امانت میں خیانت

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 

امانت اور خیانت ایک دوسرے کی ضد ہیں، امانت سے مراد ہر وہ حق ہے جس کی ادائیگی اور حفاظت کسی شخص پر لازم کردی گئی ہو اور اس لزوم کو اس نے قبول بھی کرلیا ہو، ایسا شخص جس نے ذمہ داری قبول کرلی اسے امانت دار کہتے ہیں اور اگر اس نے پوری ایمانداری کے ساتھ امانت ادا کردی تو اسے دیانت دار کہتے ہیں، اس کے برعکس شرعی اجازت کے بغیر اگر کوئی امانت ادا نہ کرے یااس میں تصرف کرے تو اس عمل کو خیانت اور ایسا کرنے والے کو خائن کہتے ہیں۔

 امانت داری کا تعلق انسانی حقوق سے ہوتا ہے، اس لیے شریعت میں اس کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”لا ایمان لمن لا امانۃ لہ“ اس شخص کا ایمان کامل اور قابل اعتماد نہیں جس کے اندر امانت نہیں ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منافق کی علامتوں میں سے ایک قرار دیا ہے، ”اذا اؤتمن خان“ ایک اور حدیث میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تین چیزوں میں کوئی رخصت نہیں، ان میں سے ایک ہے امانت کی ادائیگی خواہ امانت مسلمان کی ہو یا کافر کی، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے اوصاف حمیدہ کی طرح امانت داری میں زمانہ جاہلیت میں بھی ممتاز تھے، اسی لیے آپؐ کے دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق الامین کہا کرتے تھے اور اپنی امانتیں تمام تر مخالفت کے باوجود آپؐ کے پاس ہی رکھا کرتے تھے، اس کا پتہ اس واقعہ سے بھی چلتا ہے کہ ہجرت کی رات حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے بستر مبارک پر سونے کا حکم اسی لیے دیا تھاکہ وہ لوگوں کی امانتیں واپس کرکے مدینہ آئیں، اس موقع سے اللہ رب العزت کا یہ ارشاد بھی ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ امانتیں امانت والوں کو پہونچا دو (سورہ نساء:58) اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ امانت میں خیانت کرنے والوں کو اللہ ہدایت سے محروم رکھتا ہے اور ظاہر ہے جب خائن ہدایت سے محروم ہوجائے گا تو قیامت میں ذلت ورسوائی اس کا مقدر ہوگی، سورہ انفال کی آیت نمبر 27 میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ ایمان والو اللہ، رسول سے خیانت نہ کرو اور آپس کی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو، حالانکہ تم جانتے ہو۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خیانت کی قباحت اور شناعت کو کثرت سے بیان کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے دور کے بارے میں بتایا کہ امانت داری لوگوں کے دلوں سے آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گی، امانت اس کے دل سے اٹھالی جائے گی، اور خیانت کا سلسلہ ایسا عام ہوجائے گا کہ ہزاروں، لاکھوں لوگوں میں کچھ لوگ امانت کا معاملہ کریں گے تو دور دور تک اس کی شہرت ہوجائے گی، ابوداؤد شریف میں ایک روایت حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی ہے کہ تم خیانت سے بچو، کیونکہ یہ پیٹ بھرنے کا بہت بُرا طریقہ ہے، اللہ رب العزت امانت دینے اور لینے والوں کے درمیان اس وقت تک رہتے ہیں جب تک وہ اپنے ساتھی کے ساتھ خیانت نہیں کرتا، دیگر احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص تیرے پاس امانت رکھے اس کو ادا کرو اور خیانت کرنے والوں کے ساتھ بھی خیانت نہ کرو، خیانت ایک ایسی صفت ہے جس کا چرچا عام ہوجاتا ہے اور خائن اللہ کے عذاب کے ساتھ لوگوں میں مطعون ہوجاتا ہے اور لوگ اس سے متنفر ہوجاتے ہیں، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ قیامت میں امانت میں خیانت کرنے والے کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا، پھر جہنم سے نکال کر وہ تمام اموال اس کے کاندھے پر ڈالا جائے گا جو پہاڑوں سے بھی بھاری ہوں گے اور وہ اس کے اوپر ہمیشہ لدا رہے گا۔

امانت کا دائرہ صرف مال کے کسی کے پاس امانتاً جمع کرنے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں کافی وسعت ہے، ایک حدیث میں نماز، وضوء، غسل، وزن، ناپ تول سب کو امانت سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی یہ اعمال بھی امانت ہیں، ان کو اس طریقہ سے ادا کرنا ضروری ہے جیسا ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، خیانت کی بعض خفی قسموں کا بھی حدیث میں ذکر ملتا ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مشورہ جس سے کیا جائے وہ امین ہے، اب اگر وہ اس مشورے کو لوگوں سے بیان کرتا پھرتا ہے تو یہ بھی خیانت کی ایک قسم ہے، اسی طرح کسی سے اس طرح باتیں کرنا کہ وہ جھوٹی باتوں کو سچ سمجھنے لگے، یہ بھی خیانت کی ایک قسم ہے، بلکہ بہت بڑی خیانت ہے، مجلسوں میں جو بات ہوتی ہے وہ بھی امانت ہے، اس بات کا افشا کرنا یا سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعہ عام کرنا خیانت کی ایک قسم ہے، کسی مجلس میں کوئی مشورہ ہو تو اسے امانت سمجھ کر محفوظ رکھنا چاہیے، اگر اس کا چرچا کیا تو یہ بھی خیانت کے ذیل میں آئے گا، حالانکہ بہت سارے لوگوں کے دلوں میں اس کا خیال بھی نہیں پایا جاتا کہ وہ ایسا کرکے خیانت کا مرتکب ہورہا ہے، حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مالدار یاتنگ دست کو امانت روکنے کی اجازت و رخصت نہیں دی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے انسان کی شرم گاہ کو پیدا کیا اور کہا کہ یہ امانت ہے، اس کی حفاظت کرو اور جائز طریقہ سے اس کا استعمال کرو، اسی بنیاد پر بعض علماء نے یہ بات لکھی ہے کہ انسان کے تمام اعضاء بلکہ اس کی جان بھی اس کے پاس اللہ کی امانت ہے، اس لیے وہ ان اعضاء کو منکرات اور منہیات کے لیے استعمال نہ کرے، زبان سے جھوٹ، غیبت، چغل خوری اور فحش گوئی نہ کرے، آنکھ سے غیر محرم کو نہ دیکھے، کان سے حرام چیزوں کو نہ سنے، امانت ہی کا تقاضہ ہے کہ انسان مسائل و مصائب سے جس قدر بھی پریشان ہو خود کو ہلاک نہیں کرسکتا، خودکشی نہیں کرسکتا، اللہ رب العزت نے صاف صاف ارشاد فرمایا کہ اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

ان تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ امانت کا تعلق رب سے بھی ہے اور انسان کے اپنے نفس سے بھی، اللہ کے ساتھ امانت یہ ہے کہ اللہ کی مرضیات پر خود کو چلایا جائے اور نفس کی امانت یہ ہے کہ اسے ان کاموں پر نہ لگایا جائے جو آخرت میں رسوائی اور خسران کا سبب بنیں، بندوں کے ساتھ امانت داری کا معاملہ یہ ہے کہ اگر امانت رکھنے والا اسے واپس لینا چاہے تو اس میں قیل وقال بالکل نہ کرے، اسے ہرحال میں واپس کردینا چاہیے، یہی شریعت کا حکم ہے اور یہی دنیا وآخرت کے لیے باعث فوز و فلاح بھی وقتی منفعت کے لیے امانت کو روکے رکھنا یا اس کا ادا نہ کرنا اخروی خسران کا سبب ہے اور منافق کی علامتوں میں سے ایک ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com