یونیورسٹی کا رخ کرنے والے طلبۂ مدارس کے لیے
محمد علم اللہ، نئی دہلی
ہندوستان میں مدارس کے بہت سے فارغ التحصیل افراد یونیورسٹیوں میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں، تاہم ان کے تعلیمی پس منظر اور یونیورسٹیوں کی ضروریات کے درمیان فرق کی وجہ سے داخلہ لینے کے عمل میں انہیں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب چوں کہ رمضان کا مہینہ چند ہفتوں میں شروع ہو جائے گا اور ہمارے یہاں زیادہ تر مدارس میں تعلیمی سال کا اختتام ہوجائے گا۔ طلبہ آگے بڑھنا تو چاہتے ہیں لیکن انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ ملک کی مرکزی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے لیے کیا کریں، کن موضوعات کا انتخاب کر یں اور آنے والے سالوں میں کس طرح کے کورسوں کی مانگ ہوگی۔ آج کے کالم میں ہم اسی مسئلے پر گفتگو کریں گے۔
سب سے پہلے یہ یقین پیدا کریں کہ دنیا میں کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے، بس اپنے اندر اعتماد اور ذرا حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، اس کے بعد رہ جاتی ہے انتھک محنت اور ہوش مندی ۔ یہ بھی معلوم ہو کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ملک کی بیشتر یونیورسٹیز نے خود ہی ایسے پروگرام متعارف کرانے شروع کر دیے ہیں جن کا مقصد روایتی تعلیمی ماحول سے آنے والے طلبہ کے لیے داخلے کو آسان بنانا ہے۔
ریاستی یا مرکزی کالجوں یا یونیورسٹیوں میں درخواست دینے کے لیے مدرسے کے فارغ التحصیل طلبہ کو بارہویں کے مساوی ایک تسلیم شدہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے،جو ان کی تعلیمی قابلیت کو ظاہر کرتا ہو۔ بعض مدارس کی اسناد کو کچھ یونیورسٹیاں اپنے یہاں داخلے کے لیے تسلیم تو کرتی ہیں لیکن کئی مرتبہ وہاں سے تعلیم کی تکمیل کے بعد بھی ملازمت کے حصول میں انھیں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان کے پاس دسویں اور بارہویں کے اسناد نہیں ہوتے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ سرکاری اداروں سے منظور شدہ اسناد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ آنے والے دنوں میں کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے لیے سی بی ایس ای، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ یا دیگر سرکاری بورڈ کے ذریعہ تسلیم شدہ اداروں سے امتحان دے کر اسناد حاصل کی جا سکتی ہیں،ان اداروں کے اپنے کورس اور اپنے نصاب ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ این سی ای آر ٹی نصاب متعین کرنے والا قومی ادارہ ہے اور سی بی ایس ای امتحان کے ذریعے دسویں اور بارہویں کی سند فراہم کرنے والا قومی ادارہ ہے۔ مدارس کے طلبہ کو چوں کہ سند کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے انہیں دوران تعلیم ہی ایسے اداروں سے رجوع کرلینا چاہیے، جہاں سے انھیں دسویں اور بارہویں کی سند مل سکے۔ اس سلسلے میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ سب سے اچھا ادارہ ہے جہاں سے مدارس کے دوران ہی دسویں اور بارہویں کا امتحان دے کر سند حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس ضمن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے جاری بریج کورس سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جو اب تک کا سب بہترین متبادل ثابت ہوا ہے۔
اسناد حاصل کرنے کے بعد بات آتی ہے ان یونیورسٹیوں میں داخلہ پانے کے لیے عملی جدوجہد کی۔ تو پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ کسی بھی اچھے کورس میں داخلہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انگریزی زبان میں اچھی مہارت ہو، کیوں کہ تقریباً ہر یونیورسٹی میں ذریعۂ تعلیم انگریزی ہی ہے، ساتھ ہی ساتھ عام معلومات، ریاضی اور سائنس بھی بے حد ضروری موضوعات ہیں۔ اس کے لیے کوچنگ کلاسوں کی مدد لی جاسکتی ہے۔
یہاں یہ بھی بات بھی یاد رکھیں کہ اگر آپ نے عربی زبان پر ہی اچھی محنت کر لی ہے اور آپ کو اس زبان میں اظہار خیال پر قدرت حاصل ہے تو یہ بھی اپنے آپ میں بڑی بات ہے اور محض اسی ایک صلاحیت سے آپ کے سامنے ملازمت، بزنس اور کاروبار کے بیشتر مواقع کی راہیں کھل جاتی ہیں۔بس اتنا خیال رہے کہ انگریزی کی بھی تھوڑی بہت شد بد ہو تو نور علی نور ہے۔عرب ممالک کے علاوہ یورپی ممالک میں بھی متعدد شعبوں میں آپ مترجم کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں، ملٹی اسپیشلٹی ہسپتالوں اور عالمی منڈی میں بھی مواقع دستیاب ہیں۔ اگر آپ تھوڑی سی محنت کرکے اپنی زبان درست کر لیتے ہیں اور مستند اداروں سے ڈپلوما اور ایڈوانسڈ ڈپلوما وغیرہ کے سرٹیفیکٹ حاصل کر لیتے ہیں تو یہ قدم آپ کے لیے غیر معمولی طور پر کار آمد ثابت ہو سکتا ہے ۔ خلیجی ممالک کے مقابلے ہندوستان میں سستا علاج فراہم ہونے کی وجہ سے بڑے اور چھوٹے آپریشن کے لیے عرب ممالک سے آنے والے مریضوں کی بڑی تعداد کو عربی مترجم کی فوری ضرورت ہوتی ہے اور دہلی این سی آر کے بعض مہنگے ہسپتال بھی باضابطہ عربی مترجمین کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ اس ضمن میں این سی پی یو ایل سے جاری فنکشنل عربک کورسوں اور کمپیوٹر کورسوں سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے، یہ ادارہ سرکاری ہے اس لیے اس کی اسناد بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔
عربی زبان میں لکھنے پڑھنے اور اظہار خیال کی قدرت رکھنے کی وجہ سے عرب ممالک میں بھی داخلے کی راہ ہموار ہوتی ہے، عرب ممالک کی جامعات میں داخلہ، آن لائن فورم اور ریکمنڈیشن (توصیہ) کی بنیاد پر بھی ملتا ہے۔ مدارس و جامعات کے فارغین تخصصات کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ، جامعہ ام القری مکہ مکرمہ، جامعۃ الملک سعود ریاض اور جامع ازہر قاہرہ وغیرہ میں داخلہ لے سکتے ہیں، ان کی ویب سائٹ پر ہر سال اشتہارات آتے ہیں، ان کے ذریعہ فراہم کی گئیں لنکس کے ذریعے داخلے کے لیے اپلائی کرسکتے ہیں،جس میں تمام مصدقہ اسناد اپلوڈ کرنا ہوتا ہے۔ وہاں کی یونیورسٹی کی طرف سے اگر منظوری مل جاتی ہے تو متعلقہ ملک کے سفارتخانے سے رابطہ کرنا ہوتا ہے اور وزارت تعلیم سے تمام اسناد کی تصدیق کرانی ہوتی ہے۔
جہاں تک ہندوستانی یونیورسٹیوں میں داخلے کی بات ہے تو سب سے پہلے کورسیز کے انتخاب کا اور داخلے کی کارروائی کا مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہندوستان کی زیادہ تر یونیورسٹیوں میں درخواست دہندگان کو مختلف مضامین میں علم، استعداد اور مہارت کا مظاہرہ کرنے کے لیے داخلہ امتحان دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مدرسے کے فارغ التحصیل طلبہ ، بڑے شہروں جیسے لکھنؤ، دہلی، علی گڑھ اور حیدر آباد وغیرہ میں جاری کوچنگ کلاسز میں شرکت کرکے اور پرانے ٹیسٹ پیپر کے ذریعہ امتحانات کی تیاری کرسکتے ہیں۔
یونیورسٹیوں میں داخلے کے حوالے سے کاؤنسلنگ اور رہنمائی کے لیے کچھ احباب بہت اچھا کام کر رہے ہیں، ان کے تجربات سے ضرور فائدہ اٹھائیں، اس سلسلے میں ہمارے دوست محمد عادل خان ندوی ہمدرد، خیر خواہ اور قابل اعتماد شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں، انہوں نے مدارس کے طلبہ کے لیے آل انڈیا مدرسہ اسٹوڈنٹس فورم بھی بنایا ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف وہ تعلیمی کاؤنسلنگ فراہم کر رہے ہیں بلکہ بی اے، برج کورس، پری طب اور شعبۂ قانون وغیرہ کے لیے کوچنگ بھی کرارہے ہیں،مفت مواد بھی دے رہے ہیں۔ آل انڈیا مدرسہ اسٹوڈنٹس فورم سے بہت سے دیگر فارغین مدارس بھی وابستہ ہیں، جنھیں فیس بک پر فالو کرکے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ موضوعات کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے ساتھ کریں تاکہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد پچتانا نہ پڑے۔ اس کے لیے مدارس کے ہی فارغین یا تعلیمی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے افراد سے رہنمائی اور مدد حاصل کر سکتے ہیں جو داخلے کے عمل اور کارروائی کے بارے میں اچھی معلومات رکھتے ہیں۔ وہ درخواست فارم بھرنے کے وقت اور طریقۂ کار نیز انٹرویو کی تیاری کے بارے میں بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں مشورے کے لیے بعض اہم افراد کو آن لائن بھی تلاش کیا جاسکتا ہے مثلا ڈاکٹر ایاز احمد اصلاحی، ڈاکٹر عمیر انس ندوی، ڈاکٹر عمیر منظر، ابو ظفر عادل اعظمی، سعید الرحمان چودھری، ایڈوکیٹ ابوبکر سباق، ڈاکٹر سلمان فیصل، افروز عالم ساحل ، سعید جونپوری اور سید مکرم نیاز وغیرہ۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر حضرات نے یونیورسٹیوں کے حالات اور ماحول کو قریب سے دیکھا ہے اور ساتھ ہی مدارس کے نظام و انتظام اور نصاب و تعلیم سے بھی واقفیت رکھتے ہیں، مزید برآں قوم وملت کے لیے درمندی بھی رکھتے ہیں اور خاص کر نوجوانوں کو علمی و تعلیمی میدان میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا پسند کرتے ہیں اور ہر ممکن تعاون بھی کرتے ہیں۔ تو آپ کو ان سے فائدہ ہی ہوگا ۔
یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہندوستان میں کچھ ایسی یونیورسٹیاں ہیں جو دوسروں کے مقابلے میں مدارس کے فارغین کا زیادہ خیر مقدم کرتی ہیں، ان میں خاص طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامعہ ہمدرد، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ طلبہ ان یونیورسٹیوں کے بارے میں معلومات حاصل کریں جن میں وہ درخواست دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ ان کے مطالبات اور اصول و ضوابط کیا ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کے علاوہ دیگر یونیورسٹیاں مدارس کے طلبہ کے لیے زیادہ مفید نہیں ہیں، بہتر یہی ہے کہ آپ درجہ بندی کے حساب سے اچھی یونیورسٹیوں کا انتخاب کریں اور ایک ساتھ کم از کم تین سے چار جگہ درخواست کریں ۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ ان یونیورسٹیوں میں آپ کے لیے اردو، عربی، اسلامک اسٹڈیز کے علاوہ بھی بہت سارے شعبے ہیں، اس لیے ان کے دیگر موضوعات کے بارے میں بھی غور و خوض کریں۔ کیوں کہ سائنس کو چھوڑ کر آپ کسی بھی موضوع کا انتخاب کر سکتے ہیں، جن میں سب سے پہلے تو ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز ہیں۔ مدارس کے جو طلبہ ہیومینٹیز اور سوشل سائنسز میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ تاریخ، جغرافیہ، سیاسیات، سماجیات، نفسیات، اقتصادیات، فلسفہ اور ادب جیسے کورسوں میں داخلہ کی درخواست دے سکتے ہیں۔ یہ کورس لبرل آرٹس اور سماجی علوم میں وسیع میدان فراہم کرتے ہیں اور طلبہ کو تعلیم، تحقیق، صحافت اور عوامی خدمت جیسے شعبوں میں کیریئر کے لیے تیار کرتے ہیں۔
اسی طرح متعدد زبانوں میں ادب کے شعبہ میں بھی آسانی سے داخلہ مل جاتا ہے۔ وہ طلبہ جن کو انگریزی، ترکی، فرنچ، عربی، اردو، ہندی اور فارسی وغیرہ زبانوں میں دلچسپی ہے یا کسی زبان کے سیکھنے میں ان کی کوئی مادی منفعت وابستہ ہے، وہ اپنی پسندیدہ زبانوں کے کورسوں میں داخلہ کی درخواست دے سکتے ہیں۔ یہ کور س زبان و ادب کی گہری تفہیم اور ترجمہ و تشریح اور تحریر و تقریر میں اچھی صلاحیت و مہارت کے حصول میں ممد و معاون ہیں۔
مدارس کے طلبہ آج کل قانون کے کورس میں بھی داخلہ لے رہے ہیں۔ وہ طلبہ جو قانون میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ بیچلر آف لاز (ایل ایل بی) میں درخواست دے سکتے ہیں۔ یہ کورس ہندوستانی قانونی نظام، سول قانون، فوجداری قانون اور بین الاقوامی قانون جیسے مضامین کا احاطہ کرتا ہے اور طلبہ کو قانونی پیشے میں کیریئر بنانے کے لیے تیار کرتاہے۔
تعلیم کاشعبہ بھی اہم شعبہ ہے۔مدارس کے جوطلبہ درس وتدریس میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ بی اے کرکے بیچلر آف ایجوکیشن (بی ایڈ) کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ یا گریجویشن کے بغیر، ڈپلوما ان ایلیمنٹری ایجوکیشن (ڈی ایل ایڈ)میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ یہ کورس تعلیمی اصول اور تدریس میں مضبوط بنیادیں فراہم کرتے ہیں اور طلبہ کو اساتذہ، مربیین اور تعلیمی منتظمین کے طور پر کیریئر کے لیے تیار کرتے ہیں۔
مینجمنٹ بھی ایک اچھا متبادل ہو سکتا ہے، جوطلبہ کاروبار اور انتظام میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ مینجمنٹ کے کورس (جیسے بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن (بی بی اے) میں داخلہ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ یہ کورس اکاونٹنگ، فنانس، مارکیٹنگ اور انسانی وسائل جیسے مضامین کا احاطہ کرتا ہے۔
موجودہ وقت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ کوئی تکنیکی تربیت ضرورحاصل کرلیں، اگر صرف کمپیوٹر کی بات کریں تو ہزاروں کورسز ہیں،اس بابت روزگار سے جڑنے اور لوگوں کو خود کفیل بنانے کے لیے بہت سی یونیورسٹیاں انٹرپرینورشپ ڈیولپمنٹ کے تحت مختلف قسم کے مہارت پر مبنی (اسکل بیسڈ ) پروگرام چلاتی ہیں، جن میں نوجوانوں کو ٹیلرنگ، بیکنگ اور الیکٹرک وغیرہ کے چھوٹے موٹے سر ٹیفیکٹ کورس کرائے جاتے۔ ان کی فیس بھی بہت معمولی ہوتی ہے، بلکہ کئی جگہوں پر تو فیس بھی نہیں لی جاتی۔ جو لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتے اور کاروبار میں توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے یہ ایک بہترین آپشن ہو سکتا ہے کیوں کہ ان میں داخلے کے لیے محض آٹھویں پاس اور بعض جگہوں پر تو ابجد شناسی کی بنیاد پر ہی آپ کو اس کا اہل سمجھ لیا جاتا ہے۔
آج کے کالم میں یہ چند مختصر باتیں اشارہ کے طور پر عرض کی گئی ہیں، اگرآپ مدارس کی تعلیم کے بعد یونیورسٹیوں کا رخ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے لیے یہ باتیں یقیناً کار آمد ہوں گی۔ باقی آپ کا عزم، محنت، لگن اور آپ کا اپنا جذبہ بلکہ جنون ہی سب کچھ ہے۔
آج کل کے مخصوص حالات میں یہ بات بھی بہت ضروری ہوجاتی ہے کہ کسی بھی قسم کی مایوسی، کمزوری اور حالات کے سامنے سپر ڈال دینے والی ذہنیت بالکل بھی پیدا نہ ہونے دیں۔ مثبت سوچ، سخت محنت اور کارگر منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں۔ کیونکہ زندگی میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو کل کے لیے آج ہی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر اس پر یکسوئی کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے ڈاکٹرکے آر نارائنن سینٹرفار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں)