ہندوؤں کو اقلیت قرار دینے کا شوشہ

مولانا عبد الحمید نعمانی 

یہ تو طے ہے کہ ملک میں اکثریت ، اقلیت کا وجود ہے ،لیکن اسے فرقہ وارانہ نفرت کے لیے استعمال کر نا سیکولر اور جمہوری نظام حکومت سے متصادم ہے۔ کمال کی بات ہے کہ متضاد باتوں کی سیاست ملک میں زوروں پر ہے۔

 اس کی ایک مثال ملک میں اکثریت و اقلیت کی تقسیم ختم کرنے کی حمایت اور پھر اکثریت سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں کو ملک کی کچھ ریاستوں میں اقلیت کا درجہ دینے کی وکالت و حمایت کا مسئلہ ہے ، اس کا واحد مقصد ملک میں ہندو مسلم کے نام پر نفرت کی سیاست کا فروغ اور اس کے عوام کی توجہ ، اصل بنیادی مسائل سے ہٹائے رکھنا ہے ۔ اس کے لیے میڈیا کا بھر پور غلط استعمال ہے ۔ بی ، جے پی کے لیڈر اشونی اپادھیائے نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ داخل کر کے کہا کہ ملک کی 10ریاستوں میں ہندو اقلیت ہیں لیکن وہاں ہندوؤں کی جگہ مقامی اکثریت کوہی اقلیت کے لیے فلاحی پروگراموں کا فائدہ دیا جارہا ہے ۔ اشونی اپادھیائے ، اسلام اور مسلمانوں کے متعلق کوئی بہتر اور پختہ جانکاری نہیں رکھتے ہیں ،حتی کہ بھارت کی روایات اور تاریخ کی مستند معلومات بھی نہیں ہیں ، ان سے ہمیں بارہا مختلف مسائل پر ٹی وی مباحث میں تبادلہ خیالات کے مواقع ملے ہیں ، وہ عموماً ضروری سوالات کے جوابات بھی گول کر جاتے ہیں ۔

ڈاکٹر موہن راؤ بھاگوت بھی مسلمانوں کے متعلق موافق و متضاد باتیں کرتے نظر آتے ہیں ، اشونی اپادھیائے جیسے لوگ تو سنگھ وغیرہ کے ادنی زمرے میں آتے ہیں ، وہ بیک وقت اپنے دعوے کی توثیق و وکالت اور تردید و تکذیب کرتے نظر آتے ہیں ، اقلیت و اکثریت کی تعبیر و تشریح ، آئین کے پیش نظر ، پارلیمنٹ اور اعلیٰ و عظمی عدالتوں سے ہو سکتی ہے ۔ درجہ بندی و تعریف و تعبیر کا عمل یا تو مرکز کی سطح پر ہو یا ریاست یا ضلع وار، کسی بھی سطح پر ہو، اس کی راہ میں مسلمان کوئی رکاوٹ نہیں ہیں ، اکثریت واقلیت کا تعین ملک گیر سطح پر عملی و عرفی لحاظ سے ہو چکا ہے ، عدالت کے کئی فیصلے بھی ہوئے ہیں ، مرکزی قومی اقلیتی کمیشن اور ریاستی اقلیتی کمیشنوں کی تشکیل کو کسی طرح بھی غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے ۔ بھارت کے آئین میں غیر مذکور امور کے وجود کو آئین مخالف بتانا غیر ذمے دارانہ عمل ہے ۔ قومی اقلیتی کمیشن وغیرہ مرکزی سرکار کا تشکیل کر دہ ہے اور یہ موجودہ مرکزی سرکار میں موجود ہے اور وزارت برائے اقلیت بھی ہے ۔ اس کے باوجود کسی بی ، جے پی لیڈر کی طرف سے اقلیت کے وجود اور اس کے مسائل کو دیکھنے اور حل کرنے کے لیے تشکیل کردہ وزارت اور ادارے کو ختم کرنے کا مطالبہ اور قانونی چارہ جوئی و جدوجہد قطعی نا قابل فہم ہے اور اس سے زیادہ ناقابل فہم یہ ہے کہ ایسی جدو جہد میں مصرو ف آدمی پارٹی ہی میں بنا ہوا ہے ۔ اس سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ متضاد باتوں کا استعمال خصوصی منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے ۔

ایک طرف ملک کے تمام باشندوں کو ہندو قرار دینے کی تشہیر کی جارہی ہے اور ساتھ ہی شمال مشرق کی ریاستوں کے عوام اور پنجاب کے سکھوں کو ہندو زمرے میں ہونے کی باتیں ہوتی ہیں تو دوسری طرف ہندوؤں کو اقلیت کا درجہ دے کر اس کے لیے بنائے فلاحی پروگراموں اور تعلیمی اداروں کو قائم کر کے اپنے حساب سے چلانے کی آزادی سے استفادے کی وکالت و حمایت بھی کی جاتی ہے ۔ اس تضاد و تعصب کو ہر کوئی حتی کہ موجودہ مرکزی سرکار اور اس کے تحت قائم ادارے اور وزارت برائے اقلیت نے بھی محسوس کیا ہے ، یہ اقلیتی وزارت اور قومی اقلیتی کمیشن کے جواب سے بھی پوری طرح واضح ہو جاتا ہے ، جن نو دس ریاستوں کشمیر، لداخ، لکشدیپ ، میزورم ، ناگالینڈ، میگھالیہ ، ارونا چل پر دیش، منی پور، پنجاب وغیرہ میں ہندوؤں کو اقلیت قرار دے کران کے لیے مراعات و سہولیات کا مطالبہ کیا گیا ہے تو ان کے علاوہ دیگر ریاستوں میں مسلم اور دیگر اقلیتوں کو بہ طور اقلیت تسلیم کرنے میں دقت کیوں ہے اور ہندو اقلیت کے نام پر مسلم اقلیت کو ہندو اکثریت کی ریاستوں میں نشانہ بنانے کا جواز وو جہ کیا ہے؟ اس پہلو پر بھی توجہ کی ضرورت ہے، اگر آئین میں اقلیت کی تعریف و تعین نہیں ہے تو ہندو کی بھی آئین سے لے کر معروف ہندو اصل دھرم گرنتھوں تک میں کوئی تعریف و تعین نہیں ملتی ہے لیکن ملک کے شہریوں اور باشندے ہونے کے ناتے سب کے حقوق و اختیارات ملے ہوئے ہیں اور اسی حوالے سے آئین نے آزادی و تحفظ کا بندو بست کیا ہے ، یہ مرکزی سرکاراورعدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہے کہ وہ آئین کے تحت اقلیتوں کی شناخت و تعین کر کے ان کے حقوق و اختیارات کی بقاءو تحفظ کرے، مرکز سرکار نے کہہ بھی دیا ہے کہ ریاستی سرکار یں اپنے یہاں کی اقلیتی آبادی کی پہچان کر سکتی ہیں ، قومی اقلیتی ادارہ جات ایکٹ 2004ء کہتا ہے کہ ریاستی سرکار بھی ریاست کی حد میں مذہبی و لسانی اکائیوں کو اقلیت قرار دے سکتی ہے۔ 2016ءمیں مہاراشٹر سرکار کی حد میں یہودیوں کو اقلیت قرار دیا ہے۔ جب کہ کرناٹک سرکار نے اردو، تیلگو، تامل، ملیالم ، مراٹھی ، کوکنی، گجراتی وغیرہ زبانوں کو اپنی حد میں اقلیتی زبانوں کے طور پر درج کیا ہے۔ وزارت برائے اقلیتی امور نے اشونی اپادھیائے کے اس دعوے کو غلط قرار دیا ہے کہ نو، دس ریاستوں میں حقیقی اقلیت کو اپنی پسند سے تعلیمی ادارے کا قیام اور انہیں چلانہیں سکتے ہیں ،مذکورہ ریاستوں میں شناخت کردہ اقلیتوں یہودی، ہندو کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ 2002ء میں سپریم کورٹ نے بھی ٹی ایم اے پائی فاؤنڈیشن کے معاملے میں فیصلہ دیا تھا کہ ریاست کو اپنی حد میں اقلیتی اداروں کو ملک کے مفاد میں اعلیٰ تعلیم مہیا کرانے کے لیے ضابطے کے تحت اختیار حاصل ہے، بی ، جے پی لیڈر کے اقلیتی کمیشن کے وجود کو حق مساوات کی خلاف ورزی قرار دینے کے الزام کو مرکزی سرکار کے جواب میں مسترد کر دیا گیا ہے ۔ اقلیتوں میں بھی صرف محروم طبقات کے طلبہ کو ہی فلاحی منصوبوں کا فائدہ دیا جاتا ہے۔ پوری کمیونٹی کو نہیں ۔ اسی طرح اقلیتوں کے لیے قومی اقلیتی کمیشن ایکٹ 1992 نہ تو من مانا ہے اور نہ بے جواز ہے اور نہ ہی آئین کی کسی دفعہ کی خلاف ورزی ہے ،اقلیتی تعلیمی ادارہ جات ایکٹ کی دفعہ 2 (ایف) مرکزی سرکار کو اختیار دیتی ہے کہ وہ ملک میں اقلیتوں کی شناخت کرکے انھیں اقلیت کا درجہ دے ،مرکزی سرکار نے 29 اکتوبر 2004ء کو مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے لیے قومی کمیشن کی تشکیل کا وعدہ کیا اور کمیشن کے متعلق شرطیں،مذہبی ولسانی اقلیتوں کے درمیان سماجی اور اقتصادی طور سے پس ماندہ طبقات کی پہچان کے لیے پیمانہ بتانے کے لیے تھیں، وزارت برائے اقلیتی امور کا قیام، مثبت کارروائی اور مشترکہ ترقی کے ذریعے اقلیتوں کی سماجی ، اقتصادی حالت میں بہتری کے لیے کیا گیا تھا، تاکہ ہر شہری کو جاندار وطن کی تعمیر میں سرگرم حصہ لینے کا مساوی موقع ملے، اقلیتوں کے لیے قومی کمیشن ایکٹ 1992 کو پارلیمنٹ نے آئین کی دفعہ 246 کے تحت لاگو کیا ہے۔ ان باتوں کی موجودگی میں ، ہندوؤں کے اقلیت ہونے کا شوشہ چھوڑ کر مسلم آبادی کو نشانہ بنانے کا مقصد بہت واضح ہے ، ہندوتو وادیوں کی طرف سے اٹھائے مسائل کا ملک کے مجموعی مفاد میں تجزیہ و مطالعہ بہت ضروری ہو جاتا ہے ۔

E-mai: noumani.aum@gmail.com

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com