نشی کانت کی آڑ میں عدلیہ پر حملہ، اصل منصوبہ ساز پس پردہ

ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے

جب کوئی رکنِ پارلیمان عدلیہ کے خلاف مہم چلاتا ہے، تو یہ محض غصے کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ ایک اشارہ اور منصوبہ بند پیغام ہوتا ہے۔ نشی کانت دوبے کا معاملہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ حال ہی میں ایک خبر رساں ادارے کو دیا گیا ان کا بیان محض زبان کی لغزش نہیں، بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا حملہ ہے۔ اسی لیے اس پر ملک کی طرف سے ردعمل بھی سوچا سمجھا ہونا چاہیے۔

دوبے کا متنازع بیان تھا, ”اگر جج قانون بنانا چاہتے ہیں تو پارلیمان کو بند کر دیں۔” ان کے الفاظ محض عدالتی فعالیت پر تنقید نہیں تھے بلکہ آئینی جمہوریت میں عدالتی نظرثانی کے تصور پر حملہ تھے۔ اس بیان کی وجہ سپریم کورٹ کی جانب سے ترمیم شدہ وقف ایکٹ 2025 کی چند دفعات پر حکومت سے سخت سوالات کرنا تھا۔ عدالت نے پورے قانون پر پابندی نہیں لگائی بلکہ حکومت کی تجویز کردہ عارضی معطلی کو اگلی سماعت تک قبول کیا۔ یہ عدالتی تجاوز نہیں بلکہ مناسب قانونی عمل تھا۔

اس کے باوجود دوبے کا غصہ شدید تھا اور بظاہر یہ سیاسی آقاؤں کے اشارے پر کیا گیا عمل تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ کیونکہ ترمیم شدہ وقف قانون کی چند دفعات کی معطلی سے حکمران جماعت کا سیاسی بیانیہ متاثر ہو سکتا ہے۔ یہ قانون مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت والی وقف جائیدادوں کو متاثر کرتا ہے، جن کی تاریخی جڑیں گہری ہیں۔ بی جے پی اسے تجاوزات کے خلاف اقدام کہتی ہے۔ عدالت نے احتیاط برتنے کا کہا، مگر دوبے نے اسے اکسانے والی کارروائی قرار دے دیا۔

یہ محض املاک کا معاملہ نہیں، بلکہ بہار اور پھر بنگال میں ہونے والے انتخابات سے بھی جڑا ہے جہاں مذہبی بنیاد پر قطبی سیاست آزمودہ نسخہ ہے۔ اگر عدلیہ نے رکاوٹ ڈالی تو ساری محنت پر پانی پھر سکتا ہے۔ اس لیے حکمت عملی واضح ہے، عدلیہ کی ساکھ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔

ظاہری طور پر دوبے اکیلے نہیں ہیں۔ نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ بھی، جو کہ راجیہ سبھا کے چیئرمین ہیں اور جن سے غیر جانبداری کی توقع کی جاتی ہے، سپریم کورٹ پر براہ راست حملہ آور ہو گئے۔ جب عدالت نے حکم دیا کہ گورنر زیر التوا بلوں پر مناسب وقت میں فیصلہ کریں، تو دھنکھڑ نے عدالت کی تشریح پر حملہ کیا اور آرٹیکل 142 کے استعمال کو ‘ایٹمی میزائل’ قرار دیا۔

ایسی زبان کا استعمال محض اتفاق نہیں ہے۔ جب نائب صدر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ججز مقننہ اور انتظامیہ کے دائرہ اختیار میں مداخلت کر رہے ہیں تو یہ محض ذاتی خیالات نہیں بلکہ ادارہ جاتی بیانیہ بن جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ محض ایک فرد کا ذاتی حملہ نہیں، بلکہ ایک منصوبہ بند مہم ہے۔ جب اعلیٰ عہدیدار عدلیہ کے اختیار پر شک کا اظہار کرتے ہیں تو وہ اختیارات کی علیحدگی کا دفاع نہیں بلکہ اس کی نئی تعریف پیش کر رہے ہوتے ہیں۔

گورنروں سے متعلق فیصلے میں عدالت نے محض یہ یاد دہانی کرائی کہ بلوں کو غیر معینہ مدت تک معطل نہ رکھا جائے، جو وفاقیت کی روح کے مطابق ہے۔ اس کے باوجود اس پر انفرادی نہیں بلکہ ادارہ جاتی ردعمل سامنے آیا۔ گویا اب آئینی ڈسپلن کی بات بھی خطرہ سمجھی جا رہی ہے۔

جب بھی سپریم کورٹ حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرتا ہے، چاہے وہ انتخابی بانڈ کا معاملہ ہو یا مرکزی ایجنسیوں کے بے لگام اختیارات کا، حکومت کی طرف سے ناراضگی کا مظاہرہ ضرور ہوتا ہے۔ پھر عدالت کو بدعنوان اور اقربا پرور کالجیم کے تابع ادارہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ الگ الگ واقعات نہیں بلکہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہیں: پہلے بدنام کرنا، پھر توجہ بھٹکانا اور آخرکار حاوی ہو جانا۔

یہ حکمت عملی پرانی آمرانہ تکنیک ہے: صبر کا امتحان لینا، ردعمل پر اکسانا اور پھر ادارہ کو ولن بنا دینا۔ اگر عدلیہ توہین عدالت کی کارروائی کرتی ہے تو اسے مغرور اور نخوت پسند کہا جاتا ہے اور اگر خاموشی اختیار کرتی ہے تو کمزور قرار دیا جاتا ہے۔ ہر صورت میں ہنگامہ کرنے والوں کی جیت ہوتی ہے۔

اگر یہ حملے کامیاب ہو گئے تو عدلیہ کو غیر مؤثر کرنے کے لیے اسے بند کرنے کی ضرورت نہیں، صرف اس پر عوامی شکوک پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ جب ریفری کی ساکھ ختم ہو جائے تو کھیل کے نتیجے پر بھلا کون اعتماد کرے گا؟

ہم اسی سمت بڑھ رہے ہیں۔ دوبے کا ‘خانہ جنگی’ والا بیان محض غیر ذمہ دارانہ نہیں بلکہ خطرناک ہے۔ یہ محض عدالتی بنچ کو چیلنج نہیں کرتا بلکہ عوام کو اس کے خلاف اکساتا ہے۔ ایمرجنسی کا تجربہ بتاتا ہے کہ جب عدلیہ سیاسی دباؤ میں جھک جاتی ہے تو کیا ہوتا ہے اور جب نہیں جھکتی تو کیا سلوک ہوتا ہے۔

یہ معاملہ صرف ایک رکنِ پارلیمان کا نہیں ہے۔ یہ ایک منظم سازش کا حصہ ہے جس کا نشانہ عدلیہ کی آزادی ہے۔ نشی کانت دوبے محض ایک مہرہ ہیں، ایک آزمائشی ہتھیار، جسے دروازے کو توڑنے سے قبل اس کی طاقت کا اندازہ لگانے کے لیے چلایا جاتا ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟

اٹارنی جنرل کو مداخلت کرنی چاہیے، انتقامی جذبے سے نہیں بلکہ ادارہ جاتی سالمیت کے تحفظ کے لیے۔ قانون کو جواب دینا چاہیے، مگر تحمل اور حکمت سے۔ جج صاحبان کو جب مناسب ہو، عوام کے سامنے آ کر وضاحت کرنی چاہیے کہ عدالتی نگرانی کیوں اہم ہے اور جمہوریت میں اختیارات میں توازن کیوں ضروری ہے۔

پارلیمنٹ میں اپوزیشن بھی خاموش نہیں رہ سکتی۔ اسے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے قرارداد پیش کرنی چاہیے اور جوابدہی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ اگر بچی کھچی مقننہ بھی خاموش رہی تو وہ بھی اس سازش میں شریک سمجھی جائے گی۔ اور عوام؟ ہماری بیداری ہی آخری دفاعی دیوار ہے۔ وکلا، صحافی، طلبہ – بولیے! سچ کو عام کیجیے، جھوٹ کو بے نقاب کیجیے۔ اس ملک کو یاد دلائیے کہ 1977 میں ہم نے آمریت کے جبڑوں سے جمہوریت کو واپس حاصل کیا تھا اور اگر ضرورت پڑی تو دوبارہ بھی ایسا کریں گے۔ دوبے نے سوال اٹھایا ہے، ”ججوں کا احتساب کون کرے گا؟” ہم کریں گے – عدالتوں میں، عوامی مباحثے میں اور بیلٹ باکس میں لیکن نہ دھمکیوں کے ذریعے اور نہ گالی گلوچ سے، اور نہ ہی 1950 سے چلی آ رہی آئینی ترتیب کو تباہ کرنے کے ارادے سے۔

یہ درست ہے کہ عدلیہ بے عیب نہیں لیکن جب سیاستدان اپنی تلواریں تیز کرتے ہیں تو ججوں کو آئین کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ستون گر جاتے ہیں اور جب ستون گرتے ہیں تو ان پر ٹکی چھت دھڑام سے ہم سب پر آ گرتی ہے۔ اب یہ سوال نہیں رہا کہ آیا یہ کسی منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ ہے – یہ بلا شبہ ہے۔ اب صرف ایک سوال باقی رہ گیا ہے، کیا عدالت اپنے خول میں سمٹ جائے گی یا قوم کو یاد دلائے گی کہ وہ دیگر اداروں سے کیوں بلند ہے؟

(سنجے ہیگڑے، سپریم کورٹ میں سینئر وکیل ہیں)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com