شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ایمان کی بنیاد دو باتوں پر ہے : توحید اور رسالت ، توحید سے مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنی ذات ، اپنی خصوصی صفات و اختیارات اور بعض حقوق جیسے سجدہ ، عبادت وغیرہ کے اعتبار سے یکتا ہے کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں ، رسالت سے مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ انسان کی ہدایت اور اس کی تعلیم و تزکیہ کے لئے وقتاً فوقتاً اپنے رسول بھیجتے رہے ہیں ، حضرت آدم علیہ السلام جیسے پہلے انسان تھے ، اسی طرح پہلے پیغمبر بھی تھے ، نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ختم ہوچکا ہے ، اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف رسول بنایا ، بلکہ ختم نبوت کے تاج سے بھی سرفراز فرمایا ، اس لئے قیامت تک اس دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی نبوت سایہ فگن رہے گی ۔
اب کہ ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوچکا ہے ، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِطیبہ کے کتنے ہی واقعات متعلق ہیں ، ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’ اُمتی ‘‘ ہونے کا جو شرف ہمیں حاصل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے جس تمغۂ افتخار سے رب کائنات نے ہمیں نوازا ہے ، اس کے تقاضے کیا ہیں ؟ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے کیا حقوق اس اُمت پر ہیں ؟ موجودہ حالات میں جب کہ یہودی اور صلیبی طاقتیں اسلام پر چو طرفہ حملہ کررہی ہیں اورچاہتی ہیں کہ یہ اُمت دامن محمدی (صلی اﷲ علیہ وسلم) سے محروم ہوجائے ، اس پر غور کرنے اور توجہ دینے کی بڑی ضرورت ہے ۔
اُمت پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا پہلا حق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ایک ایک چیز کا احترام ہے ، نبی اور اُمت کا تعلق محض قانونی تعلق نہیں ہوتا ، جو محبت و گداز اور جذبۂ توقیر و احترام سے خالی ہو ، اُمت کا اپنے نبی سے تعلق خالص روحانی اور ایمانی تعلق ہے ، اس تعلق میں نمایاں جہت احترام و تکریم کی ہے ؛ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری انسانیت پر فضیلت عطا فرمائی ہے ، گذشتہ پیغمبروں کی بعثت ایک خاص قوم اور گروہ کی طرف ہوتی تھی ، حضرت نوح علیہ السلام کی ان کی قوم کی طرف ، (اعراف : ۵۹ ) حضرت ہود علیہ السلام قوم عاد کی طرف مبعوث ہوئے ، (اعراف : ۶۵) حضرت صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کے لئے بھیجا گیا ، ( اعراف: ۷۳ ) حضرت لوط علیہ السلام کی بعثت ان کی قوم کی طرف ہوئی (اعراف : ۸۱) اہل مدین کی ہدایت کے لئے حضرت شعیب علیہ السلام کو نبوت عطا کی گئی ، (اعراف : ۸۵ ) لیکن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت پوری انسانیت کے لئے ہے ،کَافَّۃً لِلنَّاسِ بَشِیْراً وَّنَذِیْراً ، (السبا : ۲۸ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام عالم کے لئے رحمت بناکر بھیجے گئے ، (انبیاء : ۱۰۷) پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہلایا گیا کہ میں تم سب کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہوں : اِنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً ، (اعراف : ۱۵۸) اس حقیقت کی طرف رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ایک ارشاد میں بھی اشارہ فرمایا ہے کہ پانچ چیزیں مجھے امتیازی طورپر عطا کی گئیں ، جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئی تھی، ان میں سے ایک یہ ہے کہ پہلے انبیاء ایک خاص قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے اور مجھے پوری انسانیت کی طرف بھیجا گیا ہے ، کَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ اِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً وَبُعِثْتُ اِلٰی النَّاسِ عَامَّۃً ۔ (بخاری مع الفتح : ۱/۵۵۳، مسلم ، حدیث نمبر : ۵۲۱ )
خود اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تکریم کا حال یہ ہے کہ تمام پیغمبروں سے عہد لیا گیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی موجودگی میں تشریف لائیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاون فرمائیں ( آل عمران : ۴۱) علامہ ابن کثیر نے تفصیل سے انبیاء کے اس میثاق کا ذکر کیا ہے ، (تفسیر ابن کثیر : ۱/۳۸۶) اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کسی اور شخصیت کی قسم نہیں کھائی ، لیکن جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خود باری تعالیٰ نے قسم کھائی ہے ، لَعَمْرُکَ اَنَّہُمْ لَفِیْ سُکْرَتِہِمْ یَعْمَھُوْن ، ( الحجر : ۷۲ ) قرآن کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے عام طورپر انبیاء کو ان کے نام سے مخاطب فرمایاہے : یَا آدَم (بقرہ: ۳۵ ۹) یَا نُوْح (ہود : ۴۸ ) ( اعراف : ۱۴۴) یَا اِبْرَاہِیْم ( صافات : ۱۰۴) یَا عِیْسیٰ بْنَ مَرْیَم (المائدہ : ۱۱۰) لیکن رسول اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہمیشہ یَا اَیُّہَا الرَّسُوْل کے گرامی مرتبت لقب سے یاد فرمایا گیا ہے، ( المائدہ : ۴۱، ۶۷)اور ’’ اے نبی ! ‘‘ فرمایا گیا ہے ۔ (انفال : ۶۲)
جب خود اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر و تکریم کا یہ معاملہ ہے تو اُمت پر کس قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر واجب ہوگی ؟ چنانچہ اسی پہلو سے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو حکم دیا گیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نام لے کر نہ پکاریں ، جیساکہ ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں ، لَا تَجْعَلُوْا دُعَاء الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَاء بَعْضِکُمْ بَعْضًا، ( النور : ۶۳ ) حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کا منشاء یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’ یا نبی اﷲ یا رسول اﷲ ‘‘ کے الفاظ سے مخاطب کریں ، (تفسیر طبری : ۱۸/۱۳۴) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور بلندی درجات کی وساطت سے اُمت کو بھی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اسے تمام اُمتوں میں سب سے بہتر اُمت قرار دیا گیا ، کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃً اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ۔ (آل عمران : ۱۱۰)
آخرت میں بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خاص شان عطا کی جائے گی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود سے سرفراز کیا جائے گا ، جس کا خود قرآن میں ذکر ہے ، (اسراء : ۸۹) جس میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شریک و سہیم نہیں ہوگا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نفسا نفسی کے اس دن میں بھی شفاعت کا حق دیا جائے گا ۔ (بخاری مع الفتح : ۱۱ /۵۳۲، مسلم ، حدیث نمبر : ۲۸۶۳)
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی توقیر کا حال یہ تھا کہ جب کوئی نصیحت فرماتے تو لوگ اس طرح بیٹھتے جیسے ان کے سروں پر کبوتر بیٹھے ہوئے ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی سوال فرماتے تو ادب و احترام کے نقطہ نظر سے عرض کرتے : ’’ اﷲ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ، اَﷲُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمْ ، اگر کسی بات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی محسوس کرتے تو کہنے لگتے : میں خدا سے بحیثیت رب کے اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے بحیثیت ِرسول اور اسلام سے بحیثیت ِدین کے راضی ہوں ، رَضِیْتُ بِاﷲِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدً رَسُوْلاً وَبَالْاِسْلَامِ دِیْنَا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوکتے یا وضو فرماتے ، تو اسے زمین پر گرنے نہیں دیتے اور ہاتھ میں لے کر بدن پر مَل لیتے ، چلتے تو پیچھے پیچھے رہتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں امامت نہیں کرتے ، یہاں تک کہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امام بنادیا گیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نزاع کوحل کرنے میں مصروف تھے ، درمیان میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے ، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جوں ہی آہٹ محسوس کی ، نماز کے درمیان ہی پیچھے ہٹ گئے ، صحابہ رضی اللہ عنہم کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو عظمت تھی اوران کے عمل سے جس احترام و توقیر کا اظہار ہوتا تھا ، انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی توقیر اب بھی اسی طرح جزوِ ایمان ہے ، جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم فرمایا کرتے تھے؛ اسی لئے فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے اور نعوذ باﷲ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی نیت سے کوئی بات کہے یا لکھے ، تو وہ دائرہ ایمان سے باہر ہوجائے گا ؛ جب تک کہ توبہ نہ کرلے اور اگر تائب نہ ہو اور اسلامی حکومت ہو ، تو عدالت اس کے قتل کا فیصلہ کرے گی ؛ بلکہ اگر اسلامی ملک میں کوئی غیر مسلم بھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بدگوئی کرے اور گستاخانہ کلمات کہے تو اس کے لئے بھی یہی سزا ہوگی ۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی پورے احترام سے لیا جائے اور جب اسم گرامی آئے تو درود شریف پڑھاجائے ، نام لینے والا بھی درود پڑھے اور سننے والا بھی ، امام طحاویؒ کے نزدیک تو ایک مجلس میںاگر بار بار آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ذکر ہو تو ہر بار درود پڑھنا واجب ہے ؛ کیوں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس شخص کو بخیل قرار دیا جس کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر ہو اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام نہ بھیجے اور بعض حضرات کے نزدیک اگر ایک نشست میں بار بار ذکر آئے تو ایک بار درود پڑھنا واجب ہے اور اس کے بعد مستحب ، یہ حکم کہنے اور سننے والوں کے لئے بھی ہے اور لکھنے والوں کے لئے بھی ، مشہور محدث علامہ ابن صلاحؒ نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ پورا درود نہیں لکھتے ، بلکہ صرف ’’ص ‘‘ یا ’’ صلعم ‘‘ لکھتے دیتے ہیں اور اس کو کوتاہی قرار دیا ہے ۔ ( دیکھئے : القول البدیع : ۳۵۴ )
قرآن نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس بات سے منع کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آواز بلند کردیں ، لاَ تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ، (الحجرات : ۲) علماء نے اس سے یہ بات اخذ کی ہے کہ جس مسلمان کو قبر شریف کی زیارت کا شرف حاصل ہو ، وہ روضۂ اطہر کے پاس بھی ایسے ادب واحترام کو ملحوظ رکھے ، آواز بلند نہ ہو ، یہاں تک کہ صلاۃ و سلام بھی معتدل آواز میں پیش کرے ، اس مبارک مقام پر اس تصور کے ساتھ حاضر ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہے ۔
احترام نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اہم پہلو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا احترام ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کو چوںکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سے نسبت حاصل ہوگئی ہے ، اس لئے اس کی حیثیت عام افعال کی سی نہیں ہے ، اس کو اپنی زندگی کا معمول بنانا چاہئے ، اگر عمل میں کوتاہی ہو جائے تب بھی دل میں اس کی عظمت ہو اور اس کی بے احترامی اور تحقیر کا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکلے ، مسواک کرنا فرض یا واجب نہیں ہے ، لیکن اسی نسبت کی وجہ سے اس کی تحقیر و اہانت کو فقہاء نے کفر قرار دیا ہے ، افسوس کہ آج ہمارے سماج میں سنتوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے ، داڑھی کا استہزاء کیا جاتا ہے ، لمبے کرتے اور ٹخنوں سے اوپر پائجاموں اور تہبند پر پھبتیاں کسی جاتی ہیں ، تسبیح اور مسواک کی اہمیت کو کم کرکے بتایا جاتا ہے ، بعض لوگ اپنی ناسمجھی میں قرآن مجید حفظ کرنے والوں کو ’’ رٹو طوطا ‘‘ (نعوذ باﷲ) تک کہہ گذرتے ہیں ، یہ بالواسطہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کی تحقیر ہے اور اس میں متاعِ ایمان کے لٹ جانے کا اندیشہ ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان علوم سے بھی محبت ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے متعلق ہے ، قرآن کی محبت ، حدیث کی محبت اور قرآن وحدیث پر مبنی علوم کی محبت ، امام مالکؒ جیسے جلیل القدر محدث و فقیہ کا حال یہ تھا کہ جب حدیث کا درس دیتے تو غسل کرکے تشریف لاتے ، اچھے کپڑے زیب تن فرماتے اور اپنے لباس کو خوشبو میں بساتے ، ایک بار دورانِ درس ایک بچھو کپڑے میں گھس گیا ، بچھو نے پشت میں کئی ڈنک مارے ، تکلیف کی شدت سے آپؒ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہوجاتا ؛ لیکن درس منقطع نہیں فرمایا اوراز راہ احترام اپنی بیٹھک میں کوئی فرق نہیں آنے دیا ، درس ختم ہونے کے بعد جب کرتا کے اندر دیکھا گیا توبچھو اور اس کا ڈنک نظر آیا ، ( الدیباج المذہب : ۱۹- ۲۳ ) —- لیکن آج دینی علوم کی عظمت و توقیر کا کیا حال ہے ؟ جس علم سے مادی منفعت متعلق نہ ہو ، اس کی عظمت ہم لوگوں کے دل سے نکلتی جارہی ہے ، اخبارات و رسائل میں قرآنی آیات و احادیث اور ان کے ترجمے شائع کئے جاتے ہیں ، تاکہ لوگ اس سے فائدہ اُٹھائیں ، لیکن اس قابل احترام کاغذ کے ٹکڑے ردیوں میں پھینک دیئے جاتے ہیں ، بہر حال ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام میں ان تمام چیزوں کا احترام شامل ہے جن کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہے ۔
کسی شخصیت کا احترام اس کی معرفت سے پیدا ہوتا ہے ، اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہماری نسل سیرت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے نابلد ہے ، اسے عام سیاسی شخصیتوں کے بارے میں جتنا معلوم ہے ، اتنا بھی اپنے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں معلوم نہیں ، انگلش میڈیم کے رجحان نے نئی نسل اور اسلامی لٹریچر کے درمیان خلیج پیدا کردی ہے ، ان میں بعض طلبہ وہ ہیں جو مستشرقین کی کتابوں سے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے ہیں ، ان کتابوں میں میٹھا زہر سمویا ہوا ہوتا ہے اوران کی کوشش ہوتی ہے کہ تحسین واعتراف اور ظاہری توقیر و احترام کے ساتھ ساتھ بین السطور میں ایسی باتیں ذکر کردی جائیں ، کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت پڑھنے والوں کے دلوں میں کم ہوجائے اور جیسے دوسری انقلابی شخصیتوں کے تذکرے پڑھے ہیں ، اسی نقطۂ نظر سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بھی مطالعہ کریں ، یہ بہت خطرناک صورتِ حال ہے اور ضرورت ہے کہ ہم پورے اہتمام کے ساتھ نوجوان نسل کو ان کتابوں سے سیرت پڑھائیں ، جنھیں محبت اور عقیدت و احترام کی روشنائی میں ڈبوکر لکھا گیا ہے ، یہی مؤمن کے لئے سب سے قیمتی متاع اور بے بدل سوغات ہے ، اس کے لئے اپنی رگِ گلو کو کٹانا ، اپنے ماں باپ اوراولاد کو نچھاور کرنا اور اپنی عزت و آبرو کو تختۂ دار پر چڑھانا آسان ہے ، لیکن اپنے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم سے تعلق اور احترام و محبت کی جو میراث اسے اپنے آباء و اجداد سے ملی ہے ، وہ اس گوہر آبدار اور درِّ نایاب سے کسی بھی قیمت پر محرومی کو گوارہ نہیں کرسکتا ۔