ہمارے 12، کی حقیقت

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

 کسی بات کو مخاطب تک مؤثر طور پر پہنچانے کے دو طریقے ہیں، ایک یہ کہ صرف آواز کے ذریعہ مخاطب کے کانوں تک اپنی آواز پہنچائی جائے، دوسرے یہ کہ بالمشافہ آمنے سامنے اپنی بات کہی جائے، پہلی صورت میں دور تک بات پہنچائی جا سکتی ہے، خاص کر ٹیلی فون وغیرہ کے ذریعہ، دوسری صورت میں اگرچہ آپ دور تک اپنی بات نہیں پہنچا سکتے؛ لیکن جب آپ کوئی بات کہتے ہیں تو اس میں آواز اور الفاظ کے ساتھ چہرے کے نقوش بھی شامل ہوتے ہیں، الفاظ اور نقوش مل کر مخاطب پر زیادہ اثر ڈالتے ہیں؛ لیکن اس طریقہ پر آپ اسی شخص سے اپنی بات کہہ سکتے ہیں، جو آپ کے سامنے ہو، جس سے دو چار فٹ یا کچھ زیادہ فاصلہ ہو، اس سے خطاب نہیں کر سکتے؛ مگر موجودہ دور میں ابلاغ کے میدان میں جو ترقی ہوئی ہے، اس نے اس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ آپ دور دور تک اپنی آواز بھی پہنچا سکتے ہیں، اپنے چہرے کے نقوش بھی اور مضمون کے اعتبار سے اپنے جسم کی حرکت بھی، اور یہ ہے ڈیجیٹل تصویروں کا وسیلہ؛ چنانچہ فلموں اور انٹرنیٹ پروگراموں کے ذریعہ آپ اپنی بات سمندر پار تک پہنچا سکتے ہیں اور شب وروز پہنچائی جا رہی ہے۔

 اگر اس قوت کا استعمال بہتر مقاصد کے لئے ہو تو دنیا خیر اور بھلائی سے معمور ہو جائے، سماج کی اصلاح، لوگوں کو اخلاق کے سانچے میں ڈھالنے، صالح معاشرہ کی تشکیل، اچھی باتوں کی ترغیب اور بری باتوں سے روکنے اور بچانے کا اس وقت شاید اس سے زیادہ مؤثر ذریعہ نہیں ہے؛ مگر افسوس کہ آج اس عظیم ٹیکنالوجی اور مفید وسیلہ کا استعمال خیر سے زیادہ شر کے لئے اور بھلائی سے زیادہ برائی کے لئے ہو رہا ہے، پہلے نفرت پیدا کرنے کے لئے غیبت کا سہارا لیا جاتا تھا، اور لوگ چپ چاپ کسی کی برائی بیان کرتے تھے، پھر اس کے لئے خفیہ میٹنگیں ہونے لگیں، جس میں سو پچاس افراد رازداری کے ساتھ سازشوں کے جال بُنا کرتے تھے، پھر اس مقصد کے لئے دھواں دار تقریریں ہونے لگیں، بڑے بڑے جلسے منعقد ہونے لگے، خاص کر سیاسی طالع آزماؤں نے اپنی ناکارگی کو چھپانے کے لئے اس کا بہت استعمال کیا، اب اس مقصد کے لئے ریلیاں بھی کی جاتی ہیں، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعہ اشتہارات بھی نشر کئے جاتے ہیں، جھوٹ پر مبنی فرضی ڈبیٹ بھی رکھے جاتے ہیں، اور علی الاعلان لوگوں کو محبت کی بجائے نفرت کی دعوت دی جاتی ہے۔

 اب اس نفرت آمیز طرز عمل کو مزید مؤثر بنانے اور اس کے دائرہ کو وسیع کرنے کے لئے فلموں کا سہارا لیا جارہا ہے، نوجوان زیادہ فلم بینی کے شائق ہوتے ہیں، کوئی نوجوان دو گھنٹے خاموشی کے ساتھ بیٹھ کر تقریر نہیں سن سکتا؛ لیکن فلم دیکھ سکتا ہے؛ اس لئے اب من گھڑت اور نفرت انگیز کہانیوں کو بنیاد بنا کر فلمیں تیار کی جاتی ہیں، اس سے پہلے کشمیر اور کیرالا کے سلسلے میں سراسر جھوٹ پر مبنی فلمیں بنائی گئیں، خود سرکاری محکموں نے اس کے خلاف ِواقعہ ہونے کا اعتراف کیا؛ لیکن چوں کہ اس کا نشانہ مسلمان تھے، اور مسلمانوں کے خلاف ستر خون معاف ہیں؛ اس لئے حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔

 اب معلوم ہوا ہے کہ ایک نئی فلم “ہمارے 12” کے عنوان سے آرہی ہے، جس کا ٹریلر یو ٹیوب پر آچکا ہے، اس میں سب سے پہلے ایک مولوی نما شخص علماء کا معروف لباس پہن کر اور سر پر عمامہ کے ساتھ بہت ہی قوت کے ساتھ قرآن مجید کی آیت:

نسائکم حرث لکم فأتوا حرثکم أنی شئتم ( بقرہ، آیت نمبر: 322)

ترجمہ: تمہاری بیویاں تمہارے لئے کھیتیاں ہیں؛ لہٰذا تم اپنی کھیتی پر آؤ جس طرح چاہو۔

 کی تلاوت کرتا ہے، پھر مختلف مکروہ منظر پیش کئے جاتے ہیں، ایک عورت حاملہ ہے اور چاہتی ہے کہ شوہر ابھی اس سے جسمانی تعلق قائم نہ کرے؛ مگر شوہر زور زبردستی کر کے جسمانی تعلق قائم کرنا چاہتا ہے، ایک عورت کافی بیمار ہے، اپنے شوہر سے معذرت کرتی ہے، پھر بھی شوہر زور زبردستی کر کے اس سے جسمانی رشتہ قائم کرنے کے درپئے ہے، اسی طرح کے مختلف مناظر ہیں، ہر منظر میں مرد کو مسلمان شخص کی صورت میں دکھایا گیا ہے، اور عورت کو برقعہ میں؛ تاکہ دیکھنے والے جان لیں کہ ایسی حرکتیں مسلمان کیا کرتے ہیں، پھر یہ تأثر دیا گیا ہے کہ اسی وجہ سے مسلمانوں کے یہاں زیادہ بچے ہوتے ہیں، مسلمان بیوی بارہ بچے پیدا کرتی ہے، پہلے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ وغیرہ جیسے ذمہ دار لوگوں نے ہم پانچ اور ہمارے پچیس اور ہمارے چالیس جیسا خلاف واقعہ نعرہ دیا تھا، اب اس فلم میں ایک طرف عورتوں پر ظلم دکھایا گیا ہے، اور دوسری طرف اولاد کی کثرت دکھائی گئی ہے۔

 اس کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ہمیں قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے، اور برادران و طن کی کتابوں کا بھی جائزہ لینا چاہئے، سورۂ بقرہ کی اس آیت کے نازل ہونے کا سبب یہ ہے کہ اسلام کے پہلے سے مکہ میں لوگ میاں بیوی کے جسمانی تعلق کے لئے مختلف طریقے اختیار کرتے تھے، سامنے کی طرف سے، پشت کی طرف سے ، بیٹھ کر اور کروٹ کی شکل میں، عورت کی پیٹھ کے بل لیٹنے یا پیٹ کے بل لیٹنے کی حالت میں؛ لیکن بہر حال یہ تعلق عورت کی آگے کی شرمگاہ میں ہی قائم کیا جاتا تھا، یہودیوں کے یہاں ایک ہی طریقہ کی قید تھی، مختلف انداز سے شوہر اور بیوی ایک دوسرے سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے تھے، یہود مدینہ میں رہتے تھے اور مدینہ میں انصار مدینہ کا بھی قیام تھا، تو انصار کے یہاں بھی یہی مزاج تھا، شوہر وبیوی کے تعلق میں ایک ہی طریقہ کی پابندی ہوتی تھی، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے، تو ایک مہاجر مرد کی ایک انصاری عورت سے شادی ہوئی اور انھوں نے جسمانی تعلق میں اہل مکہ کے طریقہ کے مطابق مختلف انداز پر بیوی سے لطف اندوز ہونا چاہا، یہ بات اس خاتون کو ناگوار گزری، انھوں نے کہا کہ مجھے یہ گوارا نہیں ہے، اگر تم کو ایسا کرنا ہے تو مجھ سے دور رہو، یہ اختلاف دوسرے لوگوں تک بھی پہنچا، یہاں تک کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک بھی، اسی موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی کہ بیویاں اپنے شوہروں کے لئے کھیتی کے درجہ میں ہیں، تو جس طریقہ پر وہ چاہیں اپنی کھیتی پر آئیں، یعنی شوہر کسی بھی طریقہ پر بیوی کے اس حصۂ جسم میں اپنا مادہ تولید ڈال سکتا ہے، جس میں بچہ کی نشو ونما ہوتی ہے اور طرفین کو اولاد کی نعمت حاصل ہوتی ہے، ( الکشف والبیان عن تفسیر القرآن ، سورۃ البقرۃ، بروایت ابن عباس :322، : 2؍ 161) یعنی اس میں کیفیت کا عموم ہے کہ جس کیفیت کے ساتھ چاہے صحبت کرے، مقام کا عموم نہیں ہے، وہ تو متعین ہے کہ جس راہ سے حمل کا استقرار ہو سکتا ہے، اسی کا استعمال کرے۔

 حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے؛ بلکہ اس میں سیدھی سادھی بات کہی گئی ہے کہ ایک تو انسان فطری طور پر صنفی تعلق کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس تعلق کو قائم کرنے کی اجازت ہے، دوسرے اولاد کی طلب ایک فطری جذبہ ہے؛ اس لئے مرد کو اپنی بیوی سے اولاد کے لئے تعلق قائم کرنا چاہئے، ہر مذہب اور مہذب سماج میں اس کو تسلیم کیا گیا ہے، خود ہندو سماج میں بھی یہی تعلیم دی گئی ہے؛ چنانچہ: یجروید میں ہے:

“اے نیشو! جیسے بیل گایوں کو گابھن کر کے نسل بڑھاتا ہے، ویسے ہی گرہستی لوگ استریوں کو حمل رکھا کر پرجا بڑھاویں” (یجروید بھاش، حصہ سوم، ادھیائے، 28، منتر 32، صفحہ: 294، اردو ترجمہ: مطبع نگم پرکاش مسجد سوٹھہ ضلع دہلی)

 ہندو مذہب میں اولاد کے حصول کے جذبہ کو کتنی اہمیت دی گئی ہے، اس کا اندازہ کرنے کے لئے ہندو مذہب میں “نیوگ” کا قانون کافی ہے، پنڈت دیانند سرسوتی جی نے ہندو مذہبی کتابوں کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ بیوہ عورت کو بھی اپنے دیور کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کر کے اولاد حاصل کرنی چاہئے:

“اے بیوہ عورت! اپنے اس مرے ہوئے اصل خاوند کو چھوڑ کر زندہ دیور یعنی دوسرے خاوند کو قبول کر، اس کے ساتھ رہ کر اولاد پیدا کر، وہ اولاد جو اس طرح پیدا ہوگی تیرے اصلی خاوند کی ہوگی” (ستیارتھ، ب:4، دفعہ: 133)

 بلکہ بات اس سے بھی آگے جاتی ہے کہ نیوگ کے نام پر شوہر کی زندگی میں بھی دوسرے مرد سے تعلق قائم کر کے عورت کو اولاد پیدا کرنی چاہئے؛ چنانچہ پنڈت جی دیانند سرسوتی کہتے ہیں:

“نیوگ جیتے جی بھی ہوتا ہے، جب خاوند اولاد پیدا کرنے کے ناقابل ہو، تب اپنی عورت کو اجازت دے کہ اے نیک بخت اولاد کی خواہش کرنے والی عورت! تو مجھ سے علاوہ دوسرے خاوند کی خواہش کر؛ کیوں کہ اب مجھ سے تو اولاد نہ ہو سکے گی، تب عورت دوسرے کے ساتھ نیوگ کر کے اولاد پیدا کر لے’ (ستیارتھ، ب:4، دفعہ: 138)

 ان صراحتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہندو مذہب میں اولاد کے حصول کو کتنی اہمیت دی گئی ہے، مہابھارت کے بیان کے مطابق بھگوان واسو دیو جی کی سولہ ہزار ایک سو رانیاں ہیں، جن میں آٹھ رانیاں زیادہ مشہور تھیں، (مہا بھارت، انش:4-15) شری کرشن جی کی بھی سولہ ہزار رانیاں تھیں (مہابھارت انش:5-28) ہندو مذہب کی اصل تعلیمات کے مطابق برہمن کو چار، چھتری کو تین، ویش کو دو، شودر کو ایک اور بادشاہ کو جتنی بیویاں رکھنا چاہے اتنی بیوی رکھ سکتا ہے، ظاہر ہے کہ جب بیویاں اتنی بڑی تعدادمیں ہوں گی تو اولاد بھی اسی نسبت سے ہوگی، پھر مسلمانوں کی اولاد پر اتنی آہ وبکا کیوں؟ اگر موجودہ دور کے قد آور سیاسی لیڈروں خاص کر سنگھ پریوار سے جڑے ہوئے رہنماؤں کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بہت سے وہ ہیں، جن کی بیویاں ایک سے زیادہ ہیں، اور بہت سے وہ ہیں کہ خود اُن کے خاندان میں بچوں کی پیدائش اچھی خاصی ہے، ایک سیاسی مقرر نے حال ہی میں علی الاعلان بتایا کہ واجپائی جی، یوگی آدتیہ ناتھ ، امیت شاہ، نریندر مودی، اشوک سنگھل اور ہمنتا بسوا شرما کے سات بھائی بہن اور آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کے چار بھائی بہن ہیں، اور گرو گوالکر جی کے تو ایک درجن بچے تھے، یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی گئی اور ان میں سے کسی کو اس کی تردید کی جرأت نہیں ہوئی۔

 حقیقت یہ ہے کہ نہ مسلمانوں کے یہاں دوسرے سماج کے مقابلہ زیادہ اولاد پیدا کرنے کی منصوبہ بند کوشش ہوتی ہے اور نہ قرآن مجید میں شوہر وبیوی کے تعلق کے سلسلہ میں جو ہدایت دی گئی ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ عورت اپنی صحت اور حالات کی رعایت کئے بغیر شوہر کے جنسی استفادہ کے لئے اپنے آپ کو پیش کرے اور وہ اس سے انکار نہیں کر سکتی، فقہاء نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ بیوی سے اس کی صلاحیت اور طاقت سے زیادہ جسمانی رشتہ قائم کرنا جائز نہیں ہے: ولو تضررت من کثرۃ جماعہ لم تجز الزیادۃ علی قدر طاقتھا (رد المحتار:3؍ 203، دارالفکر)اور علامہ امام نوویؒ نے لکھا ہے کہ اگر عورت بیمار ہو یا اس کو زخم ہو تو وہ شوہر کو جسمانی استفادہ سے روکنے میں حق بجانب ہوگی: ولو کانت مریضۃ أو کان بھا قرح یضرھا الوطء فھي معذورۃ فی الامتناع عن الوطء (روضۃ الطالبین:9؍ 95) اس لئے یہ تأثر دینا کہ مردو عورت کے تعلق میں مرد کو مکمل من مانی کرنے کا حق دیا گیا ہے، سراسر غلط ہے، اور یہ شریعت کے مزاج ہی سے مطابقت نہیں رکھتا۔

 قرآن مجید کا بیوی کو کھیتی سے تشبیہ دینا ایک لطیف اشارہ ہے، کاشت کار کو اپنی کھیت سے بڑی محبت ہوتی ہے، وہ اس کی حفاظت کرتا ہے، نقصان دہ چیزوں سے اسے بچاتا ہے، اور ہر طرح سے اس کی دیکھ ریکھ کا لحاظ کرتا ہے، پھر موسم پر اس سے پھل حاصل کرتا ہے، اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شوہر کا بیوی سے صرف یہ تعلق نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اپنی خواہش پوری کرے اور دور ہٹ جائے اور بیوی کے مسائل اور ضروریات سے بے تعلق ہو جائے، پھر جب بچہ پیدا ہو تو اولاد کی نسبت کا طلب گار ہو؛ بلکہ اس کو قدم قدم پر بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے، اس کی حفاظت اور نگہداشت کرنی چاہئے، اس کا علاج اور اس کی غذا کا معیاری انتظام کرنا چاہئے، اس کو پوری محبت اور توجہ دینی چاہئے، پھر اس کا پھل یعنی اولاد حاصل کرنی چاہئے، شوہر کا اپنی بیوی سے ایسا تعلق نہ ہو جو جانوروں میں نر اور مادہ کا ہوتا ہے کہ نرومادہ کا تعلق قائم ہوگیا،ا س کے بعد نر کو مادہ سے کوئی تعلق نہیں، نہ اس کی غذا سے نہ اس کے لئے رہائش کے انتظام سے، نہ اس کے علاج وضروریات سے؛ بلکہ اس کا تعلق ایسا ہونا چاہئے جیسا ایک کاشتکار کا اپنے کھیت سے ہوتا ہے، اور اس میں اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ عورت صرف لذت حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہے؛ بلکہ وہ شریک حیات ہے، جس سے جسمانی تعلق بھی بہتر اور جائز مقصد کے لئے ہونا چاہئے، جس میں دائمی محبت اور ایک دوسرے کا لحاظ ہو، افسوس کہ قرآن مجید کے اتنے اہم حکم کو اس کی روح کے برخلاف منفی انداز میں پیش کیا جارہا ہے، مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پروپیگنڈہ کی حقیقت کو خود سمجھیں اور برادران وطن تک بھی سچائی کو پہنچائیں؛ تاکہ جھوٹ کا پردہ چاک ہو؛ کیوں کہ جب صبح کی روشنی طلوع ہوتی ہے تو رات کی تاریکی چھٹ جاتی ہے۔

۰ ۰ ۰

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com