سیف الرحمٰن
چیف ایڈیٹر اِنصاف ٹائمس
لوک سبھا انتخاب 2024 یا حقیقی اعتبار سے عوامی، جمہوری، وفاقی، سماجوادی آئین و سرمایہ دارانہ ہندوتوا ریپبلک کے بیچ ریفرنڈم کا جشن ختم ہوا اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے، انتخاب کے آخری مرحلہ کے مکمل ہونے کے بعد سے ہی سب کی نظر ٹیلیویژن اسکرین پر تھی، تبھی ٹیلیویژن پر آنے والے ایگزٹ پولس نے سب کو چونکانا شروع کر دیا کیونکہ لوگوں نے جو ماحول تمام انتخابی مراحل میں دیکھا تھا اُسے صاف جھٹلاتے ہوئے یہ ایگزٹ پولس نظر آرہے تھے، مگر پھر چند گھنٹوں بعد ہی جب ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو وہ اسی ماحول کے مطابق تھا جو کہ سبھی 07 مراحل میں نظر آیا تھا، اور بالآخر جب رات تک نتیجہ صاف ہوا تو وہ ہم جیسے آزاد صحافیوں کے تجزیہ کے قریب قریب تھا! پہلے و دوسرے مرحلے کے بعد لکھے اپنے مضمون میں میں نے لکھا تھا کہ انتخاب اخیر تک ایسا ہی رہا تو بھارتیہ جنتا پارٹی 60 سے زیادہ سیٹیں یقینی کھو رہی ہے، لہٰذا ہم نے دیکھا کہ نتیجہ میں بھی 63 سیٹوں کا نقصان بھاجپا کو ہوا، آخری مرحلہ کے بعد ایگزٹ پولس کے ہنگامے کے بیچ لکھے اپنے مضمون میں میں نے کہا تھا کہ بھاجپا 220 سے 240 سیٹوں و کانگریس 100 سے 120 سیٹوں کے دمیان ہوگی اور نتیجہ میں بھاجپا کو 240 سیٹیں جبکہ کانگریس کو 99+01 (پپو یادو) یعنی 100 سیٹیں حاصل ہوئی ، ساتھ ہی میں نے کہا تھا کہ دونوں اتحاد اکثریت کے قریب ہوں گے، لہٰذا ہم نے دیکھا کہ انڈیا اتحاد سمیت اپوزیشن 240 سے زیادہ حلقوں کے ساتھ اکثریت سے تھوڑا نیچے اور این. ڈی. اے اتحاد 291 حلقوں پر قبضہ کر اکثریت سے تھوڑا آگے ہے! میرے تجزیہ میں چند فیصد کی کمی یہ رہی کہ میں مان رہا تھا کہ آندھرا پردیش میں جگن موہن ریڈی و اڑیسہ میں نوین پٹنایک ملاکر کم سے کم 20 سیٹیں لائیں گے اور دِیگر مل کر یہ لوگ کنگ میکر ہو سکتے ہیں مگر دونوں جگہ یہ دونوں پارٹیاں پوری طرح ناکام رہی، ساتھ ہی میں نے مدھیہ پردیش و دہلی سے ملاکر کم سے کم 5 سیٹیں کانگریس کو ملنے کا اندازہ لگایا تھا مگر دونوں صوبوں نے انڈیا اتحاد کو مایوس کیا ہے،جس کی وجہ کر انڈیا تو اکثریت سے نیچے رہا مگر این. ڈی. اے اتحاد اکثریت سے اوپر جانے میں کامیاب ہوگیا! جہاں تک بات حکومت سازی کی ہے تو یقینی ہے کہ چونکہ انڈیا اتحاد بھی حکومت بنانے کیلئے کسی طرح کے توڑ جوڑ میں جانے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے نظر آرہا ہے جو کہ سیاسی نقطہ نظر سے بہتر و مفید پالیسی ہے، لہٰذا اب تیسری مرتبہ نریندر مودی صاحب کا وزیر اعظم بننا طے ہے اور وہ حلف لینے جارہے ہیں!اب اگر ہم ایک شہری کے طور پر اس رزلٹ کو دیکھیں تو یقیناً ملک نے جمہوری، وفاقی، عوامی، سماجوادی آئین کے حق میں اپنا اعتماد جتاتے ہوئے برہمن وادی، سرمایہ دارانہ، ہندوتوا ریپبلک کو خارج کر دیا ہے، ملک میں گذشتہ 10 سالوں سے جس طرح سے ایک تاناشاہی رویہ کا سامنا ملک کی عوام کو و سیاسی، سماجی افراد و تنظیموں کو کرنا پڑ رہا تھا اُس سے بہت حد تک راحت ملنے کی اُمّید ہے کیونکہ یہ حکومت ایسے سیاسی افراد کے کاندھے پر ٹکی ہے جو کہ سماجوادی و امبیڈکر وادی تحریک سے نکلے ہوئے جمہوری اقدار پر اعتماد رکھنے والے ہیں جس میں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار خصوصی طور پر قابل ذکر ہے، ساتھ ہی تیلگو دیشم پارٹی کے صدر چندرابابو نائڈو، جنتا دل سیکولر کے بانی سابق وزیر اعظم ایچ.ڈی دیوگوڑا، راشٹریہ لوک دل کے صدر و چودھری چرن کے پوتے جینت چودھری، جیتن رام مانجھی اور رام ولاس پاسوان کے بیٹے چراغ پاسوان شامل ہیں ؛ اس مرتبہ جہاں اپنی اکثریت کے ساتھ حکومت کرنے والے نریندر مودی کی حکومت اتحادیوں وه بھی نتیش کمار و نائیڈو جیسے مضبوط لیڈران کے کاندھے پر ٹکی ہے تو وہیں دوسری طرف اپوزیشن بھی بہت مضبوط ہے جو کہ اکثریت سے بالکل قریب ہے اور یقیناً یہ بھی ایک جمہوری ملک کیلئے خوش آئند ہے کہ اس میں زیرِ اقتدار حلقہ کمزور و حزب اختلاف مضبوط ہے!ہم اب اُمّید کر سکتے ہیں کہ ملک میں حکومتی سطح پر ہو رہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اچھی کمی آئے گی، آنے والے دنوں میں عدلیہ و انتظامیہ و این.آئی.اے ای.ڈی جیسی ایجنسیاں اور دِیگر اداروں کے کام میں جانب داری اور دباؤ کا اثر دکھنا بند یا کم ہو جائےگا، تعلیمی اداروں میں دانشورانہ کھلی گفتگو کے ماحول کو دوبارہ زندہ ہوتے دیکھ پایا جائے گا اور تعلیمی معیار میں بہتری کی جائیگی خاص کر نئی تعلیمی پالیسی کے منفی نکات کو ختم کر ضروری اصلاحات کیے جائیں گے،احتجاج و اختلاف رائے کی مکمل آزادی سیاسی و سماجی لوگوں و تمام شہریوں کو میسر ہوگی اور صحافیوں و صحافت پر ہورہے کریک ڈاؤن پر روک لگے گی بلکہ ایسا قانون وضع ہوگا جو کہ صحافت کی آزادی و حفاظت کو یقینی بنا سکے، سماجوادی نظریہ کے لیڈران کی مضبوط موجودگی سے یہ اُمّید کی جاسکتی ہے کہ ملک پر کارپوریٹ کی مضبوط ہوئی پکڑ کمزور ہوگی اور مہنگائی و بے روزگاری کے خاتمے کی پالیسیاں بنائی جائے گی !نتیش،نائیڈو، مانجھی اور جینت کی موجودگی سے دلتوں،مسلمانوں، آدی واسیوں، عیسائیوں، سکھوں اور پچھڑوں کے جان و مال، وقار، شناخت اور آئینی حقوق کو تحفظ حاصل ہوگا و کسانوں اور مزدوروں کے مسائل کے حل کے راستے ہموار ہوں گے ، اس الیکشن کے نتیجہ میں ان امیدوں کے ساتھ یہ مثبت پہلو بھی ہے کہ نفرت و دشمنی اور بدلے کی سیاست کو ملک نے خارج کر دیا ہے یہاں تک کہ ایودھیا والے فیض آباد لوک سبھا سے بھی اُس بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہار کا سامنا کرنا پڑا جو کہ رام مندر کے سہارے انتخاب کو جیت لینا چاہتی تھی، ساتھ ہی ایسے بہت سے لیڈران انتخاب ہار گئے ہیں جو کہ نفرت پر مبنی بھاشن دیا کرتے تھے اور ایسے بہت سے لوک سبھا میں بھاجپا کو ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے جہاں پر وزیر اعظم سمیت دوسرے لیڈران نے مسلم مخالف بھاشن دئیے تھے، لہٰذا اُمّید ہے کہ اب یہاں سے ملکی سیاست کے مثبت عروج کا دور شروع ہو چکا ہے جس میں کسی طبقہ کے خلاف نفرت کے بجائے عوام کے بنیادی مسائل، سماجی مساوات، عدل و انصاف اور شہریوں کے تحفظ کے مسائل سیاسی مقابلوں و سیاسی مباحث میں بنیادی طور پر نظر آئیں گے! اس الیکشن کا ایک مثبت پہلو یہ بھی رہا ہے کہ جہاں پر ایسے افراد مضبوط اُمیدوار کے طور پر سامنے تھے جو کہ تحریکی مزاج رکھتے ہوں، عوامی مسائل پر متحرک رہتے ہوں اور اِنصاف کی لڑائی لڑنے کا مزاج رکھتے ہوں تو وہاں پر عوام نے دونوں اتحاد کو نکار دیا جیسے کی اُتر پردیش کے نگینہ میں آزاد سماج پارٹی کے صدر چندرشیکھر آزاد اور بہار کے پورنیہ سے آزاد اُمیدوار کے طور پر لڑنے والے کانگریسی لیڈر پپو یادو و حیدرآباد سے ایک مرتبہ پھر سے مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی کی جیت! اُتر پردیش سمیت ملک بھر میں بسپا کے آخری سانس کے مرحلے تک پہنچ جانے کی وجہ سے ایک مضبوط نظریاتی دلت متبادل کی تلاش تھی اسے پورا کرنے کیلئے چندرشیکھر آزاد سامنے آئے ہیں جو کہ اب اُتر پردیش میں سماجوادی پارٹی کے سامنے بسپا کی جگہ آزاد سماج پارٹی کی قیادت دیں گے اور ملک بھر کی دلت سیاست کو ایک نیا رخ دیتے نظر آئیں گے تو وہیں دوسری طرف پپو یادو کی جیت بہار میں کانگریس کے نئے روشن دور کی شروعات کرے گا کیونکہ بہار کے ایک بڑے طبقے جس میں مسلمانوں کا بڑا حصہ شامل ہے کو مضبوط متبادل کی تلاش ہے اور اس ضرورت کو کانگریس پورا کر سکتی ہے، لہٰذا سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ بہار میں کانگریس کے نئے صوبائی صدر پپو یادو بن سکتے ہیں اور اُن کے صدر بننے سے گاؤں گاؤں تک کانگریس کی تنظیم و ان کا کیڈر کھڑا ہو جائے گا جس کے بعد ممکن یہ بھی ہے کہ آنے والے دنوں میں جہاں مرکز میں راشٹریہ جنتا دل و کانگریس انڈیا اتحاد کا مضبوط حصہ ہونگے تو وہیں بہار میں دونوں پارٹی الگ الگ راستے پر اپنے اپنے اتحاد کے ساتھ نظر آ سکتے ہیں، جو کہ بہار کی سیاست کو دلچسپ بنا دے گا اور اس سے سب سے زیادہ نقصان بھارتیہ جنتا پارٹی و بہار کی سیاست میں زمین تلاش رہے پرشانت کشور کو ہوگا، اسی طریقے سے راجستھان کے بنسوارا دنگارپور لوک سبھا حلقہ سے بھارتیہ آدیواسی پارٹی کے راجکمار راوت نے جیت حاصل کر راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، مہاراشٹرا، گجرات سمیت پورے ملک میں نظریاتی آدی واسی سیاست کی ایک مضبوط بنیاد ڈال دیا ہے جو کہ ملک میں سنگھ کی سیاست کیلئے لمحہ فکریہ اور جمہوری سیاست و سماجی مساوات کی لڑائی کیلئے ایک مثبت اُمّید پیدا کرنے والا ہے اور پنجاب میں امرت پال (جو کہ ابھی آسام کے ڈبرو گڑھ جیل میں بند ہے) جیسے متنازع مگر متحرک نوجوان لیڈر کی کھدور لوک سبھا سے آزاد اُمیدوار کے طور پر جیت پنجاب کی صوبائی سیاست میں بڑے انقلاب کی آمد کا اشارہ ہے جس میں پُرانی قیادت کی جگہ نئی قیادت کا ابھار سامنے آئےگا! مسلم قوم کے نظریہ سے یہ مثبت پہلو رہا کہ پپو یادو و چندرشیکھر آزاد جیسے لوگ جو کہ مسلمانوں کےلئے آواز اٹھاتے رہے ہیں اُن کو اس قوم نے جتا کر قرض اُتار دیا ساتھ ہی پارلیمنٹ میں بھی ایسے افراد کو پہونچا سکی جو کہ مسلمانوں کا نام لینے میں تیجسوی و اکھلیش اور راہل کی طرح شرمائیں گے نہیں، دوسری اچھی بات رہی کہ اقراء حسن جیسی نوجوان، تعلیم یافتہ، حجابی خاتون کی جیت اور آنے والے دنوں میں پارلیمنٹ میں ان کے بات رکھتے نظر آنے کی وجہ سے مسلم خواتین کے بارے میں لوگوں کی سوچ تبدیل ہوگی ساتھ ہی خود مسلم خواتین میں بھی ایک بیداری و خود اعتمادی پیدا ہوگی جس سے کہ وہ مستقبل میں مین اسٹریم میں آکر ملک و ملت کیلئے اپنی شراکت اور بہتر طریقے سے درج کراتی نظر آئیں گی، لیکِن افسوسناک لمحہ رہا کہ مختلف سیاسی وجوہات کے بنیاد پر جس قوم مسلم کے کم سے کم 70 ممبران پارلیمنٹ ہونے چاہئے اُن کے ممبران پارلیمنٹ کی تعداد 26 سے گھٹ کر 24 پر آ گئی، ساتھ ہی مسلم لیڈرشپ والی پارٹیوں کے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد بھی کم ہوگئی جب کہ آج کے وقت میں یہ کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ اگر آپ کی آزاد لیڈرشپ کی نمائندگی کچھ حدتک سیاست میں نہیں رہتی ہے تو آپ کے مسائل پر وہ تمام پارٹیاں و سیاسی لیڈران بھی آنکھ بند کیے رہتے ہیں جو کہ آپ کے ووٹ بینک پر ٹکے ہیں، لیکِن اگر آپ کے کچھ افراد آپ کی آزاد پارٹی سے ہو تو آپ کا بیانیہ سامنے آتا ہے جس سے کہ دِیگر تمام بھی اُس بیانیہ کے ساتھ آنے پر مجبور ہوتے ہیں، ساتھ ہی جمہوری ملک میں ضروری مانا جاتا ہے کہ الگ الگ کمیونیٹیز کے پاس ضرورت کے مطابق سودے بازی کی طاقت بھی ہونا ضروری ہے تب ہی آپ کی حصہ داری، آپ کا وقار محفوظ ہوتا ہے اور آپ کی ترقی کے راستے ہموار ہوتے ہیں، لہٰذا ضرورت ہے کہ صوبائی اسمبلیوں و پارلیمنٹ میں آپ کی آزاد لیڈرشپ والی پارٹیوں سے ایک تعداد کو منتخب ہوکر جانا چاہئے، لیکن افسوس کی اس مرتبہ ایسے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد صرف 4 (جموں کشمیر کی پارٹیوں و اُن کے ارکان کو چھوڑ کر) تک محدود رہ گئی ہے، مسلمانوں کی آزاد سیاسی جماعتوں کی ناکامیوں سے متعلق ایک تفصیلی تجزیاتی مضمون احقر کا جلد سامنے آئے گا۔
saifurbihari143@gmail.com