مولاناعبدالحمیدنعمانی
لگتا ہے کہ بھارت کے لوگ، ایک چکر ویوہ میں پھنستے جا رہے ہیں،جس چکر ویوہ میں ارجن کا جنگ جو بہادر بیٹا ابھیمنیو پھنسا کر مارا گیا تھا، ابھیمنیو چکر ویوہ میں داخل ہونا جانتا تھا لیکن نکلنا نہیں، وہ پہلے دروازے پر تعینات محافظ سپاہی کو قتل کر کے چکر ویوہ میں داخل تو ہو ہو گیا لیکن اسے پتا نہیں تھا کہ پہلے دروازے میں داخل ہوتے ہی راستہ اور خالی جگہ بند ہو جائے گی اور اس کی جگہ دوسرا محافظ سپاہی لے لیگا، وہ نہتھا ہو چکا تھا، جنگ کے اصول کے مطابق ابھیمنیو پر کورو کی طرف سے حملہ نہیں کیا جانا چاہیے تھا لیکن جے ورتھ اوریکے بعد دیگرے سات محافظ فوجیوں نے پے در پے حملے کر کے ابھیمنیو کا کام تمام کر دیا،
دوسری طرف پانڈو پسر کرن جو کورو کی طرف تھا کو، پانڈو پسر ارجن نے دھوکے سے مار دیا، جب کرن رتھ اوپر اٹھا رہا تھا تو اسے پیچھے سے حملہ کر کے مار دیا گیا تھا، یہ بھی کہ ماہر تیر انداز اکلو کا انگوٹھا کٹوا کر گرو دکشنا میں لے لیا گیا تھا، کیا ہم اسی طرح کے حالات میں جا رہے ہیں، بھارت کو علامتوں کے توسط سے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے، کرن کے مارے جانے پر کرشن مہاراج روئے تھے، لیکن بعد از وقت اس سے کوئی صحیح نتیجہ نہیں نکل سکتا تھا، چکر ویوہ میں پھنس کر ابھیمنیو کے مارے جانے، کرن کو پیچھے سے حملہ کر کے مار دینے اور اکلو کا انگوٹھا کٹوا کر گرو دکشنا میں لے لینے کے کئی سارے پہلو ہیں، سنجیدگی اور غور سے دیکھا جائے تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آج کا بھارت اور اس کے عوام کی بڑی اکثریت بھارت کی مہا بھارت کی زد میں ہے، خاص طور سے محنت کش طبقات اور اقلیتوں میں بالخصوص مسلم اقلیت کو ایک طرح سے گھیر لیا گیا ہے، اس کی مایوسی، محرومی اور پوری طرح نظر انداز کر کے سب کچھ کیے جانے کے احساس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس کا اظہار جامع مسجد بنارس گیان واپی کے تہ خانہ میں پوجا کے عدالتی فیصلے کے بعد ملک کی موقر مسلم تنظیموں کے سربراہوں اور دیگر نمائندہ شخصیات کے بیانات و تاثرات میں گزشتہ چند دنوں پہلے ہوا ہے، ایسے ردعمل کو کسی بھی طور سے بے جا قرار نہیں دیا جا سکتا ہے، ان کو لگ رہا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو گھیر گھار کر کچھ لوگوں کے بنائے چکر ویوہ میں لے جایا جا رہا ہے، انگوٹھے کاٹ کر ناکارہ بنانے کی سازش اور منظم کوششیں کی جارہی ہیں، جس” آستھا ” کے نام پر سب کچھ کیا جا رہا ہے اس کا حقیقت میں سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے، مفروضہ کہانیوں کو تاریخ قرار دینے کا خطرناک کھیل چل رہا ہے، کسی خاص کمیونٹی کی مبینہ آستھا کی بنیاد پر کسی دوسری کمیونٹی کے ثابت شدہ حق و آزادی سے محروم کرنے کا کسی آزاد جمہوری ملک میں کوئی جواز نہیں ہے، سب کے سامنے کی زندہ حقیقت،بابری مسجد کو ایک مفروضہ کہانی پر مبنی بعد کی بنائی آستھا کی بنیاد پر در کنار کر دینے کا معاملہ قطعی ناقابل فہم ہے، یہی کچھ جامع مسجد گیان واپی کے ساتھ کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے، مسجد کے تہ خانہ کو ویاس تہہ خانہ قرار دے کر اس میں پوجا پاٹ کا حق دینے کا مطلب بہت صاف ہے کہ ملک میں ایک خاص طرح کے سسٹم اور روایات و افکار کو بڑھاوا دینے کا من بنا لیا گیا ہے، گرچہ دعوٰی یہ کیا جا رہا ہے کہ فیصلے شواہد اور قانون کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں، تاہم اس کی حقائق اور سامنے کے حالات و شواہد تصدیق و تائید نہیں کرتے ہیں، یہاں یہ بنیادی سوال کا جواب نہیں ملتا ہے کہ جب 1937’40 میں مقامی و ہائی کورٹ کے فیصلے میں دعوٰی کردہ ایریا کو مسجد کی ملکیت قرار دیا گیا تھا تو بعد کے دنوں میں مسجد کا تہہ خانہ، کب ویاس تہہ خانہ قرار پا گیا، شاہی احاطہ میں وشو ناتھ مندر تو مسجد کی تعمیر کے بہت بعد، اورنگزیب کے انتقال کے برسوں بعد،متنازعہ حالات میں بنایا گیا تھا، ملک کی آزادی کے قریب آزادی کے ساتھ، مسجد کی ملکیت والی جگہوں پر دعوے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور حکومت اور فرقہ پرست پولیس انتظامیہ کی ملی بھگت سے مسجد کی ملکیت والی جگہوں کو متنازعہ بنا کر ان پر قبضے کا راستہ ہموار کیا گیا، زور زبردستی اور حیلے بہانے سے عمل دخل کو بنیاد بنا کر پہلے کی قائم و ثابت ملکیت کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟اس سلسلے میں مسلم تنظیموں اور شخصیات کے بیانات پر جس طرح کے ردعمل اور جارحانہ تنقیدیں، مختلف ہندوتو وادی تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کے لوگوں کی طرف سے سامنے آ رہی ہیں ان کو کسی بھی طور سے صحیح اور معقولیت و حقیقت پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے، وشو ہندو پریشد کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر سریندر جین، آل انڈیا اینٹی ٹیررسٹ کے صدر ایم ایس بٹا، باگیشیور دھام کے دھریندر شاستری اور مسلم راشٹریہ منچ کے کچھ مسلم نام والے جس طرح مسلم قائدین کے بیانات کی جارحانہ مخالفت اور ان کی تحقیر و تخفیف کر کے نا قابل توجہ بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں ان سے بہت صاف ہو گیا ہے کہ ان کو معقولیت و شرافت سے کوئی لینا دینا نہیں رہ گیا ہے، ایسی حالت میں مسلم قیادت کے سامنے یہ بڑا سوال ہے کہ پیدا شدہ صورت حال کا کس طرح سامنا کیا جا سکتا ہے؟اس سلسلے کی یہ ایک بنیادی بات ہے کہ اس کے پاس متعلقہ معاملے کی پوری معلومات اور واضح شواہد ہوں، معروف تنظیمیں اور ادارے تمام طرح کے شواہد اور دستاویزات کو اپنے تحقیقی شعبے میں جمع کرنے کا کام کریں، جس طرح منصوبہ بند طریقے پر ایک کے بعد ایک تاریخی ماثر و معابدکو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ ایسا مدت دراز تک کیا جائے گا، ملک میں ایک مخصوص قسم کی تاریخ سازی اور گمراہ کن تاریخ نویسی کا شروع کیا گیا ہے، اس کے خلاف مزاحمت و محنت کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے، یہ سوال اٹھایا جانا چاہیے کہ مندر کس کی جگہ پر بنا تھا؟ہندوتو کی زد و اثر میں ایسے ادارے واشخاص آتے جا رہے ہیں جن کے متعلق تصور نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ یہاں تک آجائیں گے، پروفیسر عرفان حبیب جیسے مورخ سے توقع تھی کہ وہ ملک کے بدلتے مخصوص حالات میں، حقائق کو صحیح تناظر میں پیش کر کے متعلقہ باتوں کی بہتر تشریح کریں گے، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا ہے، بہت سے لوگ حکومت کے خلاف سرگرمیوں اور گمراہ کن تعلیمات دینے میں ملوث مندروں کے انہدام اور ان کی عین جگہ پر مسجد کی تعمیر میں فرق کیے بغیر عمومی باتیں کر کے بھرم پھیلانے کا کام کر رہے ہیں، وہ کسی مضبوط و واضح حوالے کے بغیر یہ کہہ رہے ہیں کہ اورنگزیب نے 1670 کے قریب کاشی وشو ناتھ مندر توڑوا کر اس کی جگہ گیان واپی مسجد کی تعمیر کر وا دی تھی، اس دعوے کے ثبوت میں ماثر عالمگیری کا حوالہ دیا جاتا ہے، یہ دعوٰی بالکل بے بنیاد اور بات کو گڈ مڈ کر کے کہیں کی بات کو کہیں سے جوڑ کر پیش کرنے کا مغالطہ انگیز اور گمراہ کن طریقہ ہے، یہ بات ہی غلط ہے کہ سرکاری مقاصد اور پالیسی کے خلاف سرگرمیوں اور گمراہ کن تعلیمات میں ملوث عام مندروں کو کاشی وشو ناتھ مندر قرار دیا جائے، ماثر عالمگیری میں مندر توڑ کر اس کی جگہ مسجد بنانے کا سرے کوئی ذکر نہیں ہے، اورنگزیب کے فرمان بنارس میں پہلے سے تعمیر کردہ مندروں کو توڑنے سے واضح الفاظ میں منع کیا گیا ہے (از روے شرع شریف و ملت حنیف مقرر چنیں است کہ دیرہائے دیریں بر انداختہ نشود)اس کے پیش نظر پہلے سے بنے پرانے مندر جیسا کہ کاشی وشو ناتھ مندر کے بارے میں کہا جاتا ہے کو منہدم کر کے وہاں مسجد کی تعمیر کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے،ماثر عالمگیری میں معابد بے دیناں انہدام سازند کا جملہ ہے، پورے اقتباس میں کاشی وشو ناتھ یا ویشیشور مندر کا سرے نام ہی نہیں ہے اور نہ اس کو توڑ کر اس کی جگہ مسجد کی تعمیر کی بات ہے، ایسی حالت میں باتوں کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔