زکوٰۃ — ضروری احکام

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

شرائط زکوٰۃ:

۱۔ زکوٰۃ اس شخص پر واجب ہوتی ہے، جو مسلمان، عاقل اور بالغ ہو، نابالغ بچوں کے مال میں زکوٰۃ واجب نہیں(ہدایہ مع الفتح: 115/2 پاگل کے مال میں بھی زکوٰۃ وااجب نہیں ہوتی۔(حوالۂ سابق)

۲۔ زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مالِ زکوٰۃ مکمل طور پر اس کی ملکیت میں ہو( تاتارخانیہ:217/2)رہن رکھی ہوئی چیز پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، ( عالمگیری: 172/1 ) البتہ امانت رکھی ہوئی چیز میں زکوٰۃ واجب ہوگی اور اصل مالک اس کی زکوٰۃ ادا کرے گا، (فتح القدیر:221/2)بینک اور فکسڈ ڈپازٹ میں رکھی ہوئی رقم پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔

۳۔ قرض دی ہوئی رقم یا تجارتی سامان کی قیمت باقی ہو، اور جس کے ذمہ باقی ہو وہ اس کا اقرار بھی کرتا ہو اور بظاہر اس قرض کی وصولی کی توقع ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی، فی الحال بھی ادا کر سکتا ہے، اور قرض وصول ہونے کے بعد بھی پوری مدت کی زکوٰۃ ادا کر سکتا ہے، قریب قریب یہی حکم ان بقایاجات کا ہے، جو اُجرت ومزدوری، کرایہ مکان وسامان یا رہائشی مکان کی قیمت وغیرہ کے سلسلے میں ہے، اور وصولی متوقع ہو، ان پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی، خواہ ابھی ادا کر دے یا قرض وصول ہونے کے بعد (تاتارخانیہ: 301/1) ایسا قرض جس کی وصولی کی توقع نہ ہو؛ لیکن وصول ہو گیا یا قرض کسی مال کے بدلہ میں نہ ہو، جیسے مہر وغیرہ، مقروض دیوالیہ ہو اور وصولی کی امید نہ ہو، قرض کا انکار کرتاہو اور مناسب ثبوت موجود نہ ہو، ان تمام صورتوں میں جب بقایا جات وصول ہو جائیں اور سال گزر جائے تب ہی زکوٰۃ واجب ہوگی، اس سے پہلے نہیں۔ (بدائع الصنائع: 210/2)

۴۔ ضروری اور استعمالی چیزوں میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، اور ان کو مستثنیٰ کر کے ہی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، ایسی ہی اشیاء کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ حاجت اصلیہ‘‘ کہتے ہیں، رہائشی مکانات، استعمالی کپڑے، سواری کے جانور یا گاڑی، حفاظت کے ہتھیار، زیبائش وآرائش کے سامان، ہیرے جواہرات، یاقوت، قیمتی برتن وغیرہ میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، (عالمگیری: 172/1) صنعتی آلات اور مشینیں جو سامان تیار کرتی ہیں اور خود باقی رہتی ہیں، کرایہ کی گاڑیاں، ان چیزوں میں بھی زکوٰۃ نہیں؛ البتہ رنگریز جو کپڑے رنگنے کا پیشہ رکھتا ہو، اس کے پاس محفوظ رنگ میں زکوٰۃ واجب ہوگی، (فتح القدیر: 121/2)جو کتابیں مطالعہ کے لئے ہوں، ان میں بھی زکوٰۃ واجب نہیں، (فتح القدیر: 120/1) البتہ ان چیزوں میں سے کسی بھی چیز کی تجارت کی جائے تو اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی۔

سال کا گزرنا

مختلف مالوں میں زکوٰۃ کا جو نصاب شریعت نے مقرر کیا ہے، اس کے مالک ہونے کے بعد سال گزر جائے تب ہی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؛ البتہ اس سے زرعی پیداوار اور پھل مستثنیٰ ہیں، کھیت جوں ہی کاٹے اور پھل توڑے جائیں اسی وقت عُشر نکاال دینا ضروری ہے (المغنی:297/2)

سونا چاندی، نقد رقم اور تجاریت سامانوں میں اصول یہ ہے کہ اگر اس مال کا کچھ حصہ بھی باقی رہے تو درمیان سال میں کمی بیشی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اختتام سال پر مقدار نصاب یا اس سے زیادہ جتنا مال موجود ہو، اس کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی، (بدائع الصنائع:13/2) مثال کے طور پر یکم رمضان المبارک 1445 ھ کو پہلی بار نصاب زکوٰۃ کا مالک ہوا، سال کے درمیان رقم گھٹی اور بڑھتی رہی؛ لیکن اگلے سال کی یکم رمضان المبارک کو پھر اس کے پاس نصٓب زکوۃ موجود ہے، یا درمیان سال میں مال کے اضافہ کی وجہ سے وہ دو تین نصاب کا مالک ہو چکا ہے تو اب دوسرے سال یکم رمضان المبارک کو انی ملکیت میں موجود سونا، چاندی، نقد رقم، بینک میں محفوظ رقم، دوکان میں موجود تجارتی سامان سب کی مجموعی قیمت جوڑ لے، کچھ قرض اس کے ذمہ باقی ہو تو اس کو منہا کر کے اور بقیہ رقم میں ڈھائی فیصد یعنی ایک ہزار پر پچیس روپئے کے لحاظ سے زکوۃ ادا کردے، سال سے قمری یعنی چاند والا سال مراد ہے۔

دَین کی منہائی

اگر کسی کا قرض باقی ہو تو اس کو منہا کر کے زکوۃ واجب ہوتی ہے، (عالمگیری: 173/1) البتہ زرعی پیداوار سے دَین منہا نہیں کیا جا سکتا، جتنی پیداوار ہو، اس کا عشر ادا کرنا ہوگا، (شامی: 206/2 ) فی زمانہ بیوی کا مہر جو شوہر کے ذمہ واجب ہو اس کو بھی زکوۃ سے منہا نہیں کیا جائے گا (تاتارخانیہ: 291/2 )

صنعتی اور ترقیاتی قرضے جو سرکاری یا ـغیر سرکاری اداروں سے حاصل کئے جاتے ہیں، اور انہیں طویل مدت یعنی دس بارہ سال میں ادا کرنا ہوتا ہے، اس میں اصول یہ ہے کہ ہر سال قرض کی جتنی قسط ادا کرنی ہے، اس سال اتنی رقم منہا کر کے زکوٰۃ کا حساب کیا جائے گا، نہ کہ پورے قرض کا۔

اموال زکوٰۃ

شریعت نے ہر مال میں زکوٰۃ واجب قرار نہیں دی ہے؛ بلکہ خاص خاص مال ہی میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، ہندوستان میں عام طور پر جن اموال میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، وہ یہ ہیں:

معدنی اشیاء میں:سونا، چاندی، کاغذی نوٹ اور رائج الوقت سکے بھی فی زمانہ سونے چاندی ہی کے حکم میں ہیں۔

سامان تجارت:کوئی بھی سامان ، جس کی خریدوفروخت کی جائے۔

زمینی پیداوار:تمام اجناس، پھل اور ترکاریاں۔

زکوٰۃ کا نصاب

زمینی پیداوار خواہ کتنی بھی ہو، اس میں عشر واجب ہوگا؛ لیکن سونا، چاندی، روپئے، تجارتی سامان وغیرہ میں ایک مخصوص مقدار ہے، اتنی مقدار کا مالک ہونے پر ہی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، اسی مقدار کو نصابِ زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔

۰ سونے کا نصاب 20 مثقال سونا ہے، جو ساڑھے سات تولہ اور جدید اوزان میں 479ء87 گرام ہوتا ہے۔

۰ چاندی کا نصاب دو سو درہم ہے، جو ساڑھے باون تولہ ہے اور جدید اوزان میں 35ء612 گرام ہوتا ہے۔

۰ نصاب زکوۃ پر اگر کچھ مقدار کا اضافہ ہو مثلا ساٹھ تولہ چاندی یا آٹھ تولہ سونا ہو تو اس زیادہ حصہ پر بھی ڈھائی فی صد کے حسااب سے زکوٰۃ واجب ہوگی (فتح القدیر: 159/2 )

۰ سونے چاندی میں اگر کچھ مقدار کھوٹ کی ہو اور غلبہ سونے چاندی کا ہو تو وہ پوری چیز سونا چاندی ہی کے حکم میں ہوگی (فتح القدیر: 161/2)

۰ سونا چاندی جس صورت میں بھی ہو، اس میں زکوۃ واجب ہے؛ اسی لئے روز مرہ کے استعمالی زیوارات کی بھی زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ (حلیۃ العلماء: 92/3)

۰ گوٹے اور لچکے وغیرہ میں جو سونا اور چاندی ہو اس کا بھی حساب کیا جائے گا اور اس میں بھی زکوٰۃ واجب ہوگی (جدید فقہی مسائل:102/1 )

۰ کوئی سامان اس وقت تجارتی سمجھا جائے گا، جب اس میں دو باتوں میں سے ایک پائی جائے یا تو تجارت ہی کی نیت سے خرید کیا ہو یا پہلے سے ملکیت میں موجود تھاا، تو اب اس کو بیچ دے، وہ سامان جو پہلے سے موجود اور اس کی ملکیت میں موجود ہو، محض تجارت کے ارادہ سے تجارتی سامان شمار نہیں کیا جائے گا (تاتارخانیہ: 239/2)

۰ باونڈز اور شئیرز بھی سمان تجارت ہی کے حکم میں ہ یں، اور ان میں زکوۃ واجب ہوگی (جدید فقہی مسائل: 114/1)

۰ اگر ایک شخص کا سرمایہ ہو اس سے تجارت کی جائے اور دونوں نفع میں شریک ہوں تو سرمایہ کار تو اپنے اصل سرمایہ اوراپنے حصے کے منافع دونوں کی زکوٰۃ ادا کرے گا، جب کہ تاجر صرف اپنے حصہ ٔ نفع کی زکوٰۃ ادا کرے گا۔(المغنی: 241/2)

زکوٰۃ کی مقدار

سونا چاندی اور سامان تجارت اور نقد رقم ان تمام میں ڈھائی فی صد یعنی ایک ہزار روپئے پر پچیس روپئے کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔

مویشیوں جیسے بکریوں، مرغیوں وغیرہ کی تجارت کی جائے تو ان کی بھی قیمت لگائی جائے گی اور اسی قیمت پر ڈھائی فیصد ہی کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہوگی، (المغنی: 338/2) زراعتی اور غیر زراعتی زمینوں کی خریدوفروخت کرتا ہو تو تجارتی سامان کی طرھ اس میں بھی ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی (حوالۂ سابق)

زکوٰۃ کی ادائیگی

۰ زکوٰۃ کے فرض ہونے پر اجماع واتفاق ہے، زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد اسے بلا تاخیر اور بہ عجلت ممکنہ فوری زکوٰۃ ادا کر دینی چاہئے، بلا وجہ زکوٰۃ ادا کرنے میں تاخیر کرنا گناہ ہے (فتح القدیر: 114/2)

۰ زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد وہ مال جس پر زکوٰۃ ادا کرنی تھی، اگر ضائع ہو جائے تو زکوٰۃ معاف ہو جاتی ہے؛ لیکن اگر زکوٰۃ ادا کرنے میں بلا وجہ تاخیر کی گئی تھی تو اس تاخیر کا وبال بہر حال اس پر پڑے گا، قصداََ مال زکوٰۃ ضائع کر دے تو زکوٰۃ معاف نہیں ہوگی (تاتارخانیہ:293/2)

۰ اگر کوئی شخص اپنا پورا مال صدقہ کر دے تو پورے مال کی اور نصاب کا کچھ حصہ صدقہ کر دے تو اتنے حصہ کی زکوٰۃ اس سے معاف ہو جائے گی۔( ہدایہ مع الفتح: 27/2)

۰ نصاب زکوٰۃ کا کچھ حصہ ضائع ہو جائے تو اسی تناسب سے زکوٰۃ بھی معاف ہو جائے گی (بدائع الصنائع:23/2)

۰ زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد مالکِ نصاب کا انتقال ہو جائے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی وصیت کر جائے تو اس کے متروکہ مال ک ے ایک تہائی حصہ سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی، (تاتارخانیہ: 296/2) اگر متروکہ کا ایک تہائی اتنا نہ ہو کہ اس سے متوفی کے ذمہ واجب زکوٰۃ پوری ادا ہو سکتی ہو تو اب یہ ورثاء کی مرضی پر ہوگا کہ وہ اپنے حصہ وراثت میں سے زکوٰۃ کا بقیہ حصہ ادا کر دیں۔

۰ نصاب زکوٰۃ کا مالک ہونے کے بعد ایک یا کئی سال کی پیشگی زکوٰۃ ادا کی جا سکتی ہے (ردالمحتار: 27/2)

۰ زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے نیت کرنا ضروری ہے، (بدائع الصنائع: 40/2)یا تو حقداروں کو زکوٰۃ دیتے وقت نیت کرے، یا زکوٰۃ کا مال الگ کرتے ہوئے نیت کرے، ایسی صورت میں اب دیتے ہوئے نیت ضروری نہ ہوگی (المغنی: 260/2)

۰ زکوٰۃ اگر کسی شخص کے حوالہ کی جائے کہ وہ اسیف فقراء میں تقسیم کر دے تو اس تقسیم کرنے والے کا نیت کرنا ضروری ہے (ہدایہ مع الفتح: 125/2)

۰ زکوٰۃ کی مد میں سے کچھ رقم کسی مستحق کو دی گئی؛لیکن دیتے وقت نیت نہیں کی، بعد کو نیت کی، تو اگر نیت کرنے کے وقت وہ پیسے مستحت کے پاس موجود تھے تو وہ زکوٰۃ شمار ہوگی؛ لیکن اگر وہ شخص اس رقم کو خرچ کر چکا ہو تو وہ ادائی زکوٰۃ میں شمار نہیں ہوگی؛ بلکہ دوبارہ ادا کرنا ہوگا (المغنی:265/2)

۰ کسی شخص کے ذمہ دَین باقی ہو، دین کو معاف کر دے اور زکوٰۃ کی نیت کرے تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی اور نہ اس نیت کا اعتبار ہوگا، ہاں اگر زکوٰۃ اسے دے دے اور پھر اس سے اپنا قرض وصول کر لے تو زکوٰۃ ادا ہوگئی (مراقی الفلاح: 470)

۰ زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے نیت اور جس کو زکوٰۃ دے رہا ہو، اس کے مصرف زکوٰۃ ہونے کی تحقیق کافی ہے، یہ ظاہر کرنا ضروری نہیں کہ زکوٰۃ دی جا رہی ہے اگر عیدی یا تحفہ کے نام سے دے دی جائے تب بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی (ردالمحتار: 86/6)

۰ جس مال میں زکوٰۃ واجب ہوئی، خود اس مال کے ذریعہ بھی زکوٰۃ ادا کی جا سکتی ہے، اور اس کی قیمت کے ذریعہ بھی،یہی حکم صدقۃ الفطر، نذر اور کفاارہ کا بھی ہے (ہدایہ مع الفتح: 144/2)

۰ قیمت کے ذریعہ زکوٰۃ ادا کرنے میں اس وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگا، جب نصابِ زکوٰۃ پر سال گزرا اور زکوٰۃ واجب ہوئی۔ (ردالمحتار: 24/2)

۰ اور اس جگہ کی قیمت کا اعتبار ہے، جہاں مال ہے، نہ کہ مالک کے مقام سکونت کا ۔( حوالۂ سابق)

۰ زکوٰۃ سے بچنے کے لئے ’’ حیلہ‘‘ جائز نہیں ہے، اور گناہ ہے۔ (کتاب الخراج لابی یوسف: 80)

زکوٰۃ کے مصارف

۱۔ قرآن مجید میں کل آٹھ مصارف کا ذکر کیا گیا ہے، زکوٰۃ کےا نہی مدات میں سے کسی ایک یا چند میں خرچ کرنا ضروری ہے، ان میں سے بعض مدات موجودہ دور میں موجود نہیں ہیں؛ البتہ پانچ مصارف باقی ہیں، اور وہ یہ ہیں :(1) فقیر، یعنی وہ شخص جو بالکل نادار ہو ( 2)مسکین، جس کے پاس سامانِ کفایت کا کچھ حصہ ہو؛ لیکن پورا نہیں ، اور ابھی اس کی حاجت باقی ہو (3) عاملین، یعنی جن کو زکوٰۃ وعشر وغیر کی وصولی کے لئے مقرر کیا گیا ہو، یہ صاحب نصاب ہوں، تب بھی انہیں زکوٰۃ میں سے ان کے کام کی اُجرت کے طور پر زکوٰۃ دی جا سکتی ہے، اور وہ لے سکتے ہیں ، زکوٰۃ کی جمع وتقسیم کے لئے اور تحریر وغیرہ کے لئے سبھی یہی مسئلہ ہے(بدائع: 43/2،قرطبی: 169/8، الام: 81/2)۔(4)مقروض جن کو قرآن مجید نے ’’ غارمین ‘‘ کہا ہے ، یعنی ایک شخص صاحبِ نصاب ہو؛ لیکن اس پر لوگوں کے اتنے قرض ہوں کہ ان کو ادا کرے تو صاحب نصاب باقی نہ رہے ، ایسے شخص کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے اور عام فقراء کے مقابلہ ان کو زکوٰۃ دینے میں زیادہ اجر ہے۔(5) مسافرین یعنی وہ لوگ جو اصلاََ تو زکوٰۃ کے حقدار نہ ہوں؛ لیکن سفر کی حالت میں ضرورت مند ہوگئے ہوں، یہ زکوٰۃ لے سکتے ہیں، مگر اتنا ہی جتنے سے کام چل جائے(تاتارخانیہ: 271/2، البحرالرائق: 242/2)

۰ زکوٰۃ کی رقم صرف مسلمانوں ہی کو دی جائے گی ، غیر مسلم کو نہیں۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ: 183/2)

۰ موجودہ دور میں بنو ہاشم وسادات کو (جن کی حاجت کسی اور مد سے پوری نہ ہو پائے) زکوٰۃ دی جا سکتی ہے ۔

۰ والدین ، دادا، دادی، نانا، نان ی اولاد اور ان کا سلسلہ اولاد، شوہر بیوی ان اقرباء میں شامل ہیں، جنہیں زکوٰہ نہیں دی جا سکتی ہے (بدائع الصنائع: 49/2)

۰ جو شخص بنیادی ضروریات کے علاوہ زمین، کھیت، فاضل مکان، غیر استعمالی کپڑے وغیرہ اشیاء میں اتنی جائیداد کا مالک ہو کہ اس کی قیمت ساڑھے باون توجہ چاندی کو پہنچ جاتی ہو تو اس کے لئے زکوٰۃ لینی جائے نہیں (بدائع الصنائع: 48/2)

۰ محتاج اور مالدار ہونے میں نابالغ بچوں کا وہی درجہ ہوگا، جو اُن کے ماں باپ کا ہے، باپ کے لئے زکوٰۃ جائز ہو تو ان کے لئے بھی جائز ہوگی اور باپ کے لئے جائز نہ ہو تو ان کے لئے بھی زکوٰۃ جائز نہیں ہوگی۔ (البحرالرائق: 245/2)

۰ بالغ لڑکوں کو فقیر ومالدار ہونے میں خود اُن کا اعتبار ہے، باپ گو مالدار ہو؛ لیکن لڑکے محتاج ہوں تو زکوٰۃ لے سکتے ہیں (حوالۂ سابق)

۰ حاجت مند ، علوم دینیہ کے طلبہ اور دین دار محتاجوں کو زکوٰۃ دینے میں زیادہ ثواب ہے۔ (ردالمحتار: 69/2)

۰ اسی طرح اان اقربا کو زکوٰۃ دینا (اگر وہ مستحق ہوں) زیادہ بہتر ہے، جو زکوٰۃ لے سکتے ہیں، جیسے: بھائی، بہن،  چچا ، پھوپھی، خالہ، ماموں اور چچازاد ، خالہ ز اد بھاء بہن وغیرہ (ردالمحتار: 67/2 )

۰ یہ بات بہتر ہے کہ اہل شہر کو زکوٰۃ دینے میں اولیت دی جائے، ہاں اگر دوسری جگہ زیادہ محتاج لوگ ہوں، دینی ادارے ہوں، اقرباء ہوں، تو دوسرے شہر کو زکوٰۃ بھیجنے میں کوئی قباحت نہیں؛ بلکہ بہتر ہے (تاتارخانیہ: 282/2 )

۰ زکوٰۃ کے جو مدات قرآن مجید نے متعین کئے ہیں، اگر ان میں سے ایک یا بعض ہی پر پوری زکوٰۃ صرف کر دیں تو ک وئی حرج نہیں (الجامع لاحکام القرآن: 167/8)

۰ بہتر ہے کہ زکوۃ اتنی مقدار میں دی جائے کہ ضرورت پوری ہو جائے، مقروض ہو تو قرض ادا ہو جائے، مسافر ہو تو منزل تک پہنچ جائے، فقراء کو امام ابو حنیفہؒ کے یہاں بہتر ہے کہ ایک مقدار نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے کم دے، مقدار نصاب سے زیادہ دے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؛ لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے (المغنی: 382/2)کثیر العیال شخص کو مقدارِ نصاب سے زیادہ زکوٰۃ دی جا سکتی ہے؛ بشرطیکہ اس کے زیر پرورش لوگوں پر تقسیم کی جائے تو نصاب زکوٰۃ کی قیمت سے کم ہر ایک کے حصہ میں آتی ہو ۔(قرطبی: 191/8)

۰ مُردوں کی تجہیز وتکفین اور مسجدوں کی تعمیر میں زکوٰۃ کی رقم صرف نہیں کی جاسکتی۔ (ہدایہ مع الفتح: 207/2)پُلوں کی تعمیر، سڑکوں کی مرمت اور اس طرح کی دوسری چیزوں میں بھی زکوٰۃ صرف نہیں کی سکتی۔ (مجمع الانہر: 222/1)

۰ زکوٰۃ کی رقم کو قرض کے لین دَین کے لئے محفوظ کرنا یا کاروبار میں لگانا اور اس کا نفع فقراء پر تقسیم کرنا درست نہیں اور اس سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔

۰ ایسے ضروری دینی اور قومی کام، جن پر زکوٰۃ کی رقم صرف نہیں کی جا سکتی ، اس کا اگر کسی فقیر کو مالک بنا دیا جائے اور وہ زکوٰۃ کی وہ رقم ایسے کاموں پر صرف کرے تو کوئی حرج نہیں۔ (درمختار علی ہامش الرد: 16/2)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com