بین مذہبی شادی کے واقعات اور ان کا تدارک

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

سنگھ پریوار کے لوگوں کو ہمیشہ مسلم مخالف ایجنڈا چاہئے، اس کے لئے وہ موقع بہ موقع مختلف مسائل اٹھاتے رہتے ہیں، ادھر ان کے بعض قائدین ہندو لڑکوں کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ مسلمان لڑکیوں کو اپنے نکاح میں لائیں؛ تاکہ ان کے ذریعہ ہندو نسل چلے، یہ ایک جذباتی بات ہے جو ہندو نوجوانوں میں گرم جوشی پیدا کرتی ہوگی؛ اس لئے اس پر ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے بھی لگتے ہیں، اور مسلمانوں کے جذبات کو بھی اس سے یقیناً ٹھیس پہنچتی ہے، اوریہی ان کا مقصد ہے؛ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ واقعات دونوں طرح کے پیش آتے ہیں، غیرمسلم لڑکیوں کے مسلم لڑکوں سے نکاح کے بھی ،ایسی صورتوں میں عام طور پر یہ لڑکیاں اسلام قبول کرلیتی ہیں، اور چونکہ مسلم سماج میں اب بھی ہندو سماج کی طرح ذات پات کا تصور نہیں پایا جاتا ہے، اس لیے وہ مسلم سماج کا حصہ بن جاتی ہیں، نہ لڑکیوں کو دشواری پیش آتی ہے اور نہ لڑکے کے خاندان کو،یہ بھی ایک سچائی ہےکہ پیار و محبت کے جال میں پھنس کر بعض مسلمان لڑکیاں بھی غیرمسلم لڑکوں کے ساتھ چلی جاتی ہیں، ایسے واقعات میں دو طرح کے نتائج سامنے آتے ہیں، کبھی تو وہ لڑکے خود مسلمانوں کے ماحول سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیتے ہیں ؛چنانچہ مسلم سماج میں ایسے بہت سے نومسلم داماد مل جائیں گے؛ لیکن بعض واقعات ایسے بھی پیش آتے ہیں جن میں مسلمان لڑکی اپنا مذہب بھی تبدیل کرلیتی ہے، اور غیر مسلم سماج کا حصہ بن جاتی ہے، کبھی تو ان کا یہ رشتہ قائم رہتا ہے اور بہت سی دفعہ علاحدگی، خودکشی اور موت پر ختم ہوتا ہے ؛ کیونکہ ہندو سماج اپنی قوم ہی کے دوسرے خاندانوں سے نکاح کو گوارا نہیں کرتا؛ چہ جائیکہ وہ اپنے گھر میں کسی مسلمان لڑکی کی آمد کو قبول کرلے۔

اس وقت اس مسئلہ پر کافی لکھا اور بولا جارہا ہے، لیکن اس سلسلہ میں دو باتیں قابل توجہ ہیں: اول: یہ کہ مسلمان لڑکیوں کے غیرمسلم لڑکوں کے ساتھ جانے کے واقعات میں کتنی سچائی ہے اور کتنا مبالغہ ہے؟ دوسرے یہ کہ جتنی سچائی ہے اس کے تدارک کے سلسلے میں ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں؟

پہلے نکتہ کے سلسلے میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں حقیقت کو بہت بڑھاچڑھاکر پیش کیا جارہا ہے، ایسی باتوں کا چونکہ مخاطب پر بڑا اثر پڑتا ہے، اس لیے بے تحقیق بات کہہ دی جاتی ہے، اور پھر اس بات کو بغیر تحقیق و تجزیہ کے آگےنقل کیا جاتا ہے، جو تقریر و تحریر میں نمک مرچ کا کام کرتی ہے، اگر ہم غور کریں تو جس پیمانے پر یعنی لاکھوں کی تعداد میں مسلمان لڑکیوں کے غیرمسلم لڑکوں کے ساتھ جانے کی بات کہی جارہی ہے ، یہ بالکل قابل فہم نہیں ہے۔

ایک تو غیرمسلموں کے یہاں شادی بیاہ کے معاملہ میں ذات پات کا اتنا گہرا تصور ہے کہ اونچی ذات والے نیچی ذاتی کی لڑکی کو اور برہمن و راجپوت ، دلت طبقہ کی لڑکیوں کو کسی طور گوارا نہیں کرتے، کیا عمومی طور پر یہ سماج مسلمان لڑکیوں کو بہ طور منکوحہ گوارا کرسکتا ہے؟

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com