مسجد پریچئے!

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

 مسجدیں اللہ کا گھر ہیں، یہ بات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے: المساجد بیوت اللہ والمؤمنون زوار اللہ (مسند دیلمی، حدیث نمبر: ۶۶۵۴، الجامع الکبیر للسیوطی، حدیث نمبر: ۱۱۸۴۸) اللہ کا گھر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مسجدوں میں وہی کام کئے جائیں گے، جن سے اللہ راضی ہوتے ہیں، دنیوی کام کاج چاہے وہ شرعا جائز ہوں، مسجد میں ان کو کرنا جائز نہیں ہے، جیسے: تجارت، ورزش، جائز ومباح کھیل، شعروسخن کی محفلیں جمانا وغیرہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں مسجدوں میں بنیادی طور پر دو طرح کے کام کئے جاتے تھے، ایک: عبادت، دوسرے: دعوت، عبادت سے مراد ایسا عمل ہے جو خالصتاً اللہ کی رضا کے لئے کیا جاتا ہو، اور جو اللہ کے سوا کسی اور کے لئے نہیں کیا جاتا ہو، جیسے : نماز، اعتکاف، تلاوت قرآن، ذکر دعاء وغیرہ۔

 دعوت سے مراد ہے اسلام کی طرف بلانا، لوگوں کو دین حق سے مانوس کرنا، نیکیوں کی ترغیب دینا، برائیوں سے روکنا، دعوت کے اصل مخاطب تو وہ لوگ ہیں، جو ابھی دامن اسلام میں نہیں آئے ہیں، قرآن مجید میں ابنیاء کے اپنی قوم سے خطاب کے مضامین کثرت سے نقل کئے گئے ہیں، جن سے یہی بات واضح ہوتی ہے؛ لیکن جو لوگ اسلام کے دائرے میں آچکے ہیں اور ایمان کی نعمت ان کو حاصل ہو چکی ہے، ان کو اعمال صالحہ کی طرف بلانا بھی دعوت ہی کی ایک صورت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں مسلمانوں کو احکام شریعت کی تعلیم بھی دیتے تھے، قرآن مجید کی تلاوت بھی سکھاتے تھے، ان کے سوالات کے جواب بھی دیتے تھے، لوگوں کے حقوق کے بارے میں بھی ان کو بتاتے تھے، آپسی اختلافات کو حل کرنے کی ترغیب بھی دیتے تھے اور تدبیر بھی بتاتے تھے، یہ سب دعوت کی مختلف صورتیں تھیں۔

 الحمد للہ مسلمانوں کو عمل صالح کی دعوت کا سلسلہ مسجدوں میں ہمیشہ سے قائم ہے، خطباء کے بیانات ، قرآن و حدیث کے دروس، فقہی مسائل کی وضاحت، دینی اجتماعات ، الفاظ قرآنی کی تعلیم وغیرہ، جو مسجدوں اور خاص کر بر صغیر کی مسجدوں کے معمولات میں سے ہیں، یہ سب دعوت کی مختلف صورتیں ہیں، اور آج ہمارے معاشرہ میں جو کچھ دینی فضا قائم ہے، اس میں ان ہی کوششوں کا حصہ ہے؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ تمام کوششیں برادران اسلام میں ہو رہی ہیں، برادران انسانیت میں اس کام کو ہم نے مکمل طور پر فراموش کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ نفرت بڑھتی جا رہی ہے، دلوں کے فاصلے وسیع سے وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں؛ کیوں کہ باہمی تعارف سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور فاصلے سمٹتے ہیں، اس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

 قرآن مجید میں خود یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے کہ دعوت محبت کو جنم دیتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس کا اثر ایسا ہوگا کہ تمہارے دشمن گہرے دوست بن جائیں گے: فاذا الذی بینک ونینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم (حٰم سجدہ:۳۴) اس کی واضح مثال ہمارے ملک میں صوفیاء کرام کی خدمات ہیں، خواجہ معین الدین اجمیریؒ، خواجہ نظام الدین اولیاؒ، خواجہ گیسو درازؒ اور ملک بھر میں جن بزرگوں کے مزارات ہندوؤں اور مسلمانوں کا مرکز توجہ ہیں، یہ سب اپنے عہد کے اعلیٰ درجہ کے مبلغ اور داعی تھے، ان کے اخلاق، انسانیت نوازی ، بلند کرداری اور حسن سلوک سے متاثر ہو کر اتنی بڑی تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے کہ جن کا شمار بھی دشوار ہے اور ایسے علاقوں میں اسلام کی اشاعت ہوئی، جو مزاج کی شدت اور اخلاق کی درشتی کے اعتبار سے مشہور زمانہ تھے، جیسے: راجستھان، میوات وغیرہ؛ لیکن ان کی خاموش دعوت نے لوہے کے دلوں کو موم کی طرح پگھلا دیا، اور آج بر صغیر میں جو مسلمان آباد ہیں، ان کی بڑی تعداد ان ہی حق کے پرستاروں اور نو مسلموں کی نسل سے ہیں، بادشاہوں نے زمینیں فتح کیں اور دنیائے اخلاق کے ان بادشاہوں نے لوگوں کے قلوب کو فتح کیا، زمینی بادشاہت تو ختم ہوگئی؛ لیکن قلب وروح کی بادشاہت ان بزرگوں کے دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی آب وتاب کے ساتھ قائم ہے اور آئندہ بھی قائم رہے گی۔

 دعوت صرف زبان اور قلم سے ہی نہیں ہوتی، عمل سے بھی ہوتی ہے، اور یہ دعوت زیادہ موثر ہوتی ہے، اس دعوت کا ہتھیار ہے: حسن اخلاق، اس کا نشانہ بہت کم چوکتا ہے، اور اگر مخاطب کو اپنا غلام بے دام نہ بنایا جا سکے تب بھی ضرور ہی ان کو نرم اور گداز کر دیتا ہے: ادفع بالتی ھيأحسن فاذ الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم (حم سجدہ: ۳۴)ملک کے موجودہ حالات میں برادران وطن تک اسلام کو پہنچانے اور اس کے لئے خاموش دعوت کا طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اور اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ہم مواقع اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے مسجدوں میں برادران وطن کو مدعو کریں، ان کو اذان کا مفہوم، سورۂ فاتحہ کا ترجمہ ، رکوع وسجدہ کی تسبیحات اور اذکار نماز کے معانی آسان زبان میں سمجھائیں، ان شاء اللہ اس کا غیر معمولی اثر ہوگا، مجھے اس سلسلے میں خود اپنا ایک واقعہ یاد آتا ہے، میں ایک بار ٹرین کے ذریعہ بہار سے حیدرآباد آرہا تھا، اور ان دنوں کسی وجہ سے ٹرین گھوم کر مدھیہ پردیش کے بعض علاقوں شاید رائے پور یا بلاس پور سے گزر کر حیدرآباد پہنچتی تھی، میرے ساتھ میرے بچے بھی تھے، جو اس وقت بہت کم سن تھے، جب ایک بڑے اسٹیشن پر ٹرین رکی تو ہماری کوچ میں جَین فیملی کے ایک صاحب اپنے بچوں کے ساتھ آکر بیٹھے، وہ ہماری صورت دیکھ کر بہت کھنچے ہوئے تھے، میں جب چھوٹے بچوں کے ساتھ سفر کرتا ہوں تو کچھ بسکٹ اور چاکلیٹ خرید کر ساتھ رکھ لیتا ہوں؛ تاکہ وہ ٹرین میں ادھر اُدھر کی غبار آلود چیزیں نہ کھائیں، میں نے اپنی نواسی کے ہاتھ میں چند چاکلیٹ دئیے، اور اشارہ کیا کہ اُن بچوں کو لے جا کر دو، بچے بھی اس کے ہم عمر تھے، ان کے بچوں نے لے لیا؛ کیوں کہ بچے تو بچے ہوتے ہیں، وہ میں اور تم کا امتیاز نہیں کرتے، پھر بچے آپس میں بات چیت کرنے اور کھیلنے لگے تو اُن صاحب کے انداز میں کسی قدر تبدیلی رونما ہوئی۔

  آہستہ آہستہ وہ مجھ سے کچھ سوالات کرنے لگ گئے، اور بہت جلد مذہبی سوالات پر آگئے، انھوں نے کہا کہ آپ اتنے اچھے لوگ ہیں؛ لیکن پھر جیو (جاندار) کو کاٹ کر کیوں کھاتے ہیں؟ آپ کو نہیں لگتا کہ یہ بے رحمی کی بات ہے، میں نے کہا کہ ہم لوگ بھی خدا پر یقین رکھتے ہیں اور آپ بھی، اس دنیا کے پرمیشور نے یہی سسٹم بنایا ہے کہ اس کی ایک مخلوق دوسری مخلوق کے لئے خوراک کا کام کرے، اب آپ دیکھئے کہ جو پودے اور نباتات ہیں وہ بھی خدا کی مخلوق ہیں، اور موجودہ سائنس کہتی ہے کہ ان پودوں میں بھی حیات ہے، ان کے اندر احساس وشعور بھی ہے اور خوشی اور غم کے جذبات بھی ہیں، تو کیا ہم چاول، گیہوں کھانا چھوڑ دیں گے؟ ہم جو ایک گلاس پانی پیتے ہیں، اگر اس کو مائیکرو اسپیس سے دیکھا جائے جس کا میڈیکل ٹیسٹ کے لئے استعمال ہوتا ہے تو نظر آئے گا کہ سینکڑوں جراثیم اس میں تیر رہے ہیں، تو ا گر ہم قدرت کے اس نظام سے مُکر جائیں تو نہ کھانے کا ایک دانہ کھا سکیں گے اور نہ پانی کا ایک قطرہ پی سکیں گے، دنیا کی مخلوقات میں انسان چوں کہ سب سے اعلیٰ مخلوق ہے؛ اس لئے اس کو خوراک نہیں بنایا جا سکتا؛ لیکن درندے جانور ان کو بھی خوراک بنا لیتے ہیں اور یہ بات اللہ ہی نے ان کی فطرت میں ڈال رکھی ہے۔

 وہ کافی خوش ہوئے، کوئی جواب تو نہیں دیا؛ لیکن کہا کہ میں نے تو اس طرح سوچا ہی نہیں تھا، پھرکہنے لگے کہ یہ جو آپ لوگ مسجد سے چیختے ہیں، اور پکار پکار کر’’ اللہ اکبر‘‘ کہتے ہیں اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا : انسان کی ایک کمزوری یہ ہے کہ جب بھگوان اس کو کوئی نعمت دیتا ہے تو وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگتا ہے، دولت مند سمجھتا ہے کہ میری دولت بڑی ہے؛ اس لئے وہ غریبوں اور مزدوروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے، حکمراں سمجھتا ہے کہ میری حکومت بڑی ہے، وہ رعایا کو نیچی نظر سے دیکھتا ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ سمجھتے ہیں کہ میری تعلیم کا د رجہ بڑا ہے، جتنے جاہل اور کم پڑھے لکھے لوگ ہیں، وہ معمولی درجہ کے ہیں، اُن کو وہ حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے، اور جب انسان دوسروں کو نیچی نظر سے دیکھتا ہے تو اس میں تکبر، اپنی بڑائی کا احساس اور دوسرے کی تحقیر کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے، دنیا میں جتنا ظلم ہوتا ہے، اس کا اصل سبب یہی ہے؛ اس لئے بار بار اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہلایا جاتا ہے کہ یاد رکھو ! پرمیشور بڑا ہے، نہ تمہاری دولت بڑی ہے ، نہ تمہاری عزت ، نہ تمہارا علم بڑا ، نہ تمہارا اقتدار، یہ سب چھوٹے ہیں، خدا بڑا ہے، یہ چیز انسان کو تکبر میں مبتلا ہونے سے بچاتی ہے، میں نے اس کے ساتھ ساتھ اذان کے دوسرے کلمات کی بھی وضاحت کی، انھوں نے بڑی توجہ سے سنا اور اخیر میں کہنے لگے کہ آپ نے تو لاکھوں کی بات بتا دی، مسجد کے ایک امام صاحب میرے دوست ہیں، ان سے میں نے کئی بار اس کا مطلب پوچھا؛ مگر انھوں نے نہیں بتایا، سکندرآباد میں جب ہم لوگ اترے تو وہ تلنگانہ کی اپنی کسی مذہبی زیارت گاہ پر جانا چاہ رہے تھے، باہر نکلے تو میری گاڑی آچکی تھی اور وہ لوگ گاڑی کے انتظام میں مشغول تھے، میں نے ان سے کہا کہ میں تو یہیں کا رہنے والا ہوں، مجھے اپنی منزل تک پہنچنے میں کوئی دشواری نہیں ہے، ہم لوگ ایک آٹو لے کر چلے جائیں گے، آپ پہلی بار آئے ہیں اور آپ کو دور جانا ہے تو میری گاڑی لے کر چلے جائیں، ان شاء اللہ میرے ڈرائیور صاحب آپ کو بہت اچھی طریقہ پر پہنچا دیں گے، انھوں نے بہت شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ ہم لوگوں کے گرو ہیں، پھر انھوں نے اور ان کے رفقاء سفر نے اپنی تہذیب کے مطابق میرے پاؤں چھوئے اور کہنے لگا کہ ہم نے پہلے ہی سے گاڑی بک کرا لی ہے ، وہ چند منٹوں میں ہی آجائے گی، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سیدھی سادھی دو چار بھلی باتیں کہنے کا لوگوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ (جاری)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com