یوپی جیتنے کے باوجود راجیہ سبھا میں اکثریت سے دور رہے گا این ڈی اے

ایوان بالا میں بی جے پی بن جائے گی سب سے بڑی پارٹی
نئی دہلی، (ملت ٹائمز )
بی جے پی اگر دو تہائی اکثریت سے اتر پردیش، اتراکھنڈ اور گوا کے انتخابات جیت بھی لے تو بھی راجیہ سبھا میں وہ اتحادیوں کے ساتھ اکثریت کے ہندسہ کو نہیں پہنچ پائے گی اور اس کو اہم بل پاس کرانے کے لیے اے آئی اے ڈی ایم کے اور بی جے ڈی جیسے پارٹیوں کی حمایت کی ضرورت ہوگی، لیکن یہ ضرور ہے کہ بی جے پی، کانگریس کو پیچھے چھوڑ کر اگلے سال تک راجیہ سبھا میں سب سے بڑی پارٹی بن سکتی ہے۔دراصل، اگلے سال تک راجیہ سبھا کی 71سیٹوں کے لیے انتخابات ہونے ہیں اور بی جے پی نامزد اراکین کو ملا کر اپنی تعداد زیادہ سے زیادہ 15ہی بڑھا سکتی ہے اور وہ بھی اس وقت جبکہ اس کو یوپی، اتراکھنڈ اور گوا میں دو تہائی اکثریت ملے۔ادھر، کانگریس کی حالت مسلسل کمزور ہو رہی ہے اور اگلے سال کے راجیہ سبھا انتخابات کے بعد اس کی تعداد کم ہوکر 48تک پہنچ سکتی ہے۔اس سال راجیہ سبھا میں مغربی بنگال کی 6 راجیہ سبھا سیٹوں پر انتخابات ہونے ہیں، جہاں سے این ڈی اے کو کوئی کامیابی نہیں ملے گی، اگلے سال یوپی، اتراکھنڈ اور گوا سمیت کئی ریاستوں کی 65سیٹوں پر انتخابات ہونے ہیں، صدر اگلے سال چار مخصوص افراد کو نامزد بھی کریں گے اور امکان ہے کہ یہ تمام این ڈی اے کی حمایت کریں، اس طرح اتحادی پارٹیوں کو ملا کر این ڈی اے اگلے سال کے راجیہ سبھا انتخابات کے بعد 90کی تعداد کو چھو سکتا ہے، لیکن 245رکنی راجیہ سبھا میں یہ تعداد اکثریت کے اعداد و شمار یعنی 123سے کافی دور رہے گی، یعنی ہر اہم بل منظور کرانے کے لیے بی جے پی کو اے آئی اے ڈی ایم کے ، بی جے ڈی اور ٹی آر ایس جیسی پارٹیوں کی حمایت لینی ہوگی جو مرکز سے تعاون کی امید میں بی جے پی کی مسائل کی بنیاد پر حمایت کر سکتی ہیں۔
غورطلب ہے کہ اترپردیش میں اگلے سال راجیہ سبھا کی 10سیٹوں پر انتخابات ہونے والے ہیں،ان میں سے ابھی 6 سماج وادی پارٹی، 2 بی ایس پی اور ایک ایک بی جے پی اور کانگریس کے پاس ہے، اگر بی جے پی دو تہائی اکثریت لاتی ہے تو وہ دس میں سے 6 سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں ہوگی جبکہ ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔اتراکھنڈ میں اگلے سال ایک سیٹ کے لیے الیکشن ہو گا ، جو ابھی کانگریس کے پاس ہے، اگر بی جے پی وہاں جیت درج کرلیتی ہے تو یہ سیٹ وہ کانگریس سے چھین سکتی ہے۔یہی صورت حال گوا میں رہے گی،لیکن پنجاب میں چاہے کوئی بھی پارٹی جیتے، وہاں راجیہ سبھا کی تعداد پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ریاست کی تمام سات سیٹوں پر 2022میں انتخابات ہوں گے۔اسی طرح منی پور کی ایک سیٹ پر 2020میں انتخابات ہونے والے ہیں ۔اگلے لوک سبھا انتخابات سے پہلے کانگریس آہستہ آہستہ کئی ریاستوں کے اقتدار سے باہر ہوتی جارہی ہے، جس کا براہ راست اثر راجیہ سبھا میں اس کی تعداد پر پڑے گا۔آندھرا پردیش میں تین سیٹوں پر اگلے سال انتخابات ہوں گے ، جس میں ابھی دو کانگریس اور ایک ٹی ڈی پی کے پاس ہے، امکان ہے کہ ٹی ڈی پی-بی جے پی اتحاد یہ تینوں سیٹیں جیت لے۔بہار کی جن 6 سیٹوں پر اگلے سال انتخابات ہوں گے، ان میں سے چار جے ڈی یو اور دو بی جے پی کے پاس ہے۔اتحادی پارٹی ہونے کے ناطے کانگریس اور آر جے ڈی ،جے ڈی یو سے ایک ایک سیٹ لے سکتی ہیں ، جبکہ بی جے پی کو ایک سیٹ کا نقصان ہو سکتا ہے۔چھتیس گڑھ میں ایک سیٹ کے لیے الیکشن ہونا ہے اور بی جے پی اسے اپنے پاس ہی رکھ سکتی ہے۔وہیں گجرات میں 7 سیٹوں پر انتخاب ہوں گے ، جن میں6 بی جے پی اور ایک کانگریس جیت سکتی ہے۔ہریانہ کی ایک سیٹ بی جے پی کانگریس سے چھین سکتی ہے اور اگر بی جے پی ہماچل پردیش میں کامیاب ہوتی ہے تو وہاں کی ایک راجیہ سبھا نشست کانگریس سے لے سکتی ہے۔
جھارکھنڈ میں کانگریس اور جے ایم ایم کے پاس ایک ایک سیٹ ہے اور حکمران بی جے پی یہ دونوں سیٹیں اپوزیشن سے چھیننے کی کوشش کرے گی۔کرناٹک میں اسمبلی انتخابات سے پہلے ہی راجیہ سبھا کی 4 سیٹوں پر الیکشن ہونے کا امکان ہے، جہاں کانگریس، بی جے پی سے ایک سیٹ چھین سکتی ہے۔کیرالہ میں تین سیٹوں پر الیکشن ہوگا، جہاں بایاں محاذ 2 سیٹیں لے سکتی ہے۔مدھیہ پردیش کی 5 سیٹوں پر اگلے سال انتخابات ہوں گے، جن میں سے بی جے پی 4 اور کانگریس ایک سیٹ جیت سکتی ہے۔مہاراشٹر میں 6 سیٹوں پر الیکشن ہوگا، یہاں بی جے پی، کانگریس سے 2 سیٹیں چھین سکتی ہے۔دہلی میں 3 سیٹوں پر ابھی کانگریس کا قبضہ ہے، یہ تینوں سیٹیں اس کے ہاتھ سے نکل کر عام آدمی پارٹی کے پاس چلی جائیں گی۔دوسری طرف اڑیسہ میں دو سیٹوں پر الیکشن ہے اور حکمران بیجو جنتا دل دونوں پر جیت درج کرسکتی ہے۔ راجستھان میں 3 سیٹوں پر انتخاب ہوگا ، بی جے پی یہاں کانگریس سے 2 سیٹیں چھین کر تینوں سیٹیں جیت سکتی ہے ۔ ایسا پہلی بار ہوگا جب ریاست کی لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی سبھی سیٹیں بی جے پی کے پاس ہوں گی۔تلنگانہ میں 3 سیٹوں پر الیکشن ہوگا اور ٹی آر ایس، کانگریس سے 2 سیٹیں چھین سکتی ہے۔جبکہ مغربی بنگال میں 11؍سیٹوں کے لیے انتخابات ہونے ہیں، ٹی ایم سی ان میں سے 10سیٹیں جیت سکتی ہے۔اس طرح اپریل 2018میں بی جے پی اپنی اتحادیوں کے ساتھ 90کے ہندسہ کو چھو سکتی ہے،ان میں بی جے پی نامزد ارکان کے ساتھ 71، تیلگو دیشم پارٹی 7، شیو سینا اور شرومنی اکالی دل 3-3، پی ڈی پی 2 اور بی پی ایف ، این پی ایف اور آر پی آئی (اے) 1-1سیٹوں پر رہ سکتی ہیں۔دو دیگر نامزد ارکان کو ملا کر یہ تعداد 91ہو جائے گی، لیکن این ڈی اے اکثریت کی تعداد یعنی 123سے قریب 32کم رہے گا۔ایسے میں اس کو اے آئی اے ڈی ایم کے کے 13، بی جے ڈی کے 10، ٹی آر ایس کے 6، وائی ایس آر کے ایک اور دو آزاد ارکان اسمبلی پر منحصر رہنا پڑے گا، جن کی تعداد 32تک پہنچ سکتی ہے۔ان پارٹیوں کا تعاون لینے پر این ڈی اے اکثریت کے اعداد و شمار کو چھوسکتی ہے

SHARE