۱۸ ؍ د سمبر عربی زبان کا عالمی دن : ایک مختصر تاریخی جائزہ

محمد دانش انور (ریسرچ اسکالر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی لکھنؤ کیمپس)

ہر سال دسمبر کی اٹھارویں تاریخ کو عربی زبان کے عالمی دن کی بین الاقوامی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، یہ وہ دن ہے جب اقوام متحدہ نے ۱۹۷۳ میں عربی کو سرکاری زبان کے طور پر اپنانے کا فیصلہ کیا تھا ، اور پھر یونیسکو نے اسے بین الاقوامی عربی دن بنا دیا تھا اس موقع پر ، عربی زبان سے وابستہ تنظیمیں اور یونیورسٹیاں سیمینار اور خوشی کے تقاریب کا انعقاد کرتی ہیں جس میں وہ قدیم اور جدید دور میں عربی زبان کی اہمیت اور اس کی حیثیت کی یاد دلاتے ہیں، عربی زبان کودنیا کی سب سے قدیم زبانوں اور سب سے زیادہ الفاظ والی زبان میں سے ایک سمجھا جاتا ہے ؛ اس کی تاریخ ۱۸ صدیوں سے بھی زیادہ پرانی ہے ، اور اس کے الفاظ بارہ ملین الفاظ سے زیادہ ہیں چنانچہ آج ، عربی ۴۲۲ ملین سے زیادہ افراد بولتے ہیں اور دنیا میں ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کی عبادت کی زبان ہے ۔

تاریخی سیاق و سباق: اقوام متحدہ کی تعلیمی ، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (یونیسکو) کی طرف سے دیگر عالمی زبانوں انگریزی ، فرانسی، ہسپانوی ، چینی اور روسی کی طرح عربی زبان کےلیے بھی ایک دن یعنی ۱۸ دسمبر مقرر کیا گیا اور اسی دن تنظیم عربی زبان کا عالمی دن بطور جشن مناتی ہے ، پھر ہر سال عربی زبان کا عالمی دن منانا تنظیم کی سرگرمیوں اور اہداف میں شامل ہے جس کا مقصد دنیا کے سامنے عربی کے مختلف الانواع عالمی ثقافتی ورثے کو لاکر اسے سراہنا اور اسے محفوظ رکھنا ہے ۔

یہ تاریخی فیصلہ خود سے صادر نہیں ہوا تھا، بلکہ اس کے پیچھے کڑی محنت اور جہد مسلسل کار فرما ہے جو یہاں لائق ذکر ہیں، اور ذیل میں اس کا ایک سرسری حوالہ پیش کیا جاتا ہے:

۱: ۴دسمبر ۱۹۵۴کو ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار داد منظور کی جس کا ترجمہ صرف عربی میں کیا گیا ۔ (اس کے لیے جو کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہیں وہ پچھلی صدی کے پچاس کی دہائی سے کی گئی ہیں) ۔

۲: ۱۹۶۰ میں ، یونیسکو نے عربی بولنے والے ممالک میں منعقدہ علاقائی کانفرنسوں میں عربی زبان استعمال کرنے اور بنیادی دستاویزات اور اشاعتوں کو عربی میں ترجمہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔

۳: ۱۹۶۶ میں ، یونیسکو میں عربی زبان کے استعمال کو فروغ دینے کے لئے ایک فیصلہ جاری کیا گیا تھا اور پروگرام کے مکمل نششتوں کے فریم ورک میں عربی اور عربی سے دوسری زبانوں میں تشریحی ترجمہ کے خدمات کوفراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔

۴: ۱۹۶۸ میں ، یونیسکو میں عربی کو آہستہ آہستہ ورکنگ لینگویج کے طور پر اپنایا گیا اور بیک وقت عربی میں ترجمے کی خدمات دستیاب کی گئیں ۔

۵: ستمبر ۱۹۷۳ میں ، عربی زبان کو جنرل اسمبلی کے نششتوں کے دوران زبانی زبان کے طور پر استعمال کیا گیا ۔

۶: لیگ آف عرب اسٹیٹس نے اپنے ساٹھویں اجلاس میں ایک قرارداد جاری کی کہ عربی کو اقوام متحدہ اور اس کے باقی اداروں کی سرکاری زبانوں میں سے ایک بنایا جائے ۔

۷: دسمبر۱۹۷۳میں ، جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد جاری کی جس میں عربی کو جنرل اسمبلی اور اس کے اداروں کی سرکاری زبان بنانے کی سفارش کی گئی تھی ۔ (جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں ان فعال اقدامات کے پیچھےمسلسل سفارتی دباؤ اور عرب کی کوششیں تھیں ، جو بالآخر عربی زبان کے عالمی دن پر اختتام پذیر ہوئیں) ۔

۸: ۱۹۷۴میں ، ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے نششتوں میں عربی کو ورکنگ لینگویج کے طور پر استعمال کیا گیا ، اور اسے ایجنڈے میں شامل کیا گیا ۔ (اس کی وجہ عرب جمہوریہ مصر ، عراق ، یمن ، الجیریا ، سعودی عرب ، تیونس ، لیبیا، کویت اور لبنان کی حکومتوں کی جانب سے ہونے والی کوششیں اور ان کی درخواستیں تھیں) ۔

۹: اکتوبر ۲۰۱۲ میں ، یونیسکو نے پہلی بار عربی زبان کا عالمی دن منایا ۔

۱۰: ۲۳ اکتوبر ،۲۰۱۳ کو ، (ارابیا) ، یونیسکو کے عرب ثقافت کی ترقی کے لئے بین الاقوامی منصوبہ کے مشاورتی کمیٹی نے عربی زبان کے عالمی دن کو اپنی سالانہ مرکزی سرگرمی کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا۔

مقاصد: عربی زبان کے عالمی دن کا مقصد تاریخ میں انسانی علوم کے مختلف پہلوؤں میں اس زبان اور اس کے جاننے والوں کی علمی، فکری اور سائنسی شراکت کو اجاگر کرنا ہے، ساتھ ہی عرب اسلامی تہذیب نے جو کارہائے نمایاں سائنس ، علم ، ادب اور فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں انجام دی ہے اسے دنیا کےسامنے پیش کرنا ہے جس کی وجہ سے یورپ کی نشاۃ ثانیہ ہوئی اور پھر صنعتی انقلاب میں دنیا آیا جس نے قرون وسطی کے آخر سے دنیا میں مغرب کی قیادت کی بنیاد رکھی۔

عربی زبان کا عالمی دن بھی اس زبان کی مرکزیت پر زور دینے کی کوشش کرتا ہے ، جو کہ سب سے زیادہ بولی جانے والی سامی زبانوں میں سے ایک ہے ، جس کے بولنے والوں کی تعداد عرب ممالک میں ۴۲۰ ملین افراد سے زیادہ ہے ، اور اس کے علاوہ ، اس زبان کا جاننا ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ اپنے مذہبی امور کو بحسن خوبی انجام دے سکیں اور مشرق میں متعدد عیسائی گرجا گھروں کی طرف سے اختیار کی گئی زبان بھی ہے ، اور جس میں یہودی ثقافتی اور مذہبی ورثے کا ایک اہم حصہ کتابی شکل میں موجود ہے ۔

چیلنجز : عربی زبان کو بہت سے مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے جیسے نت نئے ایجادات، سائنسی اور تکنیکی معلومات اور اس کی اصطلاحات جس سے دنیا متعارف ہے لیکن عرب ان سے ناواقف اور ان اصطلاحات کے مفہوم کو اپنی زبان میں ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں اور درحقیقت یہ خسارہ ساختی نہیں ہے ، کیونکہ زباندان اور ماہر لسانیات کو اس زبان کی منفرد قابلیت اور اس کی لغت کی فراوانی پر کوئی شک نہیں ہے ۔

عربی زبان کوجن مسائل کا سامنا ہے ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی نشوونما کے لیے دیگر زبانوں کی طرح خاطر خواہ حکومتی اقدامات نہیں پائے جاتے ہیں اور عام طور پر عرب کا سائنٹفک تحقیق ، خاص طور پر زبان ، لسانیات اور مواصلات کے علوم میں پیچھے رہ جانا ہے نیز عرب ممالک میں حکومتی ادارے، انتظامی امور ، معاشی ڈپارٹمنٹ اور تعلیمی میدان میں مغربی زبانوں کی بالادستی ہے جو عربی زبان کوتیزی سے ترقی کرنے سے روکتی ہے اور اس کے لیے اپنی سابقہ تاریخی حیثیت کو دوبارہ حاصل کرنے میں رکاوٹ ہے، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب کوئی کتاب انگریزی میں شائع ہوتی ہے جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں سارے زبان پر غالب ہے اس کا اوسطا تین سال کے بعد فرانسیسی میں ترجمہ کردیا جاتا ہے، جبکہ اس کا ترجمہ عربی میں تقریباً دو دہائیوں کے بعد ہی کیا جاتا ہے ، اور جس کی دوسری مثال لاطینی زبانوں کا ان کے الفاظ کو الگ سے لکھنے کے امکان کی وجہ سے “ڈیجیٹلائز” کرنا آسان ہیں ، جو عربی کے لئے دستیاب نہیں ہے ، حالانکہ ہر عربی حرف کو الگ سے لکھا جاسکتا ہے ، جو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ رکاوٹ ساختی نہیں ہے ، اس کے علاوہ عربی زبان کی حقیقت یہ ہے کہ ہر عربی ملک خودکا لغوی و اصطلاحی معاجم بنانے کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ سے کسی ایک اصطلاح پر متحد نہیں ہو پاتے اور یوں عربی زبان اپنوں کے اختلاف کا شکار ہے اور ترقی کی تیز راہ پر گامزن نہیں ہو پارہی ہے۔

لہذا عرب ممالک کو چاہیے کہ ایک متحد ہ ورکنگ کمیٹی بنائیں جو عربی کو نئے ایجادات ، سائنسی تحقیقات ، اور ٹکنیکل اصطلاحات پر غور و فکر کرکے اس سے ہم آہنگ کرے ساتھ ہی اسے ہر میدان میں ماضی کی طرح آفاقی زبان بنائیں اور پھر سے دنیا کو اپنے انوکھے اسلوب اور بے نیازی سے گرویدہ بنا لے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com