ہندوستان کی مسلم سیاست پردرد انگیز ہنسی آتی ہے !

ثناءاللہ صادق تیمی
بر وقت ہندوستان کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش میں انتخاب چل رہا ہے ، مختلف سیاسی پارٹیوں کے بیچ گھمسان ہے ، بی جے پی ، ایس پی ، بی ایس پی ، میم ، پیس پارٹی اور کیا کیا پارٹیاں میدان میں ہیں ، لفظوں کے ایک پر ایک تیر چھوڑے جارہے ہیں ، ترقی کے کیا کیا وعدے ہورہے ہیں ، تقدیریں بدلنے کی باتیں ہورہی ہیں اور کیا کیا خواب دکھائے جارہے ہیں ۔ جنگ جیتنے کے لیے اور بھی حربے اختیار کیے جارہے ہیں ، فرقہ واریت کو بڑھاوا دیا جارہا ہے ، گندی بھاشا بولی جارہی ہے ، قبرستان اور شمشان کا موازنہ ہورہا ہے ، غنڈوں اور مافیاؤں کے مقابلے ہورہے ہیں اور وہ سب ہورہا ہے جو کسی بھی مہذب معاشرے میں نہیں ہونا چاہیے ۔ اس میں ملک کے اپنے خاص طرز کے البیلے وزیر اعظم کا اپنا راگ ہے ، اپنی پھسلتی زبان اور غیر ذمہ دارانہ بیان ہے تو دوسری طرف نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی اپنی کوششیں ہیں کہ اقتدار حاصل کیاجائے ، توڑ جوڑ اور پلٹ وار کا سلسلہ مضبوطی سے جاری ہے ۔ نتیجہ کیا آئے گا یہ تو وقت بتائے گا لیکن اس پورے ڈرامے میں ویلن تو نہیں کہنا چاہیے کہ ویلن کو بہر حال بڑا کردار دیا جاتا ہے، سائڈ ویلن کا سب سے گندا کردار مسلم سیاسی قائدین نبھا رہے ہیں ۔ معاف کیجیے گا کہ شاید اصطلاح تھوڑی زيادہ سخت ہوگئی لیکن صورت حال اس سے بھی ابتر ہے ۔ یوپی کا الیکشن اور اس میں ہماری قیادت کا چلن بہت وضاحت سے ہمارے اخلاقی زوال ، ذہنی پستی اور عقلی دیوالیے پن کا پردہ اٹھا رہا ہے ۔
اسدالدین اویسی صاحب کی قیادت میں میم چند محدود سیٹوں پر یوپی میں الیکشن لڑرہی ہے ، پیس پارٹی کے اپنی چند امیدوار ہیں ، علماء کونسل کے اپنے لوگ ہیں اور مختلف دوسری سیاسی پارٹیوں سے جڑے اور دوسرے مسلم سیاسی قائدین ہیں جو پارٹی مینوفیسٹو کے ساتھ انتخابی میدان میں ہيں ۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور ہر شہری کو جہاں ووٹ دینے کا اختیار ہے وہیں اپنی پارٹی تشکیل دینے یا تنظیم بنانے کا بھی اختیار حاصل ہے ۔ مجھے ذاتی طور پر نہ تو اویسی صاحب سے ، نہ ایوب صاحب سے اور نہ ہی رشادی صاحب سے شکایت ہے کہ انہوں نے اپنی پارٹی کیوں بنائی کہ بہر حال یہ ان کا حق ہے اور وہ اپنے حق کا استعمال کرسکتے ہیں ۔ خاص طور سے تب جب انہیں یہ لگتا ہو کہ اسی طریقے سے وہ ملک و ملت کی تعمیر و ترقی کا کام کرسکتے ہیں لیکن مجھے ان کے طرز عمل اور طریقہ عمل پر حیرت ضرور ہے ۔ ایک ہندوستانی مسلمان ہونے کی حیثیت سے میں جب ان سیاسی قائدین کو دیکھتا ہوں تو مجھے وہ ہنسی آتی ہے جو درد سے بھری ہوئی ہے ۔
اویسی صاحب اچھے مقرر ہیں ، بڑی اچھی صلاحیت کے مالک ہیں ، مناقشہ زبردست کرتے ہیں ، ملک کے قانون پر بڑی اچھی نظر ہے ان کی ، تاریخ بھی اچھی یاد ہے لیکن ان تمام کے باوجود بہار میں وہ عین سیاسی گھمسان کے وقت کود پڑے تھے ، کئی فیصلوں میں تبدیلی کی تھی اور نتیجہ یہ نکلا تھا کہ ہلا ہنگامہ کرکے بغیر کچھ حاصل کیے لوٹ گئے تھے ، ظاہر ہے اس میں بہار کے عوام کی اپنی سمجھداری تھی ۔ وہ اترپردیش میں بھی ہیں ، بہار کے بالمقابل یہاں انہوں نے تھوڑی محنت بھی کی ہے ، پہلے سے زمین تیار کرنے کی ان کی کوشش بھی رہی ہے لیکن ان تمام کے باوجود یہ سچ ہےکہ ان کا کسی سے اتحاد نہیں ہوا ہے، علماء کونسل اور پیس پارٹی ہی کی طرح وہ بزعم خود مسلمانوں کے حقوق کے لیے لڑرہے ہیں ۔ پیس پارٹی دوسری بار لڑرہی ہے ، پیس پارٹی کے قائد ڈاکٹر ایوب صاحب کی تصویر کے ساتھ ان کا ایک بڑا سا اشتہار چھپتا ہے جس میں ان پر اعتماد کی کہانی بتائی جاتی ہے ، مسیحا کے طور پر انہیں پیش کیا جاتا ہے ، ان کے ماننے والے انہیں اسی روپ میں پیش کرتے ہیں ۔ علما کونسل کی محدود رسائی معلوم بات ہے لیکن بالکل الیکشن کے درمیان انہوں نے جس طرح بی ایس پی سے گٹھ جوڑ کی بات کہی ہے اس سے ان کی سیاسی ناپختگی کا پتہ چلتا ہے ، آپ کو اگر یہ کرنا ہی تھا تو اتنے انتظار کی کیا ضرورت تھی ؟ لیکن ڈرامے میں اگر اتنے ہی مناظر ہوتے تو درد انگيز مسکراہٹ کہاں سے آتی ؟ سائڈ ویلن کا کردار ادا کرنے والے یہ مسلم سیاسی قائدین اور جماعتیں کس قدر گھٹیا ہوسکتی ہیں اس کا اندازہ اس انتخاب کے بیچ ان کے ایک دوسرے پر لگائے جانے والے الزامات سے ہوتا ہے ۔ ہندوستان میں مسلم مسائل پر مرکوزصحافت کے دم پر کہاں سے کہاں پہنچنے والے اور پھر کہاں سے کہاں گرنے والے عزیز برنی آپ کو یاد ہوں گے ، عالی جناب آج کل پیس پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کی ساری تگ ودو ، محنت اور کوشش اس میں لگی ہوئی ہے کہ اویسی صاحب کو آرایس ایس کا ایجینٹ ثابت کریں ،وہ منجھے ہوئے قلمکار ہیں ، باتیں بنانی جانتے ہیں ، اس لیے بڑی ہوشیاری سے اویسی صاحب کو ایجینٹ بتارہے ہیں ظاہر ہے کہ سلسلہ یہیں پر رک تو نہیں جاتا ہے جواب میں ان کے اپنے کردار اور ان کی پارٹی کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہيں اور پوری قوت اس میں صرف کی جارہی ہے کہ دونوں میں سے کون آرایس ایس کے ایجینٹ ہیں ۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اگر اس طرح کی صورت حال میں درد انگیز ہنسی نہیں آئے گی تو کیا آئے گی ؟
ہم کسی کو ایجینٹ نہیں کہتے ، ضمیر فروش اور ملت دشمن نہیں کہتے لیکن وہ دونوں ایک دوسرے کو کہہ رہے ہیں تو دوتین میں سے کوئی ایک بات تو ہوگی یا تو دونوں ایجینٹ ہیں ، یا دونوں نہیں ہیں یا ایک ہیں ایک نہیں ہیں یا پھر یہ ہے کہ یہ جان بوجھ کر ملت کو الجھا رہے ہیں اور یوں اپنے مخفی آقاؤں کو فائدہ پہنچا رہے ہيں !! اب بات چاہے جو ہو اس سے اتنا تو ثابت ہوہی جاتا ہے کہ یہ کس طرح کی قیادت مسلمانوں کو دینےو الے ہيں ۔ ہمیں سچ پوچھیے تو آرایس ایس اور بی جے پی سے کم اور اس طرح کی گھٹیا اور نا بالغ سیاست سے زیادہ ڈر لگتا ہے ۔ جب پوری دنیا آج یوپی کو دیکھ رہی ہے تو پردے پر ہمارے حصے کا منظر یہ ہے کہ ہم یہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ ہم میں سے کون آرایس ایس کا ایجینٹ ہے اور کون نہیں ہے ۔ ہم یہ ثابت کررہے ہیں کہ ہم ایک ناپختہ ، نبسۃ کم عقل اور بے وقوف ملت کے لوگ ہیں ، ہمیں نوشتہ دیوار پڑھنا نہیں آتا ، ہمیں تاریخ کے اسباق یاد نہیں ، ہماری نظروں میں بلندی نہیں ، ہمارے اندر ملک کو ایک اچھی قیادت دینے کی صلاحیت نہیں ۔ میں تو سرے سے مسلم سیاسی پارٹی کو مفید نہیں مانتا لیکن اس کےلیے میں کسی کو آرایس ایس کا ایجینٹ بتاؤں ، مجھے یہ بہت گری ہوئی بات لگتی ہے ۔
برنی صاحب ! آپ پچھلے کئی سالوں سے منظر نامے پر نہیں تھے ، آپ نے منظر نامے پر آنے کا بہت گھٹیا طریقہ اپنایا ہے ، آج سے چار سال پہلے اویسی صاحب کو بھی چنندہ لوگ ہی جانتے تھے ، شمالی ہندوستان لگ بھگ ان سے ناواقف ہی تھا ، ان کے چھوٹے بھائی اکبرالدین اویسی کی ایک ملک مخالف، فرقہ واریت سے لبریز، اشتعال انگیز تقریر نے انہیں دیکھتے دیکھتے ملک کے کونے کونے میں پہچان دے دی ، ان کے اندر صلاحیت اچھی تھی اس لیے وہ اس موقع کو بھنانے میں کامیاب رہے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ آپ کے عزائم کیا ہیں ؟ آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ آپ کے ان گھٹیا رویوں سے ہمیں شرمندگی محسوس ضرور ہوتی ہے ۔ پوری دنیا میں آپ کی وجہ سے جوتصویر ہماری ابھر رہی ہے اس میں ہماری نالائقی ، عقلی پسماندگی ، نا تجربہ کاری ، نا اہلی اور بےوقوفی بہت نمایاں ہے ۔ اللہ کے لیے پہلے ہی سے اس قدر مظلوم ملت کو ایک اور گھٹیا تحفہ مت دیجیے اور بدنامی سہی نہیں جاتی !!!!