ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، حیدرآباد
کچھ دن پہلے مجھے ایک معاملت کے سلسلہ میں ایک نوٹس ملی کہ اگر فلاں تاریخ تک معاملہ کی یکسوئی نہ ہوئی تو عدالتی کاروائی کی جائے گی۔ نوٹس پڑھ کر اطمینان بھی ہوا اور افسوس بھی۔ اطمینان اس لئے کہ جس معاملہ کی یکسوئی بڑی آسانی‘ خوش اسلوبی کے ساتھ دو تین برس میں ممکن تھی‘ عدالتی کاروائی کی صورت میں بیس پچیس برس تک ممکن نہیں۔ ایک لمحہ کے لئے نوٹس جاری کرنے والے کے لئے دل سے دعا نکلی کہ نادانستہ طور پر اس نیک بخت نے ہمیں اتنی مہلت دلادی کہ ہماری دو اگلی نسلیں اس سے نمٹ لیں گی۔ کیوں کہ جتنے عرصہ میں عدالتی فیصلہ کسی ایک کے حق میں آئے گا اس وقت تک نہ تو ہم رہیں گے اور نہ ہی نوٹس جاری کرنے والے۔
جہاں اس نوٹس سے اطمینان ہوا وہیں اس بات کا افسوس بھی ہوا کہ یہ نوٹس ایک مذہبی ادارہ کی جانب سے جاری کی گئی۔ ویسے مجھ جیسے کئی ا ور افراد کو ایک ہی قسم کی نوٹس جاری ہوئی ہے۔ نوٹس کا متن پڑھنے کے بعد کافی دیر تک میں سوچتا رہا کہ یااللہ! یہ کیا ہوگیا جو مذہبی ادارے ہمیشہ مسلمانوں کو مشورہ دیتے رہے کہ آپسی اختلافات، نزاعی معاملات کی آپس میں یا شرعی عدالتوں میں یکسوئی کی جائے‘ عدالتوں سے رجوع نہ ہوں… وہی ادارے اگر عدالت سے رجوع ہونے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یا تو انہیں اپنے آپ پر اعتماد نہ رہا یا پھر شرعی پنچایتوں / عدالتوں پر سے ان کا ایقان اٹھنے لگا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان جس کے سینے میں رتی برابر بھی ایمان باقی ہے وہ عدالتوں کے مقابلہ میں شرعی پنچایتوں پر اعتبار کرتا ہے‘ کیوں کہ علمائے کرام اور اکابرین کا احترام ابھی باقی ہے۔ جو بے ایمان ہیں‘ وہ تو قرآن سر پر اٹھاکر قسم کھالیتے ہیں‘ کعبۃ اللہ کا غلاف پکڑ کر بھی جھوٹ کہتے ہیں۔ ایسے بے ایمان تو عدالتوں میں بھی حلفیہ بیان دے کر‘ جعلی دستاویزات پیش کرکے جیت جاتے ہیں۔ ہاں آخرت ضرور خراب کرلیتے ہیں۔
جس مذہبی ادارہ کا ذکر ہے وہ تمام مسلمانوں کے لئے قابل احترام ہے۔ اپنے حتمی فیصلوں کے لئے اکثریت اسی ادارہ سے رجوع ہوتی ہے۔ اس ادارہ کا ہر استاد اور شاگرد لائق احترام ہے۔ دوسرے مسلم اداروں کی طرح اس جیسے مذہبی ادارہ کی یہ مجبوری یا کمزوری اس کا کمزور اڈمنسٹریشن ہے۔ انتظامی کمزوریوں سے واقف کروانے والوں کو غلط بلکہ دشمن سمجھا جاتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے اکابرین جلسوں میں بڑے فخر سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ”کرتے“ کا ذکر کرتے ہیں جو مالِ غنیمت میں ملنے والی چادروں سے تیار کیا گیا تھا۔ اور ایک عام مسلمان بھری محفل میں امیرالمومنین رضی اللہ عالیٰ عنہ سے اس بارے میں سوال کرتا ہے تو اپنے وقت کے جید خلیفہ اس کا جواب دینے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ ہم اپنے مذہبی اداروں کے کمزور انتظامیہ کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں تو ایک سے زائد مرتبہ یہ سوچنا پڑتا ہے کہ اللہ کی ذات سے ڈر کر حق بات کہیں… یا فتوے، اور کسی الزام کے اندیشے کے تحت خاموشی اختیار کریں۔ اگر خاموشی اختیار کرنا چاہیں تو ”اصحاب سبت“ کا واقعہ یاد آجاتا ہے کہ خاموش رہنے والوں کو بندر بنادیا گیا تھا۔
بہرحال! ہمارے ادارے ہیں‘ یہ ملت کا اثاثہ ہی نہیں اس کی امانت بھی ہیں۔ اس میں خیانت کا کسی کو حق نہیں۔ خیانت سے مراد مالی خردبرد نہیں‘ مذہبی اداروں کی موقوفہ جائیدادوں کا تحفظ، ان کی ٹھیک سے دیکھ بھال، ان سے حاصل ہونے والی آمدنی میں اضافہ، اس کا صحیح استعمال نہ ہورہا ہو تو یہ خیانت ہے۔ آج پورے ملک کا چھوڑیئے، صرف ہماری ریاست کے مذہبی اداروں، درسگاہوں، آستانوں، خانقاہوں کا جائزہ لیجئے۔ آپس میں کتنے اختلافات ہیں‘ ایک دوسرے کے خلاف بلکہ خونی رشتے بھی ایک دوسرے کے خلاف عدالتوں میں نبرد آزما ہیں۔ چند برس پہلے ہم نے حیدرآباد کی دو مشہور مذہبی ہستیوں کو جو آپس میں بھائی بھائی تھے‘ ایک دوسرے کے خلاف عدالت میں لڑتے دیکھا، پھر یہی ہستیاں مسجد کے منبر سے اور مذہبی جلسوں سے ملی اتحاد کی تلقین کیا کرتے تھے۔ آستانوں، خانقاہوں، موقوفی جائیدادوں کا نگران جو سرکاری ادارہ ہوا کرتا ہے وہ ہمیشہ سے بدعنوانیوں، بے ایمان، ضمیر فروشوں کا سب سے بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ہر سال اوقافی جائیدادوں کا سروے ہوتا ہے۔ اور ہر سال ان جائیدادوں کے رقبہ میں کمی، اور ناجائز قبضوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس لئے کہ ہم معاملہ داری میں نیک نیت نہیں ہیں۔ حکومت چاہے وہ سیکولر ہو، فرقہ پرست ہو، سینکڑوں ایکر پر قبضہ کرلیتی ہے‘ چند ایکر واپس کرتی ہے اور ہم اس حکومت کے حق میں نعرہئ تحسین لگانے لگتے ہیں‘ کیوں کہ ہمارے اپنے مفادات اس سے وابستہ ہیں۔
خیر! اصولاً اس کالم میں اس موضوع پر مجھے نہیں لکھنا چاہئے تھا‘ دل پر پتھر رکھ کر قلم اٹھایا‘ ادارہ کے ارباب مجاز سے کئی بار تحریری طور پر گزارش کی کہ وقت دیں تاکہ کئی حل طلب مسائل پر بات چیت کی جاسکے اور اس کا حل تلاش کیا جاسکے۔ افسوس کہ ہمیں وقت نہیں دیا گیا۔ اس بارے میں ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی ادارہ کو کسی وجہ سے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کے لئے اس کے ارباب مجاز جواب دہ ہوتے ہیں۔ اثرات اور رسوخ کی وجہ سے وہ یہاں جواب نہ دیں تو کیا ہوا‘ اللہ رب العزت کی عدالت میں کیسے بچ سکیں گے۔
جہاں تک مذہبی اداروں کی جانب سے مختلف افراد کو قانونی کاروائی کی نوٹس کی اجرائی سے غیروں میں غلط تاثر پیدا ہوتا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ اکثر ادارے یا افراد اپنی خامیوں‘ کمزوریوں‘ تساہلی کی پردہ پوشی کے لئے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ عام طور پر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی ایک فریق کو مہلت دلانا ہے یا غیر محسوس طریقے سے فائدہ پہنچانا ہوتا ہے تو اس کے خلاف مقدمہ دائر کردیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ سخت اقدام ہے مگر ایک فریق کے لئے سہولت اور طمانیت بخش بھی۔ مثال کے طور پر اگر مکان دار اور کرایہ دار کے درمیان تنازعہ ہے‘ یکسوئی نہ ہورہی ہے تب کون اپنے فائدہ کے لئے قانونی کاروائی کا مشورہ دیتا ہے اور عدالت میں تاریخ پر تاریخ…. چلتی رہتی ہے۔ برسوں بعد پھر آپس میں بیٹھ کر یا ڈرا دھمکاکر مسئلہ حل کرلیا جاتا ہے۔ ان دنوں آئے دن قتل کی وارداتیں اسی لئے ہورہی ہیں کہ تنازعات چاہے وہ زمینات پر قبضہ کی صورت‘ مکان دار کرایہ دار کے ہوں یا میاں بیوی کے اختلافات ان کی عدالتوں میں ان کی یکسوئی نہیں ہوتی۔ چنانچہ انتہائی اقدام کرتے ہوئے سامنے والا بھی ختم اور خود کا کیریر بھی ختم۔
ہمارے شہر میں کئی کئی منزلہ عمارتوں کے درمیان جھونپڑیاں ہیں۔ چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے ہیں۔ وہ خوبصورت فلک بوس عمارتوں کی دلکشی پر داغ لگتے ہیں‘ مگر عدالتوں میں ان کے مقدمات چل رہے ہیں۔ مذہبی ادارے اپنے معاملات کی یکسوئی کے لئے اکابرین کے علاوہ معاشرہ کے ذمہ دار، بااثر حضرات، سیاسی قائدین کی مدد حاصل کرسکتے ہیں۔ جو پیار محبت سے نہیں مانتا‘ اسے دھپے مارکر سمجھایا جاسکتا ہے۔ اکثر ادارے اس لئے ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ ایک تو اپنے معاملات میں سیاسی قائدین کو ملوث کرنا ایسا ہی ہے گویا ”آبیل مجھے مار“ اس کے علاوہ جب اکابرین کی موجودگی میں مسئلہ کی یکسوئی کی کوشش کی جاتی ہے تو اسی میں ہر دو کی کمزوریاں منظر عام پر آتی ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہوتا ہے کہ ادارے چاہے وہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی‘ تعلیمی ہوں یا ادبی کسی کے خلاف کسی قسم کی کاروائی میں پہل کرنے سے پہلے خود اپنا محاسبہ کرلیتے۔ اس بات کا جائزہ لیتے کہ آیا ان کی اپنی کارکردگی میں شفافیت ہے یا نہیں۔
چوں کہ ہم اپنے ہر ایک مسلک کے مذہبی اداروں کا احترام کرتے ہیں۔ اس لئے ہم نے اس حساس موضوع پر قلم اٹھایا۔ ایک دور تھا ہمیں عدلیہ پر یقین تھا۔ حالیہ عرصہ میں چھوٹی سے بڑی ہر ایک عدالت نے ہمارے خلاف فیصلے دیئے ہیں۔ اب بھی اگر ایک فرد اور ایک ادارہ کے درمیان مقدمہ بازی ہوتی ہے تو فرد کو کامیابی ملے گی چاہے وہ حق پر نہ ہو‘ کیوں کہ مذہبی اداروں، عبادت گاہوں کے خلاف فیصلے اب ہمارے کلچر کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہمیں ان اعداد و شمار پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہئے۔ اس وقت ہندوستان کی عدالتوں میں پانچ کروڑ دس لاکھ مقدمات زیر تصفیہ ہیں۔ جن کی یکسوئی کے لے 324 برس لگ جائیں گے۔ 80ہزار مقدمات سپریم کورٹ میں پینڈنگ ہیں۔ پڑدادا کا مقدمہ پڑپوتا لڑرہا ہے۔ اور اسے یقین ہے کہ اس کے پڑپوتے تک بھی فیصلہ نہیں سنایا جائے گا۔ برہم پور بنک کا مقدمہ تو 19/نومبر 1948ء سے 16/جنوری 2023ء تک یعنی پورے 72برس چلا۔ ہر سال پانچ کروڑ مقدمات دائر ہوتے ہیں اور دو کروڑ مقدمات کے فیصلے ہوتے ہیں۔ ہر سال تین کروڑ مقدمات پینڈنگ میں رہتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس وقت ہندوستان میں 21ہزار ججس ہیں‘ یعنی ایک لاکھ افراد پر ایک جج۔ حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ججس کی تعداد کم از کم پچاس ہزار کی جائے۔ آدھے سے زیادہ جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ آپسی رسہ کشی سے عدالتوں کی کارکردگی کی وجہ سے ہندوستانی عوام کا عدلیہ پر سے ایقان اٹھ گیا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری پر بھی اس کا اثر ہوا ہے۔
بہر کیف!شرعی عدالتوں میں کوئی مقدمہ پینڈنگ میں نہیں ہوتا۔ 2021ء میں امریکی تحقیقی ادارہ PEW RESEARCH نے ا پنے سروے رپورٹ میں بتایا تھا کہ 74% ہندوستانی مسلمان شرعی عدالتوں کو ترجیح دیتا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں 70شرعی عدالتیں ہیں۔ ہمارے پاس دینی درس گاہوں، مذہبی اداروں کی کمی نہیں۔ ہر ادارہ دارالافتاء کی طرح شرعی پنچایت قائم کرسکتا ہے۔ مسلمانوں کو اگر شرعی عدالتوں سے رجوع ہونے کی ترغیب دی جائے تو آپسی اتحاد کو فروغ حاصل ہوگا۔ عدالتوں میں تو سرکاری وکیل دونوں فریقین سے اپنا اپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں۔ ویسے کہتے ہیں کہ انسان کیلئے سب سے بڑی سزا عدالتی چکر ہیں۔ اللہ بچائے ان چکروں سے ہمیں بھی اور دوسروں کو بھی! آمین
انداز نہیں گرچہ شوخ مرا لیکن
شاید کہ تیرے دل میں اُتر جائے میری بات
فون: 9395381226