عید قرباں پر احتیاط کی ضرورت

محمد علم اللہ، نئی دہلی

وطن عزیز ہندوستان کے حالات دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں، فرقہ پرست عناصر مذہبی منافرت پھیلانے کی تگ و دو میں ہیں، خصوصاً مانس اور گوشت سے ایک مخصوص طبقہ کو بُعد ہے، اور وہ اپنی بالا دستی اور امتیازیت ثابت کرنے کے لیے اس بہانے فرقہ واریت، اور منافرت کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔نان ویج کی سیاست پتہ نہیں کتنے معصوموں کی جان لے چکی ہے اور کتنوں کی مزید بھینٹ لے گی۔ کھانے کا بھگوا کرن کرنے کے لئے بر سرِ اقتدار جماعت نے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔نوراتری کے موقع پر گوشت و گئو کشی کی سیاست نیا رخ لے لیتی ہے۔ نہ جانے کتنے ہوٹل، ڈھابے اور غریبوں کی دکانیں اس غلیظ سیاست کی نذر ہو جاتی ہیں۔

عید الاضحیٰ کے ایام سر پر ہیں، جن میں مسلمان ایک اہم مذہبی فریضے کی ادائیگی سے سبک دوش ہوتے ہیں۔اس کی آمد ہمیں بتاتی ہے کہ زندگی میں قربانی ہی اصل ہے اور اپنی پسندیدہ چیزوں کو خدا کی راہ میں قربان کرنا ہی فلاح دارین کا موجب بنتا ہے۔ حالات مخالف سمت میں رواں ہیں۔ پوری دنیا نے جیسے ملت اسلامیہ کو مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے، لیکن یہ وہ پودا ہے کہ اس پر ضرب کاری سے مزید ثمر آور ہوتا ہے، یہی اس کی حقانیت کی دلیل ہے۔ عید الاضحیٰ میں مسلمانان ہند کے لیے در اصل ایک ہی وقت میں دو طرح کے امتحان درپیش ہیں: ایک وہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہوا تھا اور دوسرا وہ جو اُن کے فرزند ارجمند کا ہوا تھا۔

سورۃ الصافات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے بیٹے کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ ’جب وہ لڑکا ان کے ساتھ دوڑ بھاگ کر ہاتھ بٹانے کے قابل ہو گیا؛ تو حضرت ابراہیم کو اسے اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم ملا، یعنی وہی شئ قربان کرنے کی تاکید جو اُن کے لیے سب سے زیادہ کارآمد تھی اور انھیں سب سے زیادہ عزیز بھی تھی۔ پھر جب وہ باپ بیٹے اس امتحان میں پاس ہو گئے تو اللہ نے اپنی رحمت کاملہ سے بیٹے کی جگہ دنبے کو لٹا دیا۔ یہاں ہمیں جو اصل سبق مل رہا ہے وہ یہ ہے کہ اپنی سب سے زیادہ پسندیدہ اور سب سے زیادہ کام آنے والی چیز کو اللہ کی خوشنودی کی خاطر ضرورت مندوں کے لیے پیش کر دینا۔ زمانۂ ابراہیمی میں مویشیوں کی تعداد ہی انسانوں کی دولت، اُن کی انفرادی و خاندانی خوشحالی اور اقبال مندی کا پیمانہ ہوتی تھی۔ قرآن کریم میں سورۃ الحج میں بھی بتایا گیا ہے کہ قربانی کے جانور کا گوشت یا اس کا خون، اللہ تک نہیں پہنچتا ہے بلکہ اس کے پیچھے جو تقویٰ کی نیت ہے وہی اس تک پہنچتی ہے۔ اللہ کو نہ ان کا گوشت اور نہ ان کا خون پہنچتا ہے البتہ تمہاری پرہیزگاری اس کے ہاں پہنچتی ہے، اسی طرح انہیں تمہارے تابع کر دیا تاکہ تم اللہ کی بزرگی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی، اور نیکوں کو خوشخبری سنا دو۔

اضحیہ کا عمل ہمیں بتاتا ہے کہ جس طرح ہمیں قربانی میں جان کا نذرانہ پیش کرنا ہوتا ہے، خدا کے نام پر اس کی جان بھی اپنے ہی ہاتھ سے لینی ہے۔ اس میں جو پیغام پوشیدہ ہے، اس سے ہر مرد مؤمن کو باخبر رہنا چاہیے۔ ہمیں ابھی سے غور و خوض کر کے لائحہ عمل طے کرنا چاہئے کہ ہم ان دونوں امتحانات میں سرخ روئی حاصل کریں۔ اہل وطن نے بات شروع کی تھی گائے کے ذبیحہ کی ممانعت سے۔ لیکن بعد میں بھید کھلا کہ وہ تو بڑے منصوبے کا استواری عمل تھا۔ اس بہانے انھوں نے پورے ملک میں چوکسی کی غرض سے ایسے فعال دستوں کی تشکیل دی ہے جو اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ کہیں گئو کشی تو نہیں ہورہی ہے۔ در حقیقت وہ یہ دیکھ بھال کرتے ہیں کہ کیا اب بھی مسلمان خدا کے نام پر اپنا سب کچھ قربان کرنےکے لیے تیار ہے؟ کیا ان میں اب بھی وہی جذبہء براہیمی کار فرما ہے؟ کیا اب بھی اسماعیلی حوصلہ ان میں پنپ رہا ہے ؟ کیا خدا کی راہ میں خیر خواہ شیطان کو بھی پہچان جاتے ہیں؟کیا اب بھی وہ حکم رب العالمین کی تعمیل میں رکاوٹ ڈالنے والے تمام شیاطین کو مار کر ہلاک کردیتے ہیں ؟ کیا ان میں ایسے جیالے موجود ہیں جو آتش نمرود میں بے خطر کود پڑنے کو تیار ہیں؟ یہی وہ ناقابل فراموش اسباق ہیں اور انمٹ جذبات ہیں جن سے وہ گھبراتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کا ایثار اور ان کا کردار ہم میں اب بھی زندہ و تابندہ ہے۔

ان حالات میں ہمارے لئے دعوت عمل یہ ہے کہ سنبھل کر فراست ایمانی کے ساتھ کام کریں، اپنے نوجوانوں کی ٹیم بنائیں جو حالات پر نظر رکھیں، گاؤں و محلوں میں اوباش نوجوانوں کو دیکھیں تو چوکسی بڑھا لیں، اپنے لوگوں کو ذبیحہ میں احتیاط سے کام لینے کی تاکید کریں، کڑی نظر رکھیں کہ کہیں ملک دشمن عناصر کوئی فتنہ و فساد برپا کرنے کی تیاری تو نہیں کر رہے ہیں۔ اگر دور دور تک اس کا شبہ بھی ہو تو اس کو روکیں۔ وہ ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں اور نام نہاد امن دستہ اور خاکی وردی کی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے، ان کے لئے شراب و کباب کا انتظام ہوتا ہے۔ ان میں مخبر بھی ہوتے ہیں اور پھر اچھی کارکردگی کے بعد وہ مخصوص مراعات کے حق دار بھی ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کام پر تعینات یہ نوجوان سرکاری ملازم نہیں ہوتے، تعلیم سے نا آشنا بے روز گار جذباتی نوجوان ہوتے ہیں، یہ فرضی دیش بھکت اور حقیقی برین واش، اور نفسیاتی مریض ہوتے ہیں، رات دن ایسے عناصر کے فروغ میں محنت کی جاتی ہے، ہمارے وطن عزیز ہندستان کا طرز عمل اس سلسلے میں ہمیشہ مشکوک رہا، اور اس کی منافقانہ پالیسی پڑوسی ملک چائنا سے خوب میل کھاتی ہے، جہاں ہر آن مسلمانوں کے لیے لرزہ براندام اور ہر لمحہ تشویش ناک ہے۔ اب حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ اگر کسی مسلم شہری کے گھر کے فریج میں رکھے ہوئے گوشت کے بیف ہونے کا شبہ بھی ہو تو شر پسند عناصر کو بات کا بتنگڑ بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ حال ہی میں عید الفطر سے قبل خبر آئی کہ ہریانہ میں پولیس والوں کو گھر میں ہانڈی کا معائنہ کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔

بہر حال اس خلافِ معمول دستور شکنی کے پس منظر میں ایک مرتبہ پھر سے عید الاضحی آ رہی ہے یعنی مسلمانوں کا دوسرا سب سے بڑا تیوہار جب وہ اپنے جد امجد کی خدا پسند قربانی کی یادگار کو تازہ کرتے ہیں۔ قربانی کا یہ عمل تمام قوموں میں ہمیشہ سے رہا ہے، جیسے کہ رگ وید میں مجوزہ ’اشوا میدھا‘ یعنی گھوڑے کی قربانی کے مطابق مہا بھارت میں کورکشیتر کی جنگ جیتنے کے بعد یودھشٹھر نے یہ قربانی پیش کی تھی۔ تامل (تمل ناڈو) معاشرے میں آج بھی جانور کی قربانی کا رواج ہے۔ زمانہ سنگم کی مشہور ادبی کتاب’ تیر و مروگر پینٹی‘ میں ہندو خدا ’مرد گن یا ئبر انیا‘ کی عبادت کے لیے جانور کی قربانی کی اہمیت تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ راجستھان میں نوراتری کے دوران برہمن پجاری کے ذریعہ کل دیوتا کو ’بھینس‘ یا ’بکری‘ کی قربانی پیش کی جاتی ہے۔ کرناٹک میں’رینو کا دیوی‘ کو بھی یہی قربانی پیش کی جاتی ہے۔ مہاراشٹرا کے’ کٹھریا کو تا دی‘ ہندو فرقہ میں بچہ پیدا ہونے کے بعد ’دیوی سپتشر نگی‘ کو بکرے کی قربانی پیش کی جاتی ہے اس کے بعد ہی بارہویں دن نوزائدہ بچے کا نام کرن ہو تا ہے۔

اسی طرح آسام، مغربی بنگال اور نیپال کے بھی ہندو مندروں میں ’بکرے‘، ’مرغے‘ یا ’بھینس‘ کی قربانی ہوتی ہے۔ بنگال میں قربانی سے قبل جانور کے کان میں پجاری گائتری منتر بھی پڑھتے ہیں۔ نیپال کے’ گدھی مئی تیوہار‘ کے دوران بڑی بھیڑ جمع ہوتی ہے اور کئی لاکھ جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ اڑیسہ کے بودھ ضلع میں ’کندھین بُدھی‘ کی پوجا ہوتی ہے اور ’بکرے‘ کی قربانی کی جاتی ہے اور سمبل پور کے سملیشور مندر میں’ کملیشوری دیوی‘ کے لیے’ بکرے‘ کی قربانی ہوتی ہے۔ کیرالہ کے مالا بار علاقہ میں ’تقسیم دیوتا‘ کو ’مرغے‘ کی قربانی پیش کی جاتی ہے۔ حالانکہ ہمارا آئین بھی ہمیں اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ملک کا ہر شہری چاہے وہ کسی بھی مذہب کا فرد کا ہو اپنی ثقافت اور روایت کو مذہبی طریقہ سے آزادنہ طور پر منائے، اس کے باوجود منفی سازشی پروگرام کے تحت ملک میں ایسی ہوا چلائی جا رہی ہے کہ گو یا صرف مسلمان ہی جانور کو ذبح کرتے ہیں اور وہ اس طرح ظالم ہیں اور انھیں اس کام سے روکنا چا ہیے۔ اس حد تک کہ کسی جانور کے ذبیحہ کے شبہ پر بھی آوارہ نوجوانوں کا دستہ آتا ہے اور ایک مسلمان کو پکڑ کے سر عام موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ گذشتہ کچھ برسوں میں اس قسم کے حادثات کی تعداد سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔

ایسے میں ہمیں نہ صرف یہ کہ مکمل دلائل کے ساتھ سوشل میڈیا اور دوسرے پلیٹ فارم کا خوش اسلوبی سے استعمال کرتے ہوئے اس کا جواب دینا ہے۔ بلکہ خود بھی احتیاط سے کام لینا ہے اور مسلمانوں کو بتانا ہے کہ جذباتیت کے بجائے سمجھ بوجھ کے ساتھ کام کیا جائے۔ قوم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آئینی اقدار کو ملحوظ رکھے اور تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ عید الاضحیٰ کا جشن امت مسلمہ کے لیے پرامن اور خوشی کا موقع ثابت ہو۔ جیسا کہ قرآن ہمیں سکھاتاہے، قربانی کا اصل جوہر تقویٰ اور صدقہ کی نیت میں مضمر ہے جس کا مطلب دوسروں کو خوشی دینا ہے۔ حقیقی معنی میں یہ ایک ایسا سبق ہے جو ہمارے متنوع معاشرے میں ہم آہنگی اور ہمدردی کو فروغ دینے کے لیے موزوں ہوگا۔ اس ماحول میں جب کہ مسلمان بہت کڑے وقت سے گزر رہے ہیں ہمارا مخلصانہ مشورہ یہی ہوگا کہ مسلمان نامساعد حالات کے باوجود قربانی ضرور کریں۔ تاہم صفائی ستھرائی کا بھی خاص خیال رکھیں اور اپنے کسی بھی قول یا فعل سے حکومت، انتظامیہ یا شر پسند عناصر کو شکایت کا موقع نہ دیں، آج کل ایک بڑا مرض اضحیہ کے عمل کی تصویر کشی اور ویڈیو بنانا ہے، اسکرول میڈیا پر شیئر کرنا اور بیرون میں اپنے احباب کو ویڈیو کال پر دکھانا ہے، خدا را ایسا نہ کریں، ایسا کرکے اپنے ہی ہاتھوں اپنے پیر پر کلہاڑی نہ ماریں۔ کیوں کہ یہ عمل نہ صرف ناپسندیدہ ہے بلکہ مصیبتوں کو اپنی جانب بلانے کے مترادف بھی ہے۔

***

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com