شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اللہ تعالیٰ نے انسان کی صلاحیتوں کومحدود رکھا ہے ، اس کی قوتیں ایک خاص دائرہ میں کام کرتی ہیں ، مثلاً انسان کو ایک بہت بڑی نعمت دیکھنے کی دی گئی ہے ، پتھر اور لوہے کس قدر مضبوط ہیں ، سمندر کا دامن کس قدر وسیع اور بے پناہ ہے ؛ لیکن وہ دیکھ نہیں سکتے، انھوں نے آج تک خود اپنے حسن و جمال کو بھی دیکھا نہیں ہوگا ؛ لیکن انسان ایک خاص حد تک ہی چیزوں کو دیکھ سکتا ہے ، اگر کوئی رکاوٹ نہ بھی ہو تو انسان کو آدھے ایک کیلومیٹر سے آگے کی چیزیں صاف نظر نہیں آتیں ، اگر بیچ میں دیوار حائل ہو تو بالکل قریب کی چیزوں کو بھی وہ نہیں دیکھ سکتا ، انسان میں سننے کی صلاحیت رکھی گئی ہے ؛ لیکن اس کا بھی یہی حال ہے ، اس کی سماعت کا دائرہ چند فرلانگ تک ہوتا ہے ، یہ بھی اس وقت ہے کہ جب کوئی چیز حائل نہ ہو ، ورنہ دو کمروں کے بیچ چند انچ کی دیوار ہوتی ہے اور ایک طرف کی آواز دوسری طرف بالکل سنائی نہیں پڑتی ، انسان کے دیکھنے اور سننے کے دائرہ کو جو محدود رکھا گیا۔
بظاہر یہ ایک محرومی معلوم ہوتی ہے ؛ لیکن حقیقت میں یہ بجائے خود اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ، ہر انسان اپنے لیے تنہائی( Privacy) چاہتا ہے جو دوسرے کی مداخلت سے آزاد ہو ، انسان کی بہت سی ضروریات ایسی ہیں ، جن میں دوسروں کی آنکھ اور کان کے تعاقب سے باہر ہونا ، اس کے لیے ضروری ہوجاتا ہے ، فرض کیجئے کہ کسی مکان میں بہت سے کمرے ہوں ، ہر کمرے میں الگ الگ لوگ رہتے ہوں ، وہ سب ہمہ وقت ایک دوسرے کی نظر میں ہوں اور ایک دوسرے کی چھوٹی بڑی بات کانوں سے ٹکراتی رہتی ہو تو اس کے لیے زندگی گزارنا کتنا دو بھر ہو جائے گا ، اسے اپنے مکان میں رہتے ہوئے بھی ایسا محسوس ہوگا کہ وہ ریلوے کے کسی پلیٹ فارم پر مقیم ہے ؛ اس لیے انسان کی صلاحیتوں کا محدود ہونا بظاہر ایک محرومی معلوم ہوتی ہے ؛ لیکن در حقیقت یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور انسان کے لیے سامان راحت ؛ بلکہ ایک ضرورت ہے ۔
انسان اپنی محدود دیکھنے اور سننے کی صلاحیت کی وجہ سے بہت سی باتیں جاننے میں دوسروں کی اطلاع کامحتاج ہوتا ہے ، اس کے سوا چارہ نہیں کہ اپنے چشم سر سے دیکھے اور گوشِ سر سے سنے بغیر بعض امور کو تسلیم کرے ؛ اس لیے دنیا کا سارا کاروبار دوسروں کی دی ہوئی خبر پر اعتماد و یقین سے متعلق ہے ، اور اسی طرح نظامِ زندگی جاری و ساری ہے ، خبریں صحیح بھی ہوتی ہیں اور غلط بھی ، سچی بھی ہوتی ہیں او رجھوٹی بھی ، خبر دینے والے جھوٹے بھی ہوتے ہیں ، بعض لوگ طبعاً بُرے نہیں ہوتے ؛ لیکن ان کی طبیعت میں مبالغہ ہوتا ہے ، وہ لفظوں کے ایسے بازیگر ہوتے ہیں ، کہ سننے والوں کو رائی پہاڑ محسوس ہوتا ہے ، کچھ لوگ شریف اور نیک تو ہوتے ہیں ؛ لیکن سادہ لوح اور بھولے بھالے ہونے کی وجہ سے ہر طرح کی باتوں کا یقین کرلیتے ہیں ، کسی خبر پر جرح نہیں کرتے اور اس کے کھرے کھوٹے کو پرکھے بغیر مان لیتے ہیں ، بعض حضرات سے کسی بات کو سننے یا سمجھنے میں غلط فہمی بھی ہو جاتی ہے ، یہ مختلف اسباب ہیں ،جن کی وجہ سے دانستہ یا نادانستہ اور بالارادہ یا بلا ارادہ خلاف واقعہ باتیں لوگوں میں چل پڑتی ہیں ، ایسے ہی بے سروپا باتوں کو ’’ ہوا ‘‘ کہتے ہیں ۔
بارہا ایسا ہوا کہ کسی شخص نے کچھ لوگوں کو بھاگتے ہوئے دیکھا ، یہ دوڑ بھاگ کسی اورسبب سے تھی ؛ لیکن شہر کی فضاء کو دیکھتے ہوئے بعض لوگوں کو خیال ہوگیا کہ شاید دو گروہوں کے درمیان تصادم ہو گیا ہے ، اب اس خوف سے انھوں نے خود بھاگنا شروع کیا ، آتے ہوئے راستہ میں جو لوگ ملے ہمدردی و بہی خواہی میں انھیں بھی واپس ہونے کی صلاح دے دی ، پھر خبر ایک محلہ سے دوسرے محلہ میں پہنچی اور ایک فرقہ کے ناسمجھ لوگوں نے دوسرے فرقہ کے لوگوں پر وار کردیا ، یہاں تک کہ پورا شہر فساد کی آگ میں بھڑکنے لگا اور اس بے تحقیق خبر کی چنگاری نے پورے علاقہ کے امن و امان کو نذر آتش کردیا ، اس طرح کے واقعات ہمارے سماج میں پیش آتے رہتے ہیں ، افواہوں کی بناپر گروہی لڑائیاں ٹھن جاتی ہیں ، ادارے اورجماعتیں تقسیم ہو جاتے ہیں ، اجتماعی کاموں میں رخنہ پڑتا ہے ، خاندانوں میں نفرت کی آگ سلگ جاتی ہے ، بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں ، یہاں تک کہ میاں بیوی میں طلاق کے واقعات پیش آجاتے ہیں ،والدین ، اولاد اور قریب ترین اقارب کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی ہوجاتی ہے ،افواہوں کی گرم بازاری نے بہت سے مخلص ، محب قوم ، برگزیدہ شخصیتوں کو بے آبرو کیا ہے اور خود غرضی و بدخواہ افراد کی طالع آزمائی کو کامیابی سے ہم کنار کر کے قوم و ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہونچایا ہے ۔
افواہوں کو جنم دینا ، انھیں پھیلانا اور ان کو تقویت پہنچانا نہایت ہی ناشائستہ و نامناسب عمل ہے ، اللہ تعالیٰ نے اخبار و واقعات کے بارے میں یہ اُصولی رہنمائی فرمائی ہے کہ جب کوئی ناقابلِ بھروسہ آدمی کوئی خبر لائے تو جب تک اس کی اچھی طرح تحقیق نہ ہو جائے اس پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے :
یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِنْ جَاءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوْا أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْماً بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ ۔ (حجرات: ۶)
اے مسلمانو! اگر تمہارے پاس کوئی غیر معتبر شخص کوئی خبر لائے تو اس کی خوب تحقیق کر لیا کرو (کہیں ایسا نہ ہو) کہ تم کسی گروہ کو ناواقفیت میں نقصان پہنچادو، پھر تم کو اپنی حرکت پر پچھتانا پڑے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ بے تحقیقی خبروں پر یقین نہیں کرنا چاہیے ، اگر اس پر یقین کیا گیا تو یہ نقصان اور مضرت کاباعث ہوگا ، یہ آیت ایک خاص واقعہ کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ بنو مصطلق کی طرف — جو مسلمان ہو چکے تھے — اپنے نمائندہ ولید بن عقبہ کو بھیجا ، بنو مصطلق نے جب نمائندۂ نبوی کو دیکھا تو ان کے احترام و توقیر کے لیے آبادی سے باہر نکل آئے، ولید نے سمجھا کہ یہ لوگ ان کے قتل کے درپے ہیں اور پچھلے پاؤں واپس آگئے ، آکر حضور ﷺ کو اطلاع دی کہ یہ لوگ مرتد ہوگئے ہیں ، یہ زکوٰۃ ادا کرنے کے منکر ہیں اور ان کے قتل کے درپے ہو گئے تھے ،آپ ﷺ نے ان سے جہاد کا ارادہ فرمالیا ، ابھی تیاری کے مرحلہ میں تھے کہ بنو مصطلق کاوفد آپہنچا ، انھوں نے عرض کیا کہ آپ کے قاصد آرہے تھے ، ہم اس لیے نکلے کہ ان کا استقبال کریں اور اپنی زکوٰۃ ان کی خدمت میں پیش کریں ، ہمیں معلوم ہوا کہ انھوں نے یہ خیال کیا ہے کہ ہم لوگ ان سے جنگ کے لیے نکلے تھے ، سو یہ غلط ہے ، اسی موقع سے یہ آیت نازل ہوئی ، (قرطبی:۱۶؍۳۱۱) — غور کیجئے کہ یہ عہدِ نبوی کا واقعہ ہے ، اور یہ اطلاع ایک صحابی رسول کی تھی ، انھوں نے دانستہ غلط بیانی سے یقیناً کام نہیں لیاتھا کہ یہ مقام صحابیت سے فروتر بات ہے ؛ بلکہ یہ محض غلط فہمی کا نتیجہ ہے ،یہ ناداستہ غلط فہمی بھی کتنے بڑے انتشار کاپیش خیمہ بن سکتا تھا ، تو جہاں افواہیں بالقصد پیدا کی جاتی ہوں ، ان سے کس قدر نقصان ہوگا ؟
افواہوں کے پھیلنے کے چند خاص اسباب ہیں ، ان میں سے ایک اہم سبب یہ ہے کہ لوگ ہر سنی سنائی ہوئی بات کونقل کرتے چلے جاتے ہیں ، خواہ وہ بات کسی قدر بھی بے بنیاد ہو ، بعض لوگوں نے اس کے لیے ’ دروغ برگردن راوی ‘ کی ایک خود ساختہ بیساکھی تیار کر رکھی ہے ، اور اس کے ساتھ ہر گفتنی و ناگفتنی کو نقل کردینے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے ، یہ بھی خدا سے بے خوفی کی بات ہے ، رسول اللہ ﷺ نے بیماری کی تشخیص کرتے ہوئے فرمایا : آدمی کے گناہ گار ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو نقل کردے : کفی بالمرء کذباً أن یحدث بکل ما سمع (مسلم، حدیث نمبر: ۷) — ہرسنی سنائی بات کو نقل کرنے سے معاشرہ میں کس طرح بگاڑ پیدا ہوتا اور فساد پھیلتا ہے ، اس کی مثال رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں پیش آنے والا ’’ واقعۂ افک ‘‘ ہے ، کچھ بیمار ذہن منافقین نے اُمت کی ماں سیدنا حضرت عائشہ صدیقہؓ پر تہمت لگادی ، اور اس افواہ کو پھیلانے کی خوب کوشش کی ، نتیجہ یہ ہوا کہ بعض سادہ لوح ، مخلص مسلمان بھی اس میں شریک ہوگئے اور مدینہ میں ایسے انتشار کی کیفیت پیدا ہوئی کہ حیاتِ نبوی میں شاید ہی کسی اور واقعہ سے آپ ﷺ کو اس درجہ تکلیف پہنچی ، یہ اسی بات کانتیجہ تھا کہ ایک سنی سنائی بات کو کچھ لوگ بلاتحقیق کہتے چلے گئے ۔
ان افواہوں میں اضافہ ان لوگوں کی وجہ سے ہوتا ہے ، جو بری باتوں کے متلاشی رہتے ہیں ، لوگوں کی برائیوں اور کوتاہیوں کے بارے میں تجسس سے جن کو لذت ملتی ہے ، اور کسی واقعہ میں اگر چند احتمالات ہوں ، تو منفی پہلو کی طرف ان کاذہن زیادہ چلتا ہے ، اس طرزِ عمل کو حضور ﷺ نے پسند نہیں کیا ؛اسی لیے تجسس کو منع کیا گیا ، اور ان لوگوں کو کج فکر قرار دیا گیا جوکسی بات کی غلط تاویل و توجیہہ کے درپے ہوتے ہیں :
فَاَمَّا الَّذِیْنَ فیْ قُلُوبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاءَ تَأوِیْلِہٖ ۔ (آل عمران:۷)
تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے ، وہ فساد پیدا کرنے کے ارادہ سے اور اس کے (من چاہے) مطلب کی تلاش میں مبہم آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔
افواہیں عام طور پر اعلانیہ نہیں پھیلائی جاتیں ، ریڈیو اور اخبارات کو ان کا ذریعہ نہیں بنایا جاتا ( ویسے آج کل حکومتوں کے غیر ذمہ دارانہ اورذرائع ابلاغ کے جانب دارانہ رویہ کی وجہ سے ایسا بھی ہو رہا ہے ) ؛ بلکہ زیادہ تر سینہ بسینہ افواہیں پھیلائی جاتی ہیں ، اور سرگوشیوں کے ذریعہ گشت کرتی رہتی ہیں ؛ اسی لیے زیادہ تر سر گوشیوں کوقرآن مجید نے پسند نہیں کیا : لاَ خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوَاھُمْ ۔ (نساء:۱۱۴)
کسی بھی خبر کے بارے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ یا انسان خود اس کی تحقیق کرلے ، یا کم سے کم ایسے سمجھدار ، معاملہ فہم اور زمانہ آگاہ لوگوں کی طرف رجوع کرے ، جن کے بارے میں توقع ہو کہ وہ مناسب طریقہ پر اس کی تحقیق کرنے کے بعد کوئی صحیح قدم اُٹھائیں گے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
جب اُن کو امن یاخوف کی کوئی خبر ملتی ہے تو اس کو مشہور کر دیتے ہیں اور اگر وہ اس کو رسول اور اپنے میں سے ذمہ داروں تک پہنچا دیتے تو ان میں سے جو تحقیق کرنے والے ہیں ، وہ اس کی تحقیق کر لیتے ، اور اگر تم پر اللہ کا کرم اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو —کچھ لوگوں کے سوا — تم تو شیطان کی پیروی کر لئے ہوتے۔ (نساء: ۸۳)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس بنیادی مرض کا علاج بتایا ہے ، جو افواہوں کاباعث ہوتا ہے ، اور وہ یہ کہ جو باتیں اہم ہوں ان کے بارے میں اگر انسان خود تحقیق کی صلاحیت نہ رکھتا ہو ، تو اس کی صلاحیت رکھنے والوں سے رجوع کرلے ، اور کسی بھی بات کو بلا تحقیق بیان کرنے ؛ بلکہ خود بھی اس پریقین کرنے سے گریز کرے؛ کیوں کہ انسان اپنے کانوں ، اپنی آنکھوں اور اپنے دلوں کا مالک نہیں ؛ بلکہ امین ہے ، اس کے بارے میں وہ عند اللہ جوابدہ ہے : اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓـئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤُولاً ۔ (اسراء: ۳۶)