قربانی: حکمت، اہمیت اور تاریخ

مولانا مفتی جنید احمد قاسمی صاحب 

استاذ حدیث و فقہ جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر بہار 

قربانی کی تعریف :

قربانی کیا ہے؟ قربانی عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے، جس کے ذریعہ خدائے بزرگ کی رضا و خوش نودی حاصل کی جاتی ہے ۔قربانی کے ذریعہ ایثار،تقوی وطہارت کی خوبی، سماجی رعب و دبدبہ، اور ملی و قومی طاقت وقوت حاصل کی جاتی ہے ۔ قربانی شیطانی وساوس کو مات دینے کا، دشمنوں کو مرعوب اور خوف زدہ کرنے کا، قوم میں جذبہ خیروخود اعتمادی پیدا کرنے کابڑا وسیلہ ہے ۔

استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنا : 

استطاعت کے باوجود جو شخص قربانی نہ کرے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ایسا آدمی ہماری عید گاہ نہ آئے ۔

عَنْ اَبیْ ھُریرہ قال قال رسول اللہﷺ مَنْ کَان لَهُ سِعَة فَلَمْ یضح فَلا یقربن مصلانا۔

ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ نہ آئے ‘‘(سنن ابن ماجہ رقم : 3123 قال العینی وأخرجہ الحاکم وقال صحیح الاسنا د)

قربانی کی تاریخ : 

قربانی کی تاریخی ابتداء دنیا میں تشریف لانے والے پہلے انسان سے ہوئی ہے ۔ ہابیل و قابیل کے واقعے کو یاد کیجیے قرآن پاک کی سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کے اس عظیم واقعے کو یاد کرنے کا حکم دیا ہے ۔ یہ اس لئے؛ تاکہ قربانی کرنے والوں کو اس بات کا استحضار رہے کہ قربانی صرف اور صرف متقی و پرہیزگار کی قبول ہوتی ہے ۔ اور اس لیے بھی تاکہ؛ ہابیل و قابیل کے درمیان رونما ہونے والا یہ ناخوش گوار واقعہ پھر پیش نہ آئے ۔ ۔ واقعہ ملاحظہ فرمائیے!

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ

اور ذرا انہیں آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی ۔قابیل نے کہا “میں تجھے مار ڈالوں گا” اس نے جواب دیا “اللہ تو متقیوں ہی کی قربانیاں قبول کرتا ہے-

 لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَاْ بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لَأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ

اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ بڑھا ئے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھاؤں گا، میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔

 إِنِّي أُرِيدُ أَن تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِكَ جَزَاء الظَّالِمین ۔

میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے اور دوزخی بن کر رہے ظالموں کے ظلم کا یہی ٹھیک بدلہ ہے”

 فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ

آخر کار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لیے آسان کر دیا اور وہ اسے مار کر اُن لوگوں میں شامل ہو گیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں۔

 فَبَعَثَ اللّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءةَ أَخِيهِ قَالَ يَا وَيْلَتَا أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَـذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءةَ أَخِي فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ

پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اُسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے یہ دیکھ کر وہ بولا افسوس مجھ پر! میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر نکال لیتا اس کے بعد وہ اپنے کیے پر بہت پچھتا یا۔

 علامہ ابن کثیر ؒ نے بہ روایت ابن عباس ؓ اس آیت کی تفسیر میں نقل فرمایا کہ ہابیل نے ایک مینڈھے کی قربانی پیش کی اور قابیل نے اپنے کھیت کی پیداوار سے کچھ غلہ وغیرہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی۔ حسب دستور آسمان سے آگ نازل ہوئی ہابیل کے مینڈھے کو کھاگئی اور قابیل کی قربانی کو چھوڑ دیا۔ قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کی پہچان پہلے انبیائے کرام علیہم السلام کے زمانے میں یہ تھی کہ جس کی قربانی اللہ تعالیٰ قبول فرماتے تو ایک آگ آسمان سے آتی اور اس چیز کو جلا دیتی تھی۔ سورۃ آل عمران میں اس کا ذکر آیا ہے کہ قربانی جس کو آگ کھا جائے۔ اس زمانے میں کفار سے جہاد کے ذریعے جو مال غنیمت ہاتھ آ تا تو اس کو بھی آسمان سے آگ نازل ہوکر کھا جاتی تھی اور یہ جہاد کے مقبول ہونے کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ امت محمدی ؐ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی انعام ہو ا کہ قربانی کا گوشت اور مال غنیمت ان کے لیے حلال کر دیے گئے۔

قربانی صرف اللہ کے لیے :

قربانی ایک عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی اس کو عبادت سمجھا جاتا تھا مگر وہ بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے۔ اسی طرح آج تک دوسرے مذاہب میں قربانی مذہبی رسم کے طور پر ادا کی جاتی ہے جو بتوں کے نام پر یا مسیح کے نام پر کی جاتی ہے ۔ سورۃ کوثر میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جس طرح نماز اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہوسکتی اسی طرح قربانی بھی اسی کے نام پر ہونی چاہیے۔

ہر جگہ کے صاحب نصاب مسلمانوں پر قربانی واجب ہے:

رسول اکرمؐ نے ہجرت کے بعد دس سال تک مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا اور ہر سال پابندی سے قربانی فرماتے تھے۔ جس سے معلوم ہوا کہ قربانی صرف مکہ معظمہ کے لیے مخصوص نہیں بل کہ ہر شخص پر، ہر شہر میں شرائط کے بعد واجب ہے اور مسلمانوں کو اس کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ اس لیے جمہور علمائے اسلام کے نزدیک قربانی واجب ہے۔

درحقیقت قربانی تو جان کی قربانی ہی تھی، جیساکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتاہے-

جانور کی قربانی جانی اور مالی دونوں طرح کی قربانیوں کی علامت ہے:

اصل قربانی تو جان نثاری اور جان سپاری کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے یہ قربانی جان سے ٹال کر مال کی طرف منتقل کر دی ۔ پھر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مالی قربانی صدقے کی صورت میں مقرر کردی جاتی، لیکن اس طرح انسان کو اپنی جانی قربانی کی طرف توجہ اور اس کا استحضار نہ ہوتا۔ اس غرض کے لیے ایسی مالی قربانی مقرر کی گئی جس میں جانور قربان کیا جائے، تاکہ مالی قربانی میں بھی جانی قربانی کی مشابہت موجود ہو، اور معمولی احساس رکھنے والاانسان بھی بوقتِ قربانی یہ سوچے کہ اس بے زبان جان دار کو میں کس لیے قربان کررہاہوں؟ اس کا خون کیوں بہا رہاہوں؟ جب یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوگا تو اسے استحضار ہوگا کہ درحقیقت یہ میرے نفس اور میری جان کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے میرے مال کی صورت میں قبول کرلیا، یوں اسے مقصدِ اصلی بھی یاد رہے گا اور نفس کی قربانی کے لیے یہ محرک بھی ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر گزاری کا جذبہ بھی بڑھے گا۔

اور ظاہر ہے کہ یہ مقاصد صرف صدقہ کرنے اور غریب کی مدد کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتے۔

قربانی کے ایام میں قربانی ہی سب سے محبوب عمل ہے :

غریب و محتاج کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکاۃ اور صدقہ فطر کی عبادات مقرر کی ہیں، نیز اس کے لیے نفلی صدقات کا دروازہ بھی ہر وقت کھلا ہے۔ لہٰذا جس شخص پر قربانی واجب ہو اس کے لیے ایامِ عید الاضحیٰ میں قربانی ہی کی عبادت متعین ہے-

قربانی کا معاشی فائدہ :

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ قربانی دینے میں بھی غریبوں کا فائد ہ ہے۔ ہمارے ہاں بے شمار غریب لوگ ایسے ہیں جنہیں سال بھر گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ قربانی کے اس عمل سے سال میں ایک بار انہیں بھی یہ نعمت میسر ہوتی ہے۔ بہت سے غریب لوگ سال بھر جانوراسی ارادے سے پالتے ہیں کہ عید پر انہیں بھی کچھ رقم حاصل ہو جائے گی۔ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی افزائشِ نسل کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کے چارے اوردیگر ضروریات کو پورا کرنے سے بھی بہت سے لوگوں کا روزگاروابستہ ہے۔ قربانی کے جانوروں کی کھالوں کے بہت سے مصارف ہیں۔ اس وجہ سے چمڑے کے کاروبار کو خوب ترقی ملتی ہے۔ قربانی کی کھالیں فلاحی اداروں، مدارس اوردیگر نیک مقاصد کے لیے دی جاتی ہیں جن سے حاصل ہونے والی رقوم بھی غریبوں کے کا م آتی ہیں۔ اورسب سے بڑھ کریہ کہ دسویں ذی الحجہ کو اللہ رب العالمین کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل جانوروں کا خون بہانا یعنی قربانی ہے۔ ایک سچے مسلمان کے پیش ِنظر فقط رضائے الہی کا حصو ل ہوتا ہے اور وہ مالک کے حکم کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔ جب اللہ تعالی جو سارے جہانوں کا خالق بھی ہے اورمالک بھی اورجس نے پوری مخلوق کو رزق دینے کا ذمہ لے رکھا ہے اس کی رضا جانوروں کی قربانی میں ہے تو ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ حکمِ خداوندی کے سامنے اپنی تاویلات اورتوجیہات پیش کرکے غریبوں کا ہمدرد، معاون اور غمگسار بنتا پھرے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com