یہ کرنا ہے کہ نظم و نسخ کے سلسلے میں امارت شریعہ کا اہم رول ہوا کرتا ہے۔۔ امارت سے مجھے بھر پور تعاون ملا۔ دوسرے لفظوں میں امارت کے زیرِ سایہ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس سلسلے میں مولانا سے کبھی نہیں ملا۔ یہ مصلحت تھی۔مولانا کو بھی اس کا شکوہ نہیں رہا۔ میں ناظم امارت مولانا انیس الرحمٰن قاسمی صاحب کے مسلسل رابطے میں رہتا تھا۔ سر کردہ غیر مسلم حضرات بھی بڑے مخلص تھے جن کا ذکر یہاں ،شاید بر محل نہیں ہے اس لیے اس پر خاموشی اختیار کرتا ہوں۔ آپ نے دیکھا کہ ابھی تک گھوری گھاٹ نہیں پہنچا ہوں !

آپ کہ سکتے ہیں یہ گھوریگھاٹ گھوریگھاٹ تم نے کیا رٹ لگا رکھا ہے۔کیا ہے گھوریگھاٹ۔

ہاں تو سنئے جناب ! یہ سادات کی تین سوسالہ پرانی بستی ہے، قاضی صادق علی جد امجد تھے،قاضی صادق علی دو بھای تھے، ایک تھے عثمان علی، یہ جوانی میں سید احمد شہید رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوۓاور بالاکوٹ میں شھید ہوئے ، قاضی صادق علی سےخاندان چلا، قاضی شرف الدین اللہ کے ولی تھے اور قاضی حسین فاضل دیوبند، انور شاہ کشمیری کے خاص شاگرد، مولانا نظام الدین یہیں پیدا ہوئے اور قاضی حسین مولانا کے والد تھے۔ مولانا نظام الدین صاحب کی وجہ کر ہندوستان کے بڑے بڑے علماء کرام ودانشوران عظام اس بستی میں آئے جن میں حضرت مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی، حضرت مولانا منت اللہ رحمانی اور قاضی مجاہد الاسلام کا نام قابل ذکر ہے۔

کسی زمانے میں گھوریگھاٹ علاقہ کا راستہ کافی دشوار گزار ہوا کرتا تھا۔سڑکیں بدحال تھیں، جنگلات کی بہتات تھی اور سب سے زیادہ خطرہ نکسلوادیوں کا تھا۔دن کے اجالے میں گھر سے نکلنا مشکل تھا، ٣٠/٣٥ سال کے عرصہ میں سیکڑوں جانیں ضایع ہوءیں اور سیکڑوں بے گھر ہوۓ، جورو ظلم کا یہ سلسلہ دراز ہوتاگیا۔ راستہ طے کرتے وقت یہ سب باتیں گردش کر رہی تھیں‌، لیکن دیکھا تو دنیا بدلی ہوئ تھی۔چوڑی اور عمدہ سڑکیں استقبال کر رہی تھیں۔ جنگل کا سماں تو ابھی بھی ہے لیکن ہر موڑ اور بس پڑاؤ پر بازار نما چمک دمک دیکھنے کو ملی۔ راستہ آرام سے کٹا۔تقریباً 80کیلومیٹر کا فاصلہ دو گھنٹوں میں طے ہو گیا۔ شیرگھاٹی، حمزہ پور، امام گنج، بیکوپور، وغیرہ سے گزرتے ہوۓ ہم لوگ سوکھی ہوئ مورہر ندی پار کر تے ہی گھوری گھاٹ پہنچ گئے ۔ ندی پر پُل نہیں ہونے کی وجہ سے گاڑی ریت پر بنے کچے راستے سے اس پار ہوئ۔ کنارے پر چھچھلے پانی میں سینکڑوں کی تعداد میں گا ؤں کی پالتو بطخوں نے ایک طرف ہو کر ہمیں راہ دی ۔اس طرح خیر سگالی اور اخلاق کا پہلا نمونہ سامنے آیا۔سعید بابو گاؤں کی گلیوں سے واقف تھے جنہوں نے گاڑی حضرت امیر شریعت کے گھر کے دروازے تک پہنچا دی۔ اندازہ ہوا کہ موسم باراں میں کافی دشواری ہوتی ہو گی۔ بتایا گیا کہ ندی کے پہلے والا علاقہ گیا ضلع میں ہے اور گھوری گھاٹ سے جھارکھنڈ صوبہ کا چترا ضلع شروع ہو جاتا ہے۔ شہر چترا ٦٠/ کیلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔یعنی رانچی سے دیکھیں تو یہ گھوریگھاٹ جھارکھنڈ کا آخری گاؤں ہے۔ دور ہونے اور جغرافیائ پیچیدگی کی وجہ سے ہی غالباً یہ خطہ ترقیاتی دوڑ میں پچھڑ گیا۔ کسی زمانے میں لوگ پالکی پر،گھوڑوں پر،بیل گاڑی پر یا پاؤں پیدل مسافت طے کرتے ہوں گے۔ کم و بیش یہی دشواریاں بہتیرے علاقہ جات میں تھیں۔ افسوس ہوتا ہے کہ آزادی کے ستر سالوں بعد بھی یہ علاقہ بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔واقعی انسان جہاں بستا ہے، اپنی ضرورت کے مطابق دست یاب وسائل کے سہارے جی لیتا ہے۔ خیر، ہم لوگ ابھی گردِ سفر جھاڑ ہی رہے تھے کہ مولاناعبدالواحد صاحب کے کارندوں نے دسترخوان بچھادیا۔ گیا، پٹنہ ،اورنگ آباد ،چترا، رانچی، ہزاری باغ، شیر گھاٹی، چھتس گڑھ، وغیرہ سے آۓ مہمانان کی تعداد خاصی تھی لیکن مولانا ندوی کے انتظامات بھی ماشاءاللہ اتنے ہی عمدہ تھے۔آپ کے معاونین و رضاکار نوجوان متحرک تھے۔ شکم پری ہوئ تو طبیعت میں بشاشت آئ۔ اپنا گاؤں شدت سے یاد آنے لگا۔ کھاٹ پر آرام کیا۔آس پاس کے مناظر سے محظوظ ہوا۔ بھولے بسرے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔رشتہ داری اور تعلقات کی وسعت کبھی کبھی آدمی کے اپنےکچھ ہونے کا احساس زندہ کر دیتا ہے۔

حضرت امیرشریعت بہت یاد یاد آئے،اپنے وطن سے کتنی محبت تھی انہیں،نکسلوں کی کیسی دہشت تھی اس علاقہ میں۔لیکن پھر بھی آپ مسلسل گاؤں آتے رہے،عیدین کی نماز یہیں پڑھاتے،اپنے وطن ہی کی نہیں، پورے علاقہ کی فکر تھی انہیں، لوگوں کے دلوں سے ڈر و خوف نکالنے کی کوشش کی اور ایمانی حمیت کی روح پیداکرنےکی ذبردست تحریک چلائ،اپنی ایمانی بصیرت سے پوری پلانگ کے ساتھ بڑی خاموشی سے کام کیا۔آخرکالے بادل چھٹےاور سورج کی کرنیں ہرسو بکھر نے لگیں۔بقول شاعر۔

حق کا پرچم لہرایا،

خون شہیداں رنگ لایا۔

 جاگو جاگو صبح ہوئ ۔

آہ امیر شریعت نے تو اپنی بستی و علاقہ کو بچالیا مگر ہم لوگ اپنے گاؤں بیلا،ڈھبری راجے پور وغیرہ کو نہ بچا سکے۔

  گھوریگھاٹ میں آپ کا تین سو سالہ پرانا گھر دیکھا، کشادہ اور خوبصورت مسجد دیکھی‌، اس سے ملحق مدرسہ دیکھا۔جی خوش ہوا۔ یوں تو یہ گاؤں اہلِ علم اور صوفی صفت بزرگان کا مرجع و ماوا رہا ہے لیکن مولانا نظام الدین دامت برکاتہم کی شخصیتِ با برکت اور مولانا کے چھوٹے صاحبزادے پروفیسر مولانا عبدالواحد ندوی اور ان کے مخلص کارکنان کی جان توڑ محنت کے حوالے سے یہاں کے دینی، ملی، تعلیمی اور فلاحی کاموں کو چار چاند لگے‌‌۔ دعوت وتبلیغ کا جو سلسلہ اسلاف سے چلا اسے مولانا نے وسعت عطا کرتے ہوۓ عصری تقاضوں کو نظر میں رکھ کر اپنے مشن کو آگے بڑھایا۔ملک گیر مشغولیت کے باوجود اپنے گاؤں کو نہیں بھولے۔ آس پاس کی بڑی مسلم آبادی کے ساتھ ساتھ برادرانِ وطن کی فلاح کے لیے بھی کوشاں رہے اور سب کو جوڑ کر رکھنے میں کامیاب ہوۓ‌ ۔کُھلی سوچ اور مثبت فکر کی وراثت سب کے لیے چھوڑ گۓ۔دیہاتے دیہات کام کا داءرہ بڑھتا گیا،اب یہ سارا کام مولانا نظام الدین میموریل فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہورہا ہے۔اس دیہات میں ایک چھوٹا سا ہوسپیٹل دیکھ کر دلی خوشی ہوئ،یہاں بلاتفریق مذہب مفت دواعلاج کی سہولت دی جاتی ہے۔سہایتہ انٹرنیشنل اسکول جو دوسال پہلے قایم ہواہے،اس کی نئ بلڈ کی سنگ بنیاد رکھی گئ ،جس کےہم لوگ گواہ بنے۔اچھی بات یہ ہے کہ یہ اسکول مسلم اور غیر مسلم طلبا اور طالبات کے لیے یکساں طور پر اپنا دامن کھولے ہوا ہے ۔ویسے یہ اسکول ابھی مدرسہ کے ایک حصے میں چل بھی رہا ہے‌‌۔اسکی اپنی عمارت کا مرحلہ درپیش ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ مقامی لوگوں میں کافی جوش ہے۔غیر مسلم بھی ساتھ ساتھ ہیں۔

  بعد نماز مغرب منعقد کی گئ تقریب کئی معنوں میں قابل توجہ رہی۔ گزشتہ سال کی کارکردگی کے مطابق طالب علموں کو انعامات دیے گئے جن سے ان کے حوصلوں میں اضافہ ہو ۔ہمارےدوست محترم ڈاکٹراسد اللہ صاحب نے انعامات کی فراہمی میں زبردست تعاوں کیا۔اپنی فلاحی تنظیم،ٰ کُل ہند اقلیتی تعلیمی و اقتصادی ترقیاتی تنظیم ٰکی طرف سے بچوں کے لیے انعامات لے کر اپنی گاڑی سے ہزاری باغ سےاتنے دور بنجر دیہات میں آنااور پورے پروگرام میں سرگرم رہنا ثابت کر تا ہے کہ صدق دل ہو تو بندہ کچھ بھی کر سکتا ہے،کہیں بھی پہنچ سکتا ہے۔ کہتے ہیں نہ کہ بچوں میں خدا بستا ہے۔ان کے جذبے کو سلام۔

ورنہ آج ہم ڈراءنگ روم میں بیٹھ کر بس ڈنگیں ہاکتے ہیں اور حکومت کا رونا روتے ہیں اور کرنے والی خاموشی سے بہت کچھ کر گذرتے ہیں۔جن کےنام و کام اخبارات میں بھی نہیں آتے۔

  پروگرام میں بچوں اور بچیوں نے نعت پاک اور تلاوت کے ساتھ ہی تقاریر (اردو،ہندی،انگریزی زبانِ) گیت,نظم،دعاء وغیرہ کے نمونے بھی پیش کئے ۔ اساتذہ کی محنت اور تن دہی کا اندازہ ہوا۔ ہزاروں کی تعداد میں موجود مقامی حضرات نے عمدہ سامعین ہونے کا ثبوت دیا‌‌۔ یہ خوبی عام طور پر عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ اس سے لوگوں کے قلبی جُڑاؤ کا پتا چلااور یقین ہوا کہ مولانا نظام الدین فاؤنڈیشن کا مشن کامیاب ہو کر رہے گا۔ان شاء اللہ۔

 یہاں پر رک کر میں مولانا مفتی سہراب ندوی ناءب ناظم مارت شریعہ کی موءثر تقریر کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔آپ نے تعلیم کی اہمیت، اخلاقیات اور بیدارئ نسواں کے موضوعات پر عالمانہ گفتگو کی۔فراست اور ادراک کی بارش میں سامعین شرابور ہو گۓ۔ سحر سا چھا گیا۔ دلوں کے دروازے کھل گئے ۔ جوش کے ساتھ ہوش پر زور دیا گیا۔ دینی ارکان اور فرائض کی ادائگی کی اہمیت کی طرف آپ نے لوگوں کو رجوع کیا۔ آپ کی تقریر کی خوبی تھی کہ اس میں کوئ الجھاؤنہیں تھا۔ مسلکی گروہ بندی کی جھلک تک نہ تھی۔سب سے بڑی بات کہ مقامی سامعین کی ذہنی سطح کے عین مطابق، مثالیں دے کر باتوں کو لوگوں کے دلوں تک پہنچانے کی کوشش کی آپ نے۔اپنی قوم کا المیہ یہ ہے کہ وہ حد درجہ ماضی پرست ہے۔ حال و حقیقت سے نظر ملانے سے کتراتی ہے۔ دشواریوں سے ٹکرانے کا حوصلہ کھو چکی ہے۔پوری طرح شکست خوردہ ہے۔ امید کرتی ہے کہ کوئ آۓ اور کچھ کر جاۓ۔خدا سب کر دے، پیغمبر رحمتیں برسا دیں، معجزات ہو جائیں، بزرگانِ دین کی کرامات سے دکھ دور ہو جائیں لیکن وہ خود کچھ نہ کریں۔ ایک وجہ جہالت تو ہے ہی، سائنسی فکر وذہنیت کا فقدان ہے جو اعلا سطح پر بھی ہے۔ سائنس کو دین کی دشمن بنا کر پیش کرنے میں بیشتر قابلیتیں ضائع ہوی ہیں۔ صلاحیتیں مفلوج ہوئ ہیں۔ جو سائنس میں آگے وہ دنیا کا سردار۔ کبھی ہم بھی تھے لیکن ہم نے سائنس دانوں کو اذیتیں دیں، تہِ تیغ کیا۔دوسرے لے اڑے۔لہٰذا ذہن سازی کی اشد ضرورت ہے۔ اس لاسلکی مواسلاتی دور میں اشتہاروابلاغ کے کافی مواقع ہیں۔ سہایتا انٹرنیشنل اسکول کے سلسلے میں بھی اس سہولت کو بروۓ کار لایا جا سکتا ہے۔ ایک سے ایک جیالے موجود ہیں۔ دلوں کے مائل ہونے کی دیر ہے۔ سر سید کے کارنامے اور انکے رفقاء کی دریا دلی کی مثالیں تاریخ کا حصہ ہیں۔ میری اپیل ہے کہ جہاں تک آپ کی اور میری بات پہنچے لوگ اپنی زندہ دلی کا ثبوت دیں۔اس علاقہ کی کار گذاری کو آکر دیکھیں،آپ کو حیرت ہوگی کہ خاموشی کیساتھ ،کم وسایل میں بھی اتنا بڑا کام ہوسکتا ہےاور وہ بھی،گاوں،دیہات،جنگل،پہاڑ و ندی نالے میں۔مجھے حیرت ہوئ،اتنی بڑے پروگرام کی کوئ خبر اخبارات میں نظر نہ آئ۔ پتا چلاکہ پروگرام کا اشتہار بھی نہیں چھپتا،نہ مقررین کی بارات،نہ پیشہ ور نعت خواں، نہ جلسہ کےنام پر رت جگا۔مولانا عبدالواحد نے بتایا کہ والد صاحب نے کام کرنے کے چند اصول جو بتادیۓ ہیں ہم لوگ اس کو دانت سے پکڑے ہوۓ ہیں۔ جس کا خلاصہ دو لفظ میں ہے۔ دین کا کام دینی طریقہ سے کرنا ہے، بے دینی سے نہیں۔

ایک عجب کیف و مستی میں ڈوبارہا،پروگرام ختم ہوا،کھانا کھایا اور روح میں تازگی لے کررات ہی گیا لوٹ آیا۔

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئ

 پھر بھی چاہتا ہوں ،کوئی سمجھے۔

مولانا نظام الدین فاؤنڈیشن کو اپنا تعاون دینے کیلۓاس نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔9431623486

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com