عابد انور
مغربی اقوام لباس، رہن سہن، بات چیت،باڈی لنگویز سے جتنی مہذب نظر آتی ہے درحقیقت وہ اتنی ہے نہیں۔ ان کے علم و حکمت کی وجہ سے دوسروں قومیں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ علم ہونا ہے الگ بات ہے تہذیب یافتہ یارحم دل ہونادوسری بات ہے۔ جس بات کے لئے یہ قومیں اور وہاں کی حکومتیں پوری دنیا کو سخت لعنت و ملامت بھیجتی رہی ہیں انہی چیزوں سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہمیشہ نظر آئے۔ اگر کسی ملک میں اس قوم نے سو ڈالر کی امداد دی ہے تو ایک ہزار ڈالرکی برائی پھیلائی ہے۔ اس قوم کو دوسرے مسلم ملکوں میں عورتوں کے حقوق اور ان کے اختیارات کی بڑی فکر ہے لیکن وہ اپنے یہاں ان ہی حقوق سے مسلم خواتین محروم رکھنا چاہتی ہیں۔ وہ زبردست اظہارِ خیال کی آزاد ی کی وکالت کرتی نظر آتی ہیں لیکن جب کوئی مسلمان ہولوکاسٹ کے بارے میں کچھ کہتا ہے کہ تو فوراً اس کے خلاف مقدمہ دائر کردیا جاتا ہے۔ دوسری آنحضورصلی اللہ علیہ و سلم کے کارٹون بنانے والوں کی اس بنیادپرحمایت کی جاتی ہے کہ ہر شخص کو اظہار آزادی کا حق حاصل ہے لیکن یہی حق اگر کوئی مسلمان استعمال کرنا چاہتا ہے تو اس قوم کا رویہ اس کے برعکس ہوجاتا ہے۔ مغرب کو انسانی حقوق کی بڑی فکر رہتی ہے اس کی بہت ساری تنظیمیں اس میدان میں کام کر رہی ہیں لیکن اس قوم کا معیار ہمیشہ دوہرا ہوتا ہے۔ ابوغریب اورافغان کے بگرام قید خانہ یا گوانتانا موبے کی جیل ہو جس طرح انسانیت سوز واقعات پیش آئے ہیں اس سے مغربی اقوام کو کوئی فرق پڑا ہو یا نہ پڑا ہو لیکن پوری انسانیت شرمسار ضرور ہوئی ہے۔ وہ مسلمانوں کی اخلاقیات اور آزادی کی بات کرتے ہیں مسلمانوں کے اخلاقات و عادات اور سلوک کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ طالبان کی قید میں رہنے والی برطانوی خاتون صحافی قید سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد مشرف بہ اسلام ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف امریکی جیل میں قید پاکستانی سائنسداں ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر مظالم ڈھانے کی وہ داستان سامنے آئی ہے کہ رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ جیل میں ان کے حاملہ ہونے کی بھی خبر ہے۔ یہ ہے مغربی اقوام کے اخلاق و عادات۔ سیاحت کے نام غریب ملکوں کے بچے بچیوں کاجنسی استحصال کرنے میں مغربی سیاح سب سے آگے ہیں۔ اس کے باوجود یہ قوم سب سے مہذب قوم کا تمغہ لئے پھر رہی ہے۔ تہذیب دوسرے کی تہذیب کی قدر کرنا سکھاتی ہے۔ دوسرے حقوق کا احترام اور اسے اپنے عائلی انداز اور مذہب کے طریقے پر آزادی کی حمایت کرتی ہے لیکن مغرب آج ان سب چیزوں سے کوسوں دور ہے۔ وہاں نقاب، حجاب، اسلامی لباس اور اسلامی وضع قطع کے نام پر مسلمانوں کو معاشرہ کا حصہ بننے سے روکا جارہا ہے۔کئی ملکوں نے ان چیزوں پر پابندیاں لگادی ہیں اور کچھ پابندی لگانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ آج مغرب اسلامو فوبیا کا شکار ہے اور مغرب کے کچھ لوگوں کے اسلام کی طرف بڑھتے ہوئے رجحانات کو کچلنے کے لئے مغربی ممالک طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنا رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان رویوں کا ادراک کرتے ہوئے مغربی ممالک کے تمام شعبوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی طرف توجہ دلائی ہے۔
سوئیڈن اور نیدر لینڈز کے بعد ڈنمارک میں بھی اسلاموفوبیا کا واقعہ پیش آیا، جہاں فاشست سیاسی رہنما نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔گزشتہ روز ڈنمارک میں بھی انتہائی دائیں بازو کے ڈینش سیاستدان راسموس پلودان نے قرآن پاک کے نسخے کو مسجد کے سامنے نذر آتش کردیا تھا۔ سوئیڈن اور نیدر لینڈز کے بعد ڈنمارک میں بھی اسلام مخالف افراد سرگرم ہیں، ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں نماز جمعہ کے بعد مسجد اور ترک ایمبیسی کے سامنے فاشست سیاسی رہنما نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔ یاد رہے ہالینڈ کے درالحکومت ہیگ میں ایک انتہا پسند نے گھناؤنا فعل انجام دیا اور پولیس تماشائی بنی رہی تھی۔ جس طرح 25 جنوری کو ہندوستانی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں ہندو انتہا پسند تنظیم بجرنگ دل کے غنڈوں نے فلم پٹھان کی مخالفت کے بہانے حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی اور پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ ہندوستان میں اسلامو فوبیا عام بات بن گئی ہے۔ بات بات یہاں کا اکثریتی طبقہ کے لوگ اسلام اور مسلمان کی توہین کرنا سب سے بہادری سمجھتے ہیں۔ قرآن پاک کی بے حرمتی پر اسلامی دنیا نے متحد ہوکر مغرب کو سخت پیغام میں واضح کیا تھا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی جیسا مکروہ فعل ناقابل برداشت ہے، مزید امتحان نہ لیا جائے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی حالیہ رپورٹ میں مسلمانوں کے ساتھ کئے جانے والے امتیازی سلوک، دفتروں، راہوں، بسوں، ہوائی جہازوں، ٹرینوں اور دیگر مقامات پر کئے جانے والے بھید بھاؤ اور مذہبی شناخت کے تعلق سے برتے جانے والے رویے کے بارے میں مغربی ملکوں کی آزاد ی اظہار اور شخصی آزادی پر سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ مسلم خواتین کی آزادی کے نام پر کس قدران کے حقوق پرڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس گروپ نے ’انتخاب اور تعصب‘ کے عنوان سے شائع شدہ ایک تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ایسے یورپی ممالک جہاں مذہبی آزادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے، مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے یورپ اور وسطی ایشیاء کے ڈائریکٹر ’جان ڈلہاؤزن‘ کے بقول، ”اس بارے میں کوئی شبہ نہیں، نہ ہی یہ کوئی انوکھی بات ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔“ سب سے زیادہ افسوس اور تکلیف دہ امر یہ ہے کہ یورپی ممالک کے قانونی مسودوں میں امتیازی سلوک کے خلاف نہایت سخت قوانین موجودہیں، اس کے باوجود حکام کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف تعصب کے بڑھتے ہوئے رجحان کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل سے منسلک امتیازی سلوک جیسے مسائل کی ایک اور ماہر ’مارکو پیرولینی‘ نے اس حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ روایتی لباس پہننے والی مثلاً، سر ڈھانپنے یا ہیڈ اسکارف پہننے والی مسلم خواتین کو روزگار کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جبکہ حجاب کا استعمال کرنے والی لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں کلاسوں میں حصہ لینے سے روکا جاتا ہے۔ جبکہ باریش مردوں کو اسلامی عقیدے سے تعلق رکھنے والا گردانتے ہوئے انہیں نوکریوں سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔ ’مارکو پیرولینی‘کے مطابق سیاسی جماعتیں اور سرکاری ملازمین مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے تعصب کا سد باب کرنے کے بجائے اس موضوع کو مزید ہوا دے رہے ہیں اور اس طرح اپنا ووٹ بینک بڑھانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں متعدد ایسے ہی دیگر واقعات کا حوالہ شامل ہے۔ خاص طور سے بلجیئم، فرانس، ہالینڈ، اسپین اور سوئٹزر لینڈ میں یہ سب کچھ عام دیکھنے میں آتا ہے۔ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ تعصب کے انسداد کے لیے جو قوانین موجود ہیں ان کا اطلاق بالکل بھی مناسب انداز میں نہیں کیا جاتا۔ ان ممالک میں آجرین کو مذہبی اور ثقافتی علامات کا استعمال کرنے والے کارکنوں کے خلاف عملاً امتیازی سلوک کی اجازت دی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کا رویہ یورپی یونین کے انسداد تعصب کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
نائن الیون کے بعد مغربی ممالک کے اس امتیاز میں بہت تیزی آئی ہے۔ کسی برقعہ پوش خاتون یاداڑھی والے مسلمان کوہوائی جہاز سے اتار دینا ان ملکوں کے لئے کوئی خجالت کی بات نہیں رہ گئی ہے۔ ان کی بے عزتی کی جاتی ہے، خفیہ ایجنسیاں گھنٹوں ان سے پوچھ گچھ کرتی ہیں۔ یوروپ ملک میں مقیم ہاجرہ بوجینات نے اپنا درد بیان کرتے ہوئے کہاکہ اکثر انہیں ملازمت کے انٹرویوز میں بلایا گیا تاہم ان کا ہیڈ اسکارف دیکھتے ہی انہیں کہہ دیا گیا کہ وہ واپس چلی جائیں اور اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں اکثر اس قسم کے خیالات سننے کو ملتے ہیں کہ ”ہیڈ اسکارف پہننے والی خواتین اگر صفائی کا کام کریں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، مگر سرکاری ادارے میں نقاب لگا کر کام کرنے والی کسی خاتون کو کوئی برداشت نہیں کیا جاتا“۔ مغربی خصوصاً یوروپی ممالک میں نسلی امتیاز برتنا، نسلی منافرت پھیلانا اور نسلی فقرے کسنا سنگین جرائم کے زمرے میں آتا ہے لیکن وہاں مسلمانوں کے اس طرح سلوک روزہ مرہ کی زندگی میں کیا جاتا ہے اور حکومت، عدلیہ، حکام اور میڈیاخاموش رہتا ہے۔انہیں مسلم یادیگر ممالک میں عورتوں پر کئے جانے والے حملے پر فلم بنانا اچھا لگتا ہے لیکن اپنے یہاں کے نسلی امتیاز پرکئی طرح اظہار اچھا نہیں لگتا۔ فرانس میں ۱۱۰۲ میں برقعہ پہنے پر پابند عائد کردی تھی گئی تھی کیوں کہ فرانس کے صدر نکولس سرکوزی کی دوسری اہلیہ اورماڈل کو کپڑا پہننا اچھا نہیں لگتا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ یوروپ کے کئی ملکوں کا دراز ہوتا گیا اور کئی اور ممالک اس حجاب پر پابندی لگانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ اسپین کے دوسرے بڑے شہر بارسلونا میں حکام نے لائبریریز اور بازاروں سمیت عوامی مقامات پر نقاب یا ایسے برقعے پہننے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کیٹالونیا کے شمال مشرقی علاقے کے دو چھوٹے قصبوں، Lerida اور El Vendrell میں پہلے سے ہی عوامی مقامات میں حجاب پہننے پر پابندی عائد ہے۔ کیٹالونیا کو پاکستانی نڑاد مسلمانوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ اسپین کے بعض علاقوں پر آٹھویں صدی سے لے کر پندرہویں صدی عیسوی تک مسلمانوں کی حکومت رہی ہے۔ ۹۰۰۲ کے ایک سروے کے مطابق اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی چودہ لاکھ ہے۔ اسلامک کمیشن آف سپین کا کہنا ہے کہ اس ملک میں مسلمان کل 47 ملین نفوس پر مشتمل آبادی کا تین فیصد ہیں۔ حال ہی میں حجاب کا یہ مسئلہ اسپین میں اْس وقت ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا، جب ایک مسلمان لڑکی نے دارالحکومت میڈرڈ کے ایک اسکول کو اِس لئے چھوڑ دیا کیونکہ اِس تعلیمی ادارے کی انتظامیہ نے اْسے سر ڈھانپنے والے دوپٹے کے استعمال سے منع کیا تھا۔ ایک نومسلم فرانسیسی خاتون کرسٹیل کھدروْش جو ۲۱ برس سے برقعہ کااستعمال کرتی ہیں اور اس پر اصرار کرتی ہیں کہ آگے بھی برقعہ کا استعمال کریں گی، کہتی ہیں ہمیں معلوم ہے کہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمدد ﷺ کی ازدواج ایسا ہی لباس پہنتی تھیں اور خود کو پوری طرح ڈھانپ کر رکھتی تھیں‘۔ ان کے مطابق ”جب خدا نے عورتوں کو پردے کا حکم دیا… اور آپ حضرت عیسٰی کی والدہ حضرت مریم کو دیکھیں وہ نقاب ڈالتی تھیں اور میں نے ان کی کوئی تصویر ایسی نہیں دیکھی جس میں وہ نقاب سے نہ ہوں اور اگر اللہ نے پردے کا حکم اس وقت دیا جب عورتیں پہلے ہی پردہ کرتی تھیں ۔… ”یہ تو انتہائی ہولناک ہو گا اگر کسی کو اس کی پسند کا لباس پہننے سے روکا جائے یہ تو یوروپی قانون کے بھی خلاف ہے“۔
دراصل مغربی میڈیا نے اسلامو فوبیا کے نام پر یوروپی معاشرہ کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف من گھڑت کہانیاں شائع کرکے مغربی معاشرہ کے اس مفروضہ کو تقویت بخشی ہے کہ اگر اسلام آگیا ہے اور مسلمان چھاگئے تو ان کی تہذیب و تمدن اور زندگی خطرے میں پڑ جائے گی، ان کا وجود مٹ جائے گا۔ نائن الیون کے بعد میڈیا کو اس کو اس طرح کی اوٹ پٹانگ چیز شائع کرنے کا سنہری موقع ہاتھآگیا ہے۔ اس کے بعد تو یوروپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا سیلاب آگیا۔ عالمی سطح پر کرائے جانے والے ایک جائزے سے اسلام اور مغرب کے درمیان ایک گہری خلیج کا پتہ چلتا ہے۔ یہ سروے واشنگٹن میں واقع ادارے پیو ریسرچ سنٹر کے ذریعے کرایا گیا تھا۔ اس سروے کے مطابق اسلام اور مغرب ایک دوسرے کو انتہاپسند، تشدد پسند اور خواتین کی ابتری کا مرتکب تصور کرتے ہیں۔ اس سروے کے تحت محققین نے تیرہ ممالک میں چودہ ہزار افراد سے بات چیت کی۔ پیو ریسرچ سنٹر کے اس سروے میں دونوں کے درمیان ایک ’گہری خلیج‘ کی بات کی گئی ہے۔ مغرب میں متعدد لوگ مسلمانوں کو تشدد پسند اور انتہاپسند سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں جب کوئی ایک مذہبی شخص کی حیثیت سے آج کے جدید معاشرے میں جینے کی کوشش کرتا ہے تو ایک تضاد پیدا ہو جاتا ہے۔ پہلی بار اس سروے کے محققین نے ان مسلمانوں سے بھی انٹرویو کیے جو چار یورپی ممالک برطانیہ، اسپین، جرمنی اور فرانس میں بستے ہیں۔ اس سروے میں یورپی مسلمانوں کے اندر مغرب کے مثبت پہلوؤں کو سمجھنے کی ایک کوشش دیکھی گئی۔ اس کے علاوہ یوروپین مانیٹرنگ سنٹر برائے نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین کے پچیس رکن ممالک میں اسلام کو خطرہ سمجھنے کے حوالے سے جو واقعات بیان کیئے گئے ہیں ان کی تعداد حقیقت سے کہیں کم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یورپی ممالک میں ایک کروڑ تیس لاکھ سے زائد مسلمان رہائش پذیر ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف اشتعال اور بڑھتے تشددکے واقعات صرف عام مسلمان فکر مند نہیں ہیں برطانیہ پہلی مسلم خاتون وزیر سعیدہ وارثی کی بھی یہی رائے ہے۔ ان کے مطابق یوروپ میں بوسنیا کی صورتحال دوبارہ پیدا ہونے کے امکان نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی میں بوسنیا میں جو افسوسناک صورتحال پیدا ہوئی اور وہاں لاکھوں بے گناہ افراد کا قتل عام ہوا یہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جو کہ ہولو کاسٹ سے بھی بڑا واقعہ تھا۔ ہمارا فرض ہے کہ اپنی نئی نسل کو ان واقعات سے آگاہ کریں اور دیگر تمام ایسے اقدامات کئے جائیں کہ آئندہ اس طرح کے حالات سے محفوظ رہا جا سکے۔ یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کو مختلف سمتوں سے بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے کل اسلاموفوبیا پھر ابھر سکتا ہے۔ امریکی صدر بارک اوبامہ نے بھی 2009 کے قاہرہ کے تاریخی خطبہ میں اس بات کا اعتراف کیا تھا مسلمانوں کے تعلق سے مغرب میں جواقدامات کئے جانے چاہئے تھے وہ نہیں کئے گئے ہیں۔ اوبامہ کا وعدہ محض وعدہ ثابت ہوا اور انہوں نے اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا جس مغرب اور اسلام کے درمیان خلیج کو پاٹا جاسکے۔
اس میں کوئی شک نہیں مغربی ممالک میں مسلمانوں کو اپنے وجود برقرار رکھنے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے کسی بھی قدم شک کی نظر دیکھا جاتا ہے لیکن اسلام کا سبق یہ بھی ہے کہ مایوسی کفر ہے۔مسلمانوں نے ہمیشہ وہیں قدم رکھا ہے جہاں ان کے لئے زمین ناہموار تھی لیکن انہوں نے اپنے اخلاق حمید، ایمانداری اور حسن سلوک سے ان لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام پیدا کیا۔ جہاں یوروپ اور مغربی ممالک میں مسلمانوں کے لئے خاردار ہے وہیں ان کے لئے فرش گل بھی ہے۔ اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لحاظ سے ان ممالک کی زمین بہت زرخیز ہے اور مسلمانوں کو صحیح مسلمان ثابت کرنے کے لئے عملی ثبوت دینا ہوگا وہیں اوراپنے معاملات سے انہیں قائل کرنا ہوگا کہ وہ صحیح معنوں میں دین محمدی کے پیروکار ہیں۔ دوسری طرف مغربی ممالک کے حکمرانوں کو چاہئے کہ دوسروں ملکوں کے انسانی حقوق، مذہبی و شخصی آزادی، اظہار خیال کی آزادی اور دیگر پر توجہ دینے کے بجائے اپنے ملک میں ان باتوں پرتوجہ دیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے لئے اپنے ملک کوبند گلی ہونے سے بچائیں۔ ورنہ مغربی ممالک خود ہی ان آگ کی لپٹوں میں جل کر خاک ہوجائیں گے۔