مسلمانوں کے امت ہونے کا مطلب!

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

آر ایس ایس کے ایک اہم قائد جناب رام مادھو نے مسلمانوں کو ہندو مسلم تعلقات بہتر بنانے کے لئے تین نکاتی فارمولہ پیش کیاہے، جس میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ’’مسلمان خود کو امت اسلام اور امت مسلمہ سمجھنا چھوڑ دیں‘‘ انھوں نے شاید ایسا اس لئے کہا ہو کہ امت کا تصور ہندوستان کے مسلمانوں کو پوری دنیا کے مسلمانوں سے جوڑ دیتا ہے، اس رابطہ کو کمزور کرنے یا منقطع کرنے کے لئے بعض سنگھ کارکنوں کی طرف سے یہ بھی تجویز پیش کی جاتی رہی ہے کہ بھارت میں ہی مکہ مکرمہ یا کعبہ کا ماڈل تیار کر دیا جائے؛ تاکہ مسلمان اپنے دیش میں ہی رہتے ہوئے حج کر لیں؛ کیوں کہ مکہ مکرمہ جا کر فریضۂ حج ادا کرنے سے امت کے آفاقی تصور کو تقویت پہنچتی ہے، یا ایسا ہو کہ وہ حج ادا کرنے کی بجائے اجمیر شریف جاکر زیارت کر لیں اور بس، مسلمانوں سے یہ مطالبہ ایسا ہی ہے جیسے حیدرآباد میں رہنے والے ہندو بھائیوں سے کوئی گروہ مطالبہ کرے کہ وہ امرناتھ یاترا کے لئے کشمیر جانے کے بجائے اسی شہر میں کسی بڑے اور خوبصورت مندر کی یاترا کر لیں؛ تاکہ ان کے پیسے بچیں اور مقامی تاجروں کو بھی فائدہ پہنچے، ظاہر ہے کہ یہ ایک نامعقول بات ہوگی، انسان کے عقیدہ اور یقین کے مطابق جو عمل جس جگہ سے متعلق ہو جب تک وہ اُس عمل کو اُس جگہ انجام نہ دے، نہ اس کا وہ عمل پورا ہوگا اور نہ اس کو تشفی ہوگی؛ اس لئے مسلمانوں کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ ہندوستان میں بنائے گئے، مصنوعی کعبہ کا حج یا کسی بزرگ کے مزار کی زیارت ان کے جذبۂ عبادت کو پورا کر دے گی، ایک مذاق تو ہو سکتا ہے؛ مگر یہ بات کبھی حقیقت نہیں بن سکتی۔

اصل میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ امت کے لفظ کی حقیقت کیا ہے؟ کیا صرف مسلمان ہی امت ہیں یا دوسرے مذہبی گروہ بھی اپنے اپنے افکار کے ساتھ امت ہیں؟ امت ہونے یا بننے کا مقصد کیا ہے؟ کیا مسلمانوں کا ایک امت ہونا دوسرے مذہبی گروہوں سے مزاحمت کے لئے ہیَ اور اس کا مقصد دوسرے گروہوں کو نشانہ بنانا اور ان کو تکلیف پہنچانا ہے؟ اس سلسلے میں چند نکات کو پیش نظر رکھنا چاہئے:

۱۔ امت عربی زبان میں ایک طرح کے افراد کے مجموعہ کو کہتے ہیں، جن میں کوئی مشترک بنیاد ہو، خواہ یہ مشترک بنیاد دین کی ہو یا زمانہ یا وقت کی، یا مقام وعلاقہ کی: الأمۃ جمع لھم جامع من دین أو زمان أو مکان أو غیر ذالک (کشاف اصطلاحات الفنون: ۱؍ ۲۶۲)

اسی مناسبت سے جس قوم میں کسی نبی کو بھیجا گیا ہو وہ قوم اس نبی کی امت کہلاتی ہے، چاہے وہ اس پر ایمان لائی ہو یا نہیں، جو ایمان لا چکے ہیں ان کو’’ امت اجابت ‘‘کہا جاتا ے اور جو ایمان نہیں لائے ان کو امت دعوت (شرح مشکوٰۃ للطیبی: ۲؍ ۴۴۸) اجابت کے معنیٰ قبول کرنے کے ہیں؛ لہٰذا ’’ امت اجابت ‘‘ کے معنیٰ اس گروہ کے ہیں، جس نے نبی کی دعوت کو قبول کر لی ہو، اور جس نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا، ان کو ’’امت دعوت‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی ابھی ان پر مزید دعوت حق پیش کرنے کی ضرورت ہے؛ اسی لئے اہل لغت نے صراحت کی ہے کہ پیغمبر کو جن لوگوں کی طرف بھیجا گیا، وہ سب امت میں شامل ہیں: الأمۃ جماعۃ أرسل الیھم رسول سواء آمنوا أو کفروا (تاج العروس: ۳۱؍ ۲۲۹) ایک مشترک خصوصیت کے حامل گروہ کو اُمت کہنے کے معاملہ میں لغت کے اعتبار سے اس قدر وسعت ہے کہ انسان ہی نہیں دوسری مخلوقات کے گروہ کو بھی امت کہا گیا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: زمین میں جتنے چلنے والے جانور اور اپنے پروں کے ذریعہ اڑنے والے پرندے ہیں، یہ سبھی تمہاری طرح امتیں ہیں: وما من دابۃ فی الأرض ولا طائر یطیر بجناحیہ إلا أمم أمثالکم (انعام: ۳۸)

۲۔ امت کے مفہوم کی اس وسعت کو دیکھئے تو صرف مسلمان ہی امت نہیں ہیں؛ بلکہ ہر مذہبی گروہ ایک امت ہے، چاہے وہ ہندو ہوں یا عیسائی یا یہودی؛ چنانچہ قرآن مجید کہتا ہے کہ ہر ’’ امت ‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے ڈرانے والا اور حق کی تعلیم دینے والا بھیجا ہے : وإن من أمۃ إلا خلا فیھا نذیر (فاطر: ۲۴)اسی لئے قرآن مجید نے غیر مسلم گروہوں کو بھی امت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور اہل مکہ سے فرمایا ہے کہ ’’ اگر تم نے پیغمبر برحق کو جھٹلا دیا تو کچھ عجیب نہیں؛ کیوں کہ تم سے پہلے کی امتوں نے بھی اپنے زمانے کے رسولوں کو جھٹلایا تھا‘‘ وان تکذبوا فقد کذب امم من قبلکم (عنکبوت: ۱۸) —- اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ امت ہونے میں یا اپنے آپ کو امت کہنے میں نہ اپنی بڑائی کا اظہار ہے اور نہ دوسرے کی تحقیر ہے۔

۳۔ کسی گروہ کے لئے جیسے دوسری باتیں مشترک بنیاد ہو سکتی ہیں، اس طرح دین ومذہب بھی ہو سکتا ہے، اسی مناسبت سے ایک دین پر قائم رہنے والے لوگوں کو بھی ایک امت کہا جاتا ہے، عربی لغت وگرامر کے ایک بڑے ماہر زجاج نے ’’ کان الناس أمۃ واحدۃ ‘‘ (بقرہ: ۲۱۳) ’’ لوگ ایک ہی امت تھے‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ تمام لوگ ایک ہی دین پر تھے‘‘ کانوا علیٰ دین واحد (تاج العروس: ۳۱؍ ۲۲۹) اس لئے مذہبی رشتہ سے پوری دنیا کے مسلمان ایک امت ہیں، جس کی دعاء حضرت ابراہم علیہ السلام نے کی تھی: ’’ ہماری نسل میں ایک مسلمان امت پیدا فرما ‘‘ ومن ذریتنا أمۃ مسلمۃ لک ( بقرہ: ۱۲۹) جیسے امت کا لفظ اجتماعیت کو ظاہر کرتا ہے ایسے ہی ایک لفظ قوم کا ہے، یہ بھی افراد کے ایک مجموعہ کو کہتے ہیں، امت کا لفظ عموماََ ایک فکر کے لوگوں پر بولا جاتا ہے اور قوم کا لفظ عموماََ ایک علاقہ اور ملک کے لوگوں پر ؛ اسی لئے انبیاء علیہم السلام نے اپنے مخاطب کو ’’ قومی ‘‘ کے لفظ سے خطاب کیا؛ حالاں کہ دینی اعتبار سے اُن کے اور اُن کی قوم کے درمیان اتحاد نہیں تھا؛ بلکہ قوم ان کی دعوت کی سخت مخالف تھی، پس مسلمانوں کا ایک تعلق اپنے ہم مذہب لوگوں سے ہے، اور اس اعتبار سے وہ ایک ’’امت ‘‘ ہیں، اور دوسرا تعلق اپنے ہم وطنوں سے ہے، اور اس رشتہ کے اعتبار سے وہ ایک قوم ہیں؛ اس لئے ہندوستان میں بسنے والے جتنے بھی مذہبی گروہ ہیں، ہندوستانی مسلمان ان کو اپنی قوم کا حصہ سمجھتے ہیں، اسی جذبہ کے تحت مسلمان ملک کے دفاع، اس کی ترقی اور اس کی آزادی میں برادران وطن کے شانہ بشانہ بلکہ بعض اوقات دوسروں سے آگے بڑھ کر مادر وطن کی خدمت کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

۴۔ موجودہ دنیا ایک گلوبل دنیا ہے، جس نے پوری دنیا کو ایک گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے، ہر ملک کا مفاد دوسرے ملک سے متعلق ہے، بسا اوقات بڑے بڑے اور طاقتور ممالک بعض مفادات میں بہت چھوٹے ممالک کے محتاج ہوتے ہیں، اور وہ ان کی تائید چاہتے ہیں؛ اس لئے اگر ہندوستانی مسلمانوں کا تعلق عالم اسلام کے اور دوسرے ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں سے استوار ہو اور اس کا استعمال ملک کے خلاف نہ ہو تو یہ ہمارے ملک کے لئے مفید ہے نہ کہ نقصان دہ، اس وقت ہندوستان کو مسلمان ممالک کی جو تائید حاصل ہے یہاں تک کہ بہت سی دفعہ وہ پڑوس کے مسلم اکثریت ملکوں کے مقابلہ ہندوستان کو ترجیح دیتے ہیں، تجارت میں، افرادی وسائل کو مشغول کرنے میں، سرمایہ کاری میں اور بین الاقوامی مسائل میں ہندوستان کے موقف کی تائید کرنے میں، اس میں یقینی طور پر اس بات کا بھی حصہ ہے کہ انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ مسلمان بھارت میں بستے ہیں، پس امت کے اس تصور سے ہمارے ملک کو فائدہ پہنچتا ہے نہ کہ نقصان۔

۵۔ پھر کیا صرف اس ملک کے مسلمانوں ہی کا دوسرے ملکوں میں بسنے والے اپنے مذہبوں سے رابطہ ہے؟ کیا دوسرے مذہبی گروہوں کا نہیں ہے؟ ہندو مذہب پر یقین رکھنے والے تارکین وطن پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، اور وہ وہاں ہندوستان میں بسنے والے ہم مذہب لوگوں سے خصوصی تعلق رکھتے ہیں، اپنے ملک میں رہتے ہوئے رام مندر پر چندہ کرتے ہیں، آر ایس ایس کی نفرت انگیز تحریک کا تعاون کرتے ہیں، اس کی بنیاد اتحاد مذہب کے سوا اور کیا ہے؟ پوری دنیا کے ہندوؤں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے سنگھ پریوار نے وشو ہندو پریشد قائم کی ہے، یہی ہے امت کا وہ تصور جس کو لے کر مسلمانوں کو بدنام کیا جاتا ہے۔

۶۔ کسی بھی اجتماعیت کے بارے میں نفع بخش یا نقصان دہ ہونے کا فیصلہ اس کے مقاصد سے کیا جاتا ہے، اگر لوگ اپنی ایک وحدت اس سوچ کے ساتھ قائم کریں کہ وہ دوسروں کو نیچا دکھائیں گے ، ان کو نقصان پہنچائیں گے، ان کو بے وطن کریں گے، سماج میں نفرت پھیلائیں گے اور تفریق کی فضاء بنائیں گے تو ظاہر ہے کہ ایسی اجتماعیت انسانیت کے لئے تباہ کن، ملک وقوم کے لئے مہلک ونقصان دہ اور ناقابل قبول ہے، چاہے یہ مسلمانوں کی طرف سے ہو یا کسی اور مذہبی گروہ کی طرف سے۔

ایک امت کی حیثیت سے مسلمانوں کی جو ذمہ داریاں اور مقاصد ہیں، قرآن مجید نے ان کو بہت واضح الفاظ میں بیان کیا ہے:

کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتؤمنون باللہ (آل عمران: ۱۱)

ترجمہ: تم بہترین امت ہو، جس کو انسانیت کے لئے پیدا کیا گیا ہے؛ تاکہ تم لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم دو ، بری باتوں سے منع کرو اور اللہ پر ایمان رکھا کرو۔

اسی بات کو قرآن مجید نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو ’’ میانہ رَو اُمت ‘‘ بنایا ہے، جو لوگوں کے سامنے حق کی گواہی دیتے ہیں (بقرہ: ۱۴۳) گواہی دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کا حکم دیا ہے، ان کی دعوت دیتے ہیں، اور جن باتوں سے منع فرمایا ہے، ان سے روکتے ہیں، غرض کہ اس امت کی اجتماعیت ،وحدت اور باہمی ارتباط کا مقصد نہ کسی گروہ کی مخالفت ہے نہ نفرت کا پھیلانا؛ بلکہ اس کا مقصد دنیا میں اچھی باتوں کو فروغ دینا، سماج کو خیروفلاح کی طرف لانا، ظلم وزیادتی اور برائیوں کو روکنا ہے، تو ظاہر ہے کہ ایسی امت ملک کے لئے فائدہ مند ہی ہوگی، پھر قرآن مجید نے یہ بھی صاف صاف کہہ دیا کہ دوسری قوموں کے جو عقائد وافکار اور رسوم وروایات ہیں اور زندگی گزارنے کا جو طور وطریقہ ہے ، چاہے مسلمانوں کو اس سے اتفاق نہ ہو؛ لیکن اس کو دنیا میں فساد وانتشار کا سبب نہ بنایا جائے، یہ اختلاف جو ہمیں نظر آتا ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کا حصہ ہے، اگر اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں ادیان ومذاہب کا اختلاف منظور نہ ہوتا تو سارے کے سارے لوگ ایک ہی مذہب کے حامل ہوتے؛ لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں یہ بات مقدر ہے کہ اس دنیا میں اختلاف مذہب قائم رہے گا: ولو شاء ربک لجعل الناس أمۃ واحدۃ ولا یزالون مختلفین (ہود: ۱۱۸)؛ اس لئے مسلمانوں کو اس بات سے منع کیا گیا کہ دوسری قومیں جن دیویوں دیوتاؤں کی پوجا کرتی ہیں، ان کو برا بھلا کہا جائے : ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوااللہ عدوا بغیر علم (انعام: ۱۰۸) اگر اسلام نے امت محمدیہ کا مقصد دوسروں سے لڑنا، ا ن سے جنگ کرنا اور زبردستی ان کا مذہب تبدیل کرانے کی کوشش کرنا قرار دیا ہوتا تو یقیناََ مسلمان بحیثیت امت قابل نفرت ہوتے؛ لیکن اسلام نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے؛ بلکہ امت کو بہتر مقاصد کے لئے برپا کیا گیا ہے؛ اس لئے اس سے نہ وطن عزیز کا کوئی نقصان ہے نہ برادران وطن کا اور نہ انسانیت کا۔ !!!

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com