شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو نعمتیں دی ہیں، ان میں ایمان اور زندگی کے بعد سب سے بڑی نعمت والدین اور اولاد ہیں، والدین کی حیثیت ایک ایسے درخت کی ہوتی ہے جو اپنی اولاد کو سایہ فراہم کرتا ہے، جیسے درخت دھوپ کی تپش کو برداشت کرتا ہے اور اپنے سائے میں بیٹھنے والوں کو ٹھنڈا ماحول فراہم کرتا ہے، اسی طرح ماں باپ حالات کی تپش کو برداشت کرتے ہوئے اپنے بچوں کو ٹھنڈا سایہ فراہم کرتے ہیں، اور بچے کیسے بھی ہوں، وہ بھرپور پیار و محبت کے ساتھ ان کی پرورش کرتے ہیں، اسی طرح اولاد انسان کی زندگی کا سب سے قیمتی پھل ہوتا ہے، اس کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں، اور وہ بڑھاپے میں ماں باپ کیلئے سہارا بنتے ہیں، ماں باپ کی اہمیت ان بچوں سے پوچھئے جو باپ یا ماں کی دولت سے محروم ہوگئے ہوں اور یتیمی کا داغ سہہ رہے ہوں، اور اولاد کی اہمیت ان لوگوں سے پوچھئے جن کو اللہ نے ا س نعمت سے محروم رکھا ہے، وہ کس قدر تڑپتے ہیں، اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں اور اپنے مستقبل کے بارے میں خوف و تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔
اسی لیے والدین اور اولاد دنوں کی ایک دوسرے سے متعلق بڑی ذمہ داریاں ہیں، پہلا مرحلہ والدین کی ذمہ داریوں کا آتا ہے؛ کیوں کہ اس وقت بچے ان کے ضرورت مند ہوتے ہیں، دوسرا مرحلہ اولاد کی ذمہ داریوں کا آتا ہے کیونکہ جب جوانی ڈھلتی ہے اور ماں باپ بوڑھاپے میں قدم رکھتے ہیں تو اب ان کو قدم قدم پر اولاد کی ضرورت ہوتی ہے، اگر ماں باپ نے اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کی ہوں تو عام طور پر ان کا بڑھاپا بھی بہتر گزرتا ہے، بچے ان کے قدر شناس ہوتے ہیں، ان کے ایک ایک حکم کی تعمیل کیلئے کھڑے رہتے ہیں، ان کی ایک ایک ضرورت کو پوری کرنا اپنے لیے سعادت کی بات سمجھتے ہیں، ان کی خوش اخلاقی، دینداری اور پاکیزہ زندگی سے والدین کا د ل بھی خوش ہوتا ہے، اور ان کو ایک روحانی سکون ملتاہے کہ ہم ایسی اولاد کو چھوڑ کر جارہے ہیں جو ان شاء اللہ آخرت میں نفع کا سودا ثابت ہوں گی، اس لیے والدین سے جو ذمہ داریاں متعلق ہیں، ان کی خصوصی اہمیت ہے، وہ آج درخت لگائیں گے تو کل اس کا پھل کھاسکیں گے۔
والدین کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں رسول اللہﷺ نے ایک بڑا ہی واضح اور جامع اصول مقرر فرمایا ہے،آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
آگاہ ہوجاؤ ! تم سب کے سب چرواہے یعنی ذمہ دار ہو، جن لوگوں کی ذمہ داری تم سے متعلق ہے، تم سب ان کے بارے میں جواب دہ ہو، امیر اپنے زیر امارت لوگوں کا ذمہ دار ہے، اور ان کے بارے میں جوابدہ ہے ، ہر شخص اپنے گھر کے لوگوں کاذمہ دار ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے، عورت اپنے شوہر کے مال اور اس کی اولاد کے بار ے میں ذمہ دار ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے، غلام اپنے مالک کے مال کے سلسلے میں ذمہ دار ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے، خبردار ! تم سب کے سب اپنے اپنے دائرہ میں ذمہ دار ہو اور اپنے ماتحتوں کے بارے میں جواب دہ ہو۔ (بخاری عن عبداللہ بن عمرؓ،حدیث نمبر:۲۵۱۴)
یہ نہایت ہی جامع ارشاد ہے، آپ ﷺ نے ہرشخص کو متوجہ فرمایا ہے کہ جو لوگ اس کے ماتحت ہیں، وہ ان کا ذمہ دار ہے، اور اس ذمہ داری کے بارے میں اللہ کے پاس باز پرس ہوگی، اگر اس نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تو اس کو اس کی سزادی جائے گی، اس حدیث میں ذمہ دار شخص کیلئے ’’راعی‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اور جو اس کے ماتحت ہوں، ان کو ’’رعیت‘‘ کہا گیا ہے، ’’راعی‘‘ کے معنی ’’چرانے والے‘‘ کے ہیں اور جن جانوروں کو وہ چراتا ہے، ان کو رعیت کہتے ہیں، یہ ایک بہت ہی بلیغ تعبیر ہے، چرواہا جن جانوروں کو چراتا ہے، سختی کے ساتھ ان کی نگرانی کرتا ہے، کہیں سانپ ان کو ڈس نہ لیں، کہیں کتے ان پر حملہ نہ کردیں، کہیں کوئی جانور دور بھاگ کر اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوجائے، وہ جانوروں کو قابو میں رکھنے کیلئے سختی بھی کرتا ہے، پھٹکار بھی لگاتا ہے، ان کی قوت برداشت کا لحاظ رکھتے ہوئے مارپیٹ بھی کرتا ہے، اور ان سے غایت درجہ محبت بھی کرتا ہے، ان کے چارے اور پانی کی فکر کرتا ہے، اس کو ٹھنڈک ، گرمی اور بارش سے بچاتا ہے، علاج کراتا ہے، غرض کہ اس کی تما م ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔
جب ایک شخص کو اپنے گھر کے بارے میں چرواہا قرار دیا گیا تو اس میں اس بات کا بھی اشارہ موجود ہے کہ جو فکر ایک چرواہے کو اپنے جانوروں کے بارے میں ہوتی ہے، وہی ایک سربراہ خاندان کو اپنے خاندان کے بارے میں ہونی چاہئے، اگر وہ اس میں کوتاہی کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے پاس جواب دہ ہوگا، اور آپ ﷺ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ یہ ذمہ داری اور جواب دہی صرف مرد ہی کی نہیں ہے، عورت کی بھی ہے، ایک عورت اپنے زیر پرورش بچوں کی ذمہ دار ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اس سلسلے میں جواب دہ ہے، عورت پر بچوں کے اخراجات کی ذمہ داری نہیں ہے؛ لیکن تعلیم و تربیت کی ذمہ داری میں وہ بھی شریک ہے۔
اولاد کی ضروریات دو قسم کی ہیں؛ ایک: دنیوی زندگی کی ضروریات جو مسلمان بھی اپنے بچوں کو مہیا کرتا ہے اور غیر مسلم بھی؛ بلکہ حیوانات بھی اپنے چھوٹے بچوں کی غذا کی فکر کرتے ہیں، مائیں دودھ پلاتی ہیں اور باپ ان کی حفاظت کرتا ہے، دوسری ضرورت اخروی زندگی سے متعلق ہے ، اولاد میں کی اللہ معرفت ہو، رسول اللہﷺ کی محبت ہو، ایمان ان کے دل و دماغ میں جاگزیں ہوجائے، ان کو اچھے اعمال کا عادی بنایا جائے، بری باتوں سے روکا جائے، یہ اولاد کا ایک خصوصی حق ہے، یہ انسان پر خاص کر مسلمانوں پر عائد ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس خصوصی حق کا بہت مؤثر انداز میں ذکر فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، اس آگ پر سخت مزاج اور درشت اخلاق والے فرشتوں کی ڈیوٹی ہوگی، جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کریں گے اور جو کچھ حکم دیا جائے گا، اسے بجالائیں گے۔(تحریم:۶)
افسوس کہ آج کل لوگ اپنے بچوں کی مادی ضرورتوں کی تو پوری فکر کرتے ہیں، بہتر سے بہتر کھلانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی خواہش کے مطابق کپڑے پہنانے کی سعی کرتے ہیں، خود تنگ دستی کی زندگی گزار کر معیاری اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں، گھر کا اثاثہ بیچ کر مہنگی شادیاں کرتے ہیں، بیٹیوں کو کچھ اس طرح جہیز دیتے ہیں کہ گویا زندگی بھر کی ضرورت پوری کردیں گے، مگر ان کی آخرت کو سنوارنے اور آنے والی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچانے کی کوئی فکر نہیں کرتے ، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں مسلمان لڑکیوں کے غیرمسلموں کے ساتھ ازدواجی رشتہ استوار کرنے کے واقعات پیش آرہے ہیں، اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری لڑکیوں کے والدین کی ہے، وہ اگر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں تو یہ نوبت نہیں آئے؛ اسی لیے:
(۱) والدین کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے ، ان کی بنیادی دینی تعلیم کا انتظام کریں، جتنی اہمیت کے ساتھ بچوں کو اسکولی تعلیم دلاتے ہیں، اتنی ہی اہمیت کے ساتھ مکتب بھی بھیجیں، جہاں وہ قرآن مجید، اسلامی عقائد، عبادات و معاشرت اور معاملات کے ضروری احکام اور سیرت نبوی کی تعلیم حاصل کریں، یہ دینی تعلیم کم سے کم ساتویں جماعت تک عصری تعلیم کے ساتھ جاری رکھی جائے، اس کی بہتر صورت مکتب کا نظام ہے، اگر محلہ کی مسجد میں مکتب کا انتظام نہ ہو تو خاندان کے بچوں اور بچیوں کو جوڑ کر گھر میں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے مکتب کا انتظام کیا جائے، ہمارے روایتی مکاتب میں عموماً بچوں کو چند سورتیں اور کچھ دعائیں یاد کرادی جاتی ہیں، یہ کافی نہیں ہے، ان کو ایمانیات کے بارے میں بھی بتانا چاہئے، عقیدۂ توحید سے کیا مراد ہے؟ اسلام اور کفر میں کیا فرق ہے؟ اللہ کی کتاب اور اس کے رسولوں کی انسانیت کو کیا ضرورت ہے؟ ایک غیرمسلم سے ہمارا کیا تعلق ہونا چاہئے؟اس میں یہ بھی واضح کیا جائے کہ انسانی مسائل میں وہ ہمارے بھائی ہیں ؛لیکن ان کے ساتھ کسی مسلمان مرد یا عورت کا رشتۂ ازدواج نہیں ہوسکتا۔
بچوں کی اس طرح سے تربیت کرنا ماں باپ کا فریضہ ہے، چاہے مسجد کے مکتب کے ذریعہ ہو، یا گھر کے مکتب کے ذریعہ ، یا ٹیوشن کے ذریعہ، اگرچہ ٹیوشن سے وہ فائدہ حاصل نہیں ہوپاتا جو مدرسہ اور مکتب سے حاصل ہوتا ہے ؛ لیکن اگر اس کے سوا کوئی راستہ نہ ہو تو ٹیوشن کیلیے اچھے استاذ کو رکھنا چاہئے، ایسا نہیں کہ کم فیس پر راضی ہونے والے کسی حافظ صاحب کو رکھ لیا جائے، ایسے سستے ٹیوٹر رسمی تعلیم دے کر شاید آپ کو خوش کردیں ؛ لیکن وہ بچوں کی فکر پر اثرانداز نہیں ہوسکتے۔
(۲) دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ساتویں کلاس کے اوپر لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کیلئے ایسے تعلیمی اداروں کا انتخاب کرنے کی کوشش کی جائے جس میں دونوں کے کلاس روم الگ الگ ہوں، بچوں اور بچیوں کیلئے عام طور پر یہ زمانہ نوجوانی کا ہوتا ہے، اس میں بہکنے اور بگڑنے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے، اگرجائزہ لیا جائے تو نوجوانوں میں جو بے راہ روی ہوتی ہے، اس کا بنیادی سبب مخلوط تعلیم ہے، یہ نہ صرف اخلاق کو نقصان پہنچاتی ہے؛ بلکہ تعلیمی یکسوئی میں بھی خلل پیدا کرتی ہے، اسی لیے مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کے علاحدہ تعلیمی ادارے قائم کرنے چاہیے، دینی تنظیموں کو ، بڑے مدارس کو ، شہر کی کثیر الوسائل مسجدوں کو ایسے اسکول قائم کرنے چاہئیں ، اسی طرح مسلمان تاجروں اور کاروباریوں کو تعلیم کے میدان میں اپنا سرمایہ لگانا چاہئے، اس سے ان شاء اللہ ان کو مالی منفعت بھی حاصل ہوگی اور آخرت کا نفع بھی ، بہرحال لڑکیوں کو حتی المقدور مخلوط تعلیمی اداروں میں تعلیم دلانے سے بچنا چاہئے، اگر ایسا ادارہ آپ کے محلہ میں نہ ہو ، فاصلہ پر ہو تو ٹرانسپورٹ کا خرچ برداشت کیجیے؛ لیکن بچیوں کو ان اداروں تک پہنچائیے، اگر آپ کے خیال میں اس کا تعلیمی معیار کم ہو تو آپ ان اداروں میں پڑھاتے ہوئے الگ سے کوچنگ کرکے اس کمی کو پورا کرائیے؛ اگر فاصلاتی طرز تعلیم کے ذریعہ تعلیم دلانا ممکن ہو تو اسی راستہ کا انتخاب کیا جائے؛ لیکن ان کو مخلوط تعلیمی اداروںسے بچانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔
(۳) تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ اسکول اور کالج جانے والی بچیوں کی مسلسل نگرانی کی جائے، ماں باپ کو کوشش کرنا چاہئے کہ وہ آفس جانے کی طرح اس بات کو بھی ضروری سمجھیں کہ خود سے اپنی بچیوں کو اسکول لے جائیں، اور اسکول کا وقت ختم ہونے کے بعد خود اسکول جاکر اپنی بچیوں کو واپس لائیں، یوں ہی بچیوں کے خود جانے یا آٹو وغیرہ سے بھیج دینے کو کافی نہ سمجھیں، ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ لڑکے اور لڑکیاں گھروں سے نکلے اور اسکول نہیں پہنچے اور یہاں وہاں وقت گزار کر واپس آگئے، اگر ماں باپ دونوں مل کر اس ذمہ داری کو ادا کرنا چاہیں تو اوقات کی تنظیم کے ساتھ اس کو انجام دے سکتے ہیں۔
(۴) زیر تعلیم لڑکیوں کے سلسلے میں نگرانی کے پہلو سے والدین کی چوتھی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ہفتہ میں کم سے کم ایک بار اسکول جاکر پرنسپل سے اپنی بچی کی تعلیم اور ان کی حاضری کے بارے میں دریافت کریں، کیوں کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سرپرست نے بچوں کو اسکول میں چھوڑ دیا، پھر بچے وہاں سے پارکوں میں گھومنے چلے گئے، اور اسکول کا وقت ختم ہونے سے پہلے اسکول پہنچ گئے، اس لیے ہمہ وقتی نگرانی کی ضرورت ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب خود اسکول جاکر، یا ذمہ داروں کو فون کرکے اوقات تعلیم میں ان کے موجود رہنے کے بارے میں دریافت کیا جائے، اس میں مشقت ضرورہے ؛ لیکن جو ماں باپ ساری مشقتیں اپنے بچوں کے آرام کیلئے برداشت کرتے ہیں، کیا وہ آخرت کی نہ ختم ہونے والی آرام و راحت کیلئے اور اپنے اپنے بچوں کی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے یہ مشقت برداشت نہیں کرسکتے؟
(۵) پانچویں: بچوں کی تعلیم و تربیت کو صرف استاد کے حوالے کردینا اولاد کے ساتھ بھی ناانصافی ہے اور ان کے اساتذہ کے ساتھ بھی ، ضروری ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بھی بچوں کی نگرانی کریں، بلاضرورت ان کے ہاتھ میں موبائل دینے سے بچیں، غیرشادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں کو سونے کیلئے تنہا کمرہ نہ دیں، اگر دو تین بھائی ہوں تو ایک ہی کمرہ میں ان کا الگ الگ بستر ہو؛ لیکن وہ رہیں ایک ہی کمرے میں ، اور اگر ایک سے زائد لڑکیاں ہوں تو ان کی رہائش کیلئے بھی اسی طرح کا انتظام کیا جائے، تعلیمی ضرورت کیلئے موبائل کے بجائے لیپ ٹاپ رکھا جائے، اور وہ ایسی کھلی جگہ پر ہو ، جہاں گھر کے لوگوں کی عمومی آمد و رفت ہو، بچوں کے فون پر بھی نظر رکھی جائے ، وقتاً فوقتاً ان کے فون چیک کیے جائیں، تاکہ ان کے روابط کا اندازہ ہوسکے، بچوں کو بالکل آزاد چھوڑ دینا ، ان پر روک ٹوک نہ کرنا، ان کی نگرانی نہ کرنا اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے اور بچوں کے مفادات کے بھی ، آپ ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو اپنے گھر میں کوڑا لٹکاکر رکھے؛ تاکہ وہ اپنے بچوں کو صحیح راستے پر قائم رکھ سکے۔
آج کل اس معاملے میں لوگوں کے اندر افراط و تفریط ہے، بعض لوگ بچوں کی اصلاح میں اتنی شدت برتتے ہیں کہ ان کی ناشائستہ ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ سے بچوں میں ضد پیدا ہوجاتی ہے ، جس بات سے روکا جائے ، وہ اسے اصرار کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں، اور بعض حضرات اتنے نرم ہوجاتے ہیں کہ وہ بچوں کی تنبیہ کو تہذیب کے خلاف سمجھتے ہیں، یہ دونوں باتیں غلط ہیں، تربیت میں سختی بھی ضروری ہے اور اعتدال کے ساتھ بچوں کی عزت نفس کا لحاظ رکھتے ہوئے سرزنش بھی ۔
(۶) یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ہمارے سماج میں عام طور پر قریب البلوغ بچوں اور بچیوں سے اُن مسائل کے بارے میں بات نہیں کی جاتی ہے، جن سے وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد دوچار ہوں گے، بچوں اور بچیوں کو سمجھانا چاہئے کہ وہ کس طرح اپنے آپ کو پاک دامن رکھیں، غیرمحرم صنف مخالف سے دوری اختیار کریں ، فحش لٹریچر سے اپنے آپ کو بچائیں، اپنی رات کو نیند، عبادت اور دینی کتابوں کے مطالعہ میں مشغول کریں، اچھے دوستوں / سہیلیوں کی دوستی اختیار کریں، خاص طور پر لڑکیوں کو بتانا چاہئے کہ کس طرح ہوس پرست مسلم اور غیر مسلم لڑکے پیار و محبت کا نام لے کر اپنے جال میں پھنسانا چاہتے ہیں، حالانکہ ان کو محبت نہیں ہوتی، صرف اپنی ہوس پوری کرنا چاہتے ہیں، اور پھر لڑکیوں کو ایسے مقام پر لاکر چھوڑ دیتے ہیں جہاں ان کا مستقبل تاریک ہی تاریک ہوتا ہے، اور ان کیلئے زندگی بوجھ بن جاتی ہے، لڑکیوں کو ایسے واقعات بھی سنانا چاہئے جن میں اوباش لڑکوں نے مسلم لڑکیوں کو اکساکر ان سے شادی رچالی اور یا تو ان کو قتل کردیا یا پھر بے سہارا بناکر چھوڑ دیا۔
نکاح کیلئے مذہبی ہم آہنگی کس قدر ضروری ہے ، اس پر بچوں اور بچیوں سے کھل کر بات کرنی چاہئے، اور صحیح صورت حال سمجھانی چاہئے ؛ کیونکہ صرف ڈانٹ ڈپٹ سے ذہن کو بدلا نہیں جاسکتا، بین مذہبی شادیوں کے واقعات تو پہلے بھی ہوتے تھے، لیکن بہت کم ہوتے تھے، اور یہ زیادہ تر تعلیم اور ملازمت کے مخصوص ماحول کا نتیجہ ہوتے تھے ؛لیکن موجودہ حالات میں فرقہ پرست طاقتیں اس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہیں؛ اس لیے ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، اس پر خصوصی توجہ کرنا وقت کا اہم فریضہ ہے۔