افتخار گیلانی
کشمیری یا کاشرزبان نے اپنی دو ہزار سالہ تاریخ میں کئی جید شاعر و ادیب پیدا کئے ہیں، جنہوں نے اس خطے کی تہذیب و ثقافت پر گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ جہاں للا دید، شیخ نورالدین ولی اور محمود گامی نے عارفانہ فلسفیانہ کلام پیش کیا، تو وہیں غلام احمد مہجور اور مشتاق کشمیری سالہا سال سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوم کی آواز بن گئے۔ حالیہ عرصے میں اگر اس زبان کے کسی ادیب و شاعر نے نام کمایا، تو وہ بلا شبہ عبدالرحمان میر المعروف رحمان راہی تھے، جنہوں نے کشمیر ی زبان کی تحلیقی نشونما میں غیر معمولی خدمات انجام دئے۔ ملک کشمیر کے اس عظیم فرزندنے 9جنوری کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ وہ پہلے کشمیر مصنف تھے، جن کو ان کے شعری مجموعہ”سیاہ رود جیران منز“ (سیاہ بوندا باندی) کے لئے 2004 میں اعلیٰ ترین ادبی اعزاز گیان پیٹھ سے نوازا گیا۔ گیان پیٹھ ایک غیر سرکار ادارہ ہے، جو ہر سال کسی ایک زبان کے ادیب یا شاعر کو تخلیقی ادب میں غیر معمولی خدمات انجام دینے کے اعتراف میں نوازتا ہے۔ ان کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ مترجم کی حیثیت سے انہوں نے بابا فرید کی پنجابی صوفی شاعری کا کشمیری زبان میں ترجمہ کیا۔
ان کی پیدائش سرینگر میں 1925میں ہوئی۔ سرینگر کے ہی گورنمنٹ ایس پی کالج سے بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1948 میں محکمہ پبلک ورکس میں بحثیت کلرک انہوں نے کئی ماہ تک کام کیا۔اس کے بعد پھراپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھتے ہوئے جموں و کشمیر یونیورسٹی سے 1952میں فارسی اور 1962 میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ صحافت کے میدان میں قدم رکھ کر ”روزنامہ خدمت“ کے ساتھ بھی کام کیا اور اردو ربان و ادب کے معتبر ادبی رسالے ”آج کل“ کی مجلس ادرات کے ساتھ سات سال تک وابستہ رہے۔کشمیر یونیورسٹی میں بارہ سال تک شعبہ فارسی اور اردو میں استاد رہے اور بعد میں شعبہ کشمیری کے بانی اور سربراہ رہنے کے بعد 1985 میں ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔
راہی صاحب انجمن ترقی پسند مصنفین (کشمیر) کے جنرل سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔اس ا نجمن سے شائع ہونے والے مجلہ ”کونگ پوش“کے مدیر کے فرائض بھی انجام دئیے ہیں۔اس تعلق کے حوالے سے وہ بتاتے تھے کہ دوران طالب علمی ماکسز م کے حوالے سے اخبار میں ان کا ایک مضمون شائع ہو گیا، تو دینا ناتھ نادم اور سوم ناتھ زتشی، جو ادب میں نام کما چکے تھے، نے ان کو کمیونسٹ پارٹی سے متعارف کرایا۔ سرینگر میں کمیونسٹ پارٹی کے دفتر سے متصل نمائش گاہ میں میں ہر ہفتے ایک ادبی نشست ہوتی تھی، جہاں کوئی افسانہ، خاکہ یا اشعار سنانے ہوتے تھے۔
مرحوم صحافی مقبول ساحل کو2018 میں ہفتہ وار کشمیر پرچم کیلئے ایک تفصیلی انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ان کو احساس ہو گیا تھا کہ کمیونزم ٹکنے والا نظریہ نہیں ہے۔ ”اسٹالن نے اسکو بری طرح ایکسپوز کر دیا تھا۔“ ان کا کہنا تھا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے ذمہ دار کی حثیت سے علی سردار جعفری کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم ہو گیا تھا، مگر ساہتیہ اکیڈیمی کے ایک ادبی سیمینار میں ایک ادبی موضوع پر سجاد ظہیر کی رائے کے ساتھ اختلاف کرنا انکو بھاری پڑا۔ جس سے انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ترقی پسندوں کا ذہن آمرانہ ہو چکا ہے اب وہاں مشوروں کی جگہ حکم نامے جاری ہوتے ہیں، جس سے و ہ دلبرداشتہ ہوگئے۔ سری نگر کی ہفتہ وار ادبی مجلس کے دوران انہوں نے اپنی ایک نظم ”سونہ لانکہ پیٹھ“ سنائی، جو انہوں نے اپنے برادر اکبر کی وفات کے حوالے سے موت و حیات کے فلسفہ پر لکھی تھی۔”اس نشت میں مجھ پر طنز کیا گیا، کہ میں موت کا فلسفہ لے کر بیٹھ گیا۔ اس دن مجھے لگا کہ مجھے اس دنیا سے باہر نکلنا چاہئے۔“
بقول برج ناتھ بیتاب، ان کی شاعری میں گل و بلبل اور کشمیر کے قدرتی نظاروں کی رومانیت تو نہیں ہے، مگر ان کا قلم وسیع تر سروکاروں کو تمام تر انسانی دردمندی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ گو کہ ان کا شمار انقلابی یا مزاحمتی شاعروں میں نہیں ہوتا ہے، مگر کشمیر کے حالات و واقعات سے وہ لاتعلق بھی نہیں ہیں۔
مثال کے طور پر:
اس شب سیاہ شہر کا کوئی خدا نہیں
یاد کسی کو صبح کی کیا کوئی دعا نہیں (کشمیری سے ترجمہ)
کون تھا، اسے کیو ں مارا اور لاش کیا ہوئی
سو باتوں کی ایک ہی بات نہیں خبر وخاموشی (کشمیر ی سے ترجمہ)
مرحوم راہی نے متعددبار جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد یایسن ملک کے دھرنوں میں حصہ لیا۔کشمیری زبان کی زبوں حالی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بار انہوں نے کہا کہ صدیوں کی غلامی کے سبب اس زبان کو اپنا بھر پور جوہر دکھانے کا موقع نہیں ملا۔ تاہم ایک طویل جبر کے باوجود اسکی قوت مدافعت اس کے باشندوں کے صبر کی طرح قابل داد ہے۔ انہوں نے انگریزی، فرانسیسی، جرمن، روسی اور ترکی زبانوں کے بعض عمدہ فن پاروں کو کشمیری زبان میں منتقل کرنے کا بھی کام کیا۔
2003میں جب پہلی بار بھارت کی انسانی وسائل کے وزیر پروفیسر مرلی منوہر جوشی نے تجویز دی کہ کشمیری زبان کے لیے دیوناگری کو ایک متبادل رسم الخط کے طور پر سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے اور اس زبان کا قدیمی شاردا اسکرپٹ بھی بحال کیا جائے، تو انہوں نے سوال کیا کہ اگر کشمیری زبان کا اسکرپٹ شاردا میں بحال کرنا ہے، تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا قدیمی رسم الخط بھی بحال کرو۔ یہ کرم صرف کشمیری زبان پر ہی کیوں؟انہوں نے اس وقت کے وزیرا علیٰ مرحوم مفتی محمد سعید نے کو قائل کرالیا کہ وہ اس کے خلاف سینہ سپر ہوجائیں، کیونکہ اس سے پچھلے 600 برسوں سے وجود میں آیا کشمیری زبان و ادب نابود ہو جائے گا۔
نریندر مودی حکومت نے برسرِاقتدار آنے کے بعد جب شمال مشرقی صوبہ اڑیسہ میں بولی جانے والی اوڑیہ زبان کو کلاسک زبان کا درجہ دیا، تو کشمیر کی ادبی تنظیموں کی ایما پر ریاستی حکومت نے بھی کشمیر ی زبان کو یہ درجہ دلانے کے لیے ایک یادداشت مرکزی حکومت کو بھیجی۔ فی الحال تامل، سنسکرت، کنڑ، تیلگو، ملیالم اور اوڑیہ کو بھارت میں کلاسک زبانوں کا درجہ ملا ہے۔ کلاسک زبان قرار دیے جانے کا پیمانہ یہ ہے کہ زبان کی مستند تاریخ ہو اور اس کا ادب وتحریریں 1500سال یا اس سے زیادہ قدیم ہوں۔ اس کے علاوہ اس کا ادب قیمتی ورثے کے زمرے میں آتا ہو۔ نیز اس کا ادب کسی اور زبان سے مستعار نہ لیا گیا ہو۔ چونکہ ان سبھی پیمانوں پر کشمیر ی یا کاشرزبان بالکل فٹ بیٹھتی تھی، اس لیے خیال تھا کہ یہ عرض داشت کسی لیت و لعل کے بغیر ہی منظور کی جائے گی۔ عرض داشت میں بتایا گیا تھا کہ ”کشمیر ی زبان سنسکرت کی ہم عصر رہی ہے نہ کہ اس سے ماخوذ ہے۔ بھارت میں جہاں آجکل تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے، وہیں مختلف زبانوں کے ماخذ بھی سنسکرت سے جوڑے جا رہے ہیں۔ مگرحکومت کا کہنا ہے کشمیری و اقعی کلاسک زبان قرار دیے جانے کی اہل ہے، مگر شرط ہے کہ اس کے لیے اس کا رسم الخط سرکاری طور پر دیوناگری یعنی ہندی تسلیم کرناہوگا۔
جب اس وقت کشمیری ثقافت، انفرادیت اور تہذیب انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے اور ایک طرح سے بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، ایسے وقت راہی کا منظر سے غائب ہونا کشمیری ادب کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ اس زبان کی عزت و آبرو کا محافظ چلا گیا۔
ان کے خود کے ہی اشعار کے بقول:
بہت آئے، مگر ہم جیسے کم ہی دیدہ ور آئے
ہماری طرح جو، ان کے لب و رخ تک گزر آئے
انہی تاریکیوں میں آو ہم ڈھونڈے کرن کوئی
یہ کب تک انتظار کہ شب گزرے، سحر آئے
سچ ہے کہ نہ جانے کب تک کشمیری قوم کو سحر کا اور کسی دیدہ ور انتظار ہے۔۔۔الوداع رحمان راہی صاحب۔