نقطہ نظر : ڈاکٹر منظور عالم
اسلام ایک جامع دین ہے جو انسانیت کے ہر پہلو کو محیط ہے۔ یہ نہ صرف فرد کی نجی زندگی کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے بلکہ اجتماعی زندگی کے لیے بھی جامع اصول اور ضوابط وضع کرتا ہے اور ہر شعبہ زندگی میں انسانیت کی فلاح وبہبود اور ترقی کے اصول طے کرتاہے۔ ترقی ، کامیابی اور سربلندی کیلئے اتحاد ضروری ہے ، مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی اہمیت اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے، اور یہ مسلمانوں کی کامیابی اور سربلندی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آپس میں متحد رہنے کا حکم دیا ہے۔ سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا:واعتصمو بحبل اللہ جمیعا و لاتفرقو ( “اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں فرقہ بندی نہ کرو۔”)
اس آیت میں واضح طور پر مسلمانوں کو آپس میں اختلافات سے بچنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مومن آپس میں ایک عمارت کی طرح ہیں جس کے مختلف حصے ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں۔ جب مسلمان متحد ہوتے ہیں تو ان کی اجتماعی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور ان کی بات دنیا میں وزن رکھتی ہے۔اتحاد و اتفاق کے نتیجے میں معاشرے میں امن و استحکام پیدا ہوتا ہے۔ فرقہ واریت اور انتشار کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔اسلام کا پیغام پوری دنیا تک پہنچانا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ جب مسلمان متحد ہوں گے تو وہ اس ذمہ داری کو بہتر طریقے سے ادا کر سکیں گے۔ اتحاد و اتفاق کے باعث مسلمان معاشی طور پر بھی مستحکم ہو سکتے ہیں۔ باہمی تعاون اور مشترکہ منصوبوں کے ذریعے وہ اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
مسلمانوں میں انتشار اور فرقہ واریت کے باعث نہ صرف ان کی اجتماعی قوت کمزور ہو جاتی ہے بلکہ اس کا فائدہ ان کے دشمن اٹھاتے ہیں۔ فرقہ واریت کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان لڑائی جھگڑے، نفرت اور بغض و حسد پیدا ہوتا ہے جو کہ امت مسلمہ کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔آج کے دور میں جہاں اسلام اور مسلمانوں کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، اتحاد کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ہمیں اپنے اختلافات کو بھلا کر مشترکہ مقاصد کے لیے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
قرآن و سنت کی تعلیمات اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں متحد رہنا چاہیے تاکہ وہ دنیا میں سر بلند ہو سکیں اور آخرت میں کامیاب ہو سکیں۔ فرقہ واریت اور اختلافات کو دور کر کے ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہیے تاکہ ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکیں۔
حضرت نعمان بن بشیررضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مومنوں کوآپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و محبت کا معاملہ کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اورنرم دلی میں ایک جسم جیسا پاﺅ گے، جب اس جسم کا کوئی حصہ بھی تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے اور اس کی ساری رات بیداری اور بخار میں گزرتی ہے“ (صحیح بخاری: 6011)۔حضرت ابو موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً مومن آپس میں مضبوط بنیاد کی طرح ہیں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کرمضبوط ہوتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا“(صحیح بخاری: 481)۔
مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے میں ایک بنیادکی طرح ہیں، یعنی مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑ کر رہنا چاہیے جس طرح ایک بنیاد اور دیوارکی اینٹیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔اسی طرح ایک مسلمان، دوسرے مسلمان سے مل کر ہی سیسہ پلائی دیوار بنتا ہے۔ نیکی اور خیر کے کاموں میں باہمی اتحاد اور باہمی اشتراک ایک اہم دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔ اگر ایک مومن دوسرے مومن کو اپنی قوت نہ سمجھے اور اسے ضائع ہونے کیلئے چھوڑ دے تو اس کامطلب یہ ہے کہ وہ خود اپنی کمزوری کا سامان کر رہا ہے۔
انسانی اعضاء کی ایک جسم کیلئے اہمیت و ا فادیت آشکار ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی اپنا کام صحیح طریقہ سے نہ کر پائے تو انسانی وجود بمعہ معاشرتی زندگی کس قدر مجبور اور بے بس ہو جاتا ہے۔ اگرچہ انسانی وجودکے ساتھ تعلق رکھنے والے ہر عضو کا اپنا الگ الگ کام ہے پھر بھی ان میں کامل ہم آہنگی اور اتحاد پایا جاتا ہے۔ اگر وجود کا یہ باہمی اتحاد نہ ہوتا تو انسانی زندگی کا تصور محال تھا، مثلاً دانت میں درد ہو تو درد کیلئے پاﺅں چل کر جاتے ہیں، آنکھیں آنسو بہاتی ہے، زبان اسے بیان کرتی ہے، دل و دماغ اسے محسوس کرتے ہیں، ہاتھ دوا پلانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ اگر ان اعضاء میں یہ مقابلہ آرائی شروع ہو جائے کہ کون قیمتی، کون اعلیٰ و افضل، اس کوتکلیف ہے مجھے نہیں، تو واضح بات ہے کہ پورے جسم میں خرابی اور بے چینی پیدا ہو جائے گا۔
ایمان ایک قلبی محبت کی طاقت کا نام ہے، اگر انسان کے دل میں ایمان ہے تو وہ لازماً دوسرے کی طرف روحانی لگاﺅ رکھتا ہے۔ نبی کریم کی واضح تعلیمات میں سے یہ ہے کہ بھائی بھائی بن کر رہو۔ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچاو، ایک دوسرے سے بغض و کینہ نہ رکھا کرو، آپس میں بے تعلق اور منہ پھیر کر نہ رہو، سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہو بھائی بھائی بن کر رہو اور مسلمان اپنے بھائی پرظلم نہیں کرتا، نہ اسے ذلیل و حقیرسمجھتا ہے، نہ اسے بے سہارا چھوڑتا ہے۔ دیکھو! تقویٰ کی جگہ یہ ہے، آپ نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کر کے تین بار یہ بات فرمائی۔ پھر فرمایا: ”آدمی کے برا ہونے کیلئے اتنی بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔
اتحاد واتفاق کو فروغ دینے اور معاشرہ نفرت ، اختلاف او ر انتشار کو ختم کرنے کیلئے ان چار نکات پر عمل کرنا اور اسے نافذ کرنا بھی ضروری ہے جن میں پہلے نمبر پر یہ بات شامل ہے کہ آپسی معاملات میں اگر کوئی شکایت ہے ، کسی سے کوئی تکلیف ہے تو ہم فورا ایکشن نہ لیں ، بلکہ سو چیں ، سمجھیں ، غور کریں معاملات کی تہ تک جائیں ، دوسرا طریقہ کار معافی اور عفو و درگزر کا ہے ، اگر کسی سے کوئی شکایت ہے ، کسی سے اختلاف ہوگیا ہے تو اس کو طول دینے کے بجائے معاف کردینا چاہیے ، عفو و در گزر کا راستہ اختیار کرنا چاہیے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ عفو و درگزر سے کام لیاہے اور یہی سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ تیسر ا نکتہ یہ ہے کہ مستقبل پر نگاہ رہنی چاہیے ، حال کے تنازع کو ختم کرکے فورا مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے ، رشتہ کو خوشگوار کرلینا چاہیے ، آپسی چپلقش کو ماضی میں چھوڑ کر بہتر مستقبل کی تعمیر کیلئے جدوجہد شروع کردینی چاہیے ۔ چوتھا نکتہ منصوبہ بندی کاہے ۔ ہمیں مستقبل کی تعمیر کیلئے ، قوم کی ترقی اور بھلائی کیلئے مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے ، غور و فکر کرنا چاہیے ۔ یہ چاروں نکات اتحاد واتفاق کے فروغ اوراختلاف وانتشار کے خاتمہ میں اہم کردار ثابت ہوں گے ۔
بہر حال موجودہ حالات اور عصرحاضر میں جس طرح دنیا بھر کے مسلمانوں کو مختلف چیلنجز اور مسائل کا سامناہے اس کے پیش نظر دنیا بھر کے مسلمانوں کو آپسی معاملات باہمی اتحاد و یگانگت سے حل کرنے چاہیے اور دشمن کا مقابلہ بھی ا ±مت کے اتحاد سے ہی کیا جا سکتا ہے۔
( مضمو ن نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)